آج سے 72، 73سال پہلے کی بات ہے زمانہ سادہ تھا، میں پیدا ہوا تو جینا بھائی نے میرا نام سادہ بھائی رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں سیدھی سادی زندگی گزاروں، نہ پنگے لوں نہ پنگے میں پڑوں مگر امتدادِ زمانہ نے میرے ساتھ کچھ ایسا کھیل کھیلا کہ لوگ میرا اصلی نام سادہ بھائی بھول گئے اور اب دنیا مجھے خود فریب شاہ کے نام سے بلاتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی ’’سادہ بھائی‘‘ کوئی اتنا بھاتا نہ تھا اس لئے مجھے خود فریب کا جدید اور دلکش نام اپنانے میں دیر نہ لگی۔ ویسے بھی خود فریب اور دل فریب ملتے جلتے الفاظ ہیں بلکہ مجھے تو یہ ہم معنی بھی لگتے ہیں۔
آبائو اجداد کے شاہانہ رنگ اور مغلیہ سوچ کی وجہ سے مجھے تلخ حقائق بالکل اچھے نہیں لگتے۔ شروع سے ماحول بھی ایسا ملا کہ تلخ حقائق سے بچ بچا کر اپنی خیالی اور مثالی جنت میں پناہ لینے کی عادت پڑ گئی۔ اس خود فریبی میں بہت مزا ہے۔ میں اسی میں مست رہتا ہوں۔ خود فریبی کی وجہ سے میں ٹینشن، بلڈ پریشر اور گہری سوچ جیسی بیماریوں سے محفوظ ہوں۔ خود فریبی نشے کی طرح سکون فراہم کرتی ہے۔ اس خوب صورت احساسِ خود فریبی کی وجہ سے کیا بادشاہ، کیا رعایا، کیا سالار اور کیا پیادے‘ سبھی پریشانیوں سے دور رہتے ہیں۔ خود فریبی کو یہاں سائنس کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور اب تو خود فریبی کے اندر کئی شعبے بن چکے ہیں جن میں نمایاں ترین قومی خودفریبی، سیاسی خودفریبی، صحافتی خودفریبی، معاشی خودفریبی، سماجی خودفریبی وغیرہ وغیرہ ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ قومی خودفریبی کا جذبہ پسند ہے۔ اس جذبے کی وجہ سے میں سر اٹھا کر چلتا ہوں، دنیا مجھے اور میرے رویوں پر کچھ بھی کہتی رہے، مجھے ذرا برابر پروا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں ٹھیک ہوں، میں خود اپنا بہترین جج ہوں، مجھے کسی اور سے اپنے بارے میں فیصلہ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا میرے خلاف ہے، امریکہ اور اسرائیل اور کوئی کام ہی نہیں وہ تو دن رات میرے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں، انہوں نے بھارت کو ساتھ ملا کر شروع سے ہی میرے لیے جال بچھا رکھے ہیں۔ میرے اردگرد فحاشی، عریانی اور فیشن پھیلانے میں بھی انہی طاقتوں کا گھنائونا کردارہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی یہی حل نہیں کرنے دے رہے، افغانستان میں بھی انہوں نے ہی پھنسا رکھا ہے۔ میری خود فریبی کو دنیا بڑی عجیب نظر سے دیکھتی ہے مگر مجھے اس کی پروا نہیں، میرے جیسے میرے ہی شاعر جون ایلیا نے میری اور اپنی اس کیفیت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
معاشی خودفریبی کی وجہ سے ہی میں چلتا جا رہا ہوں وگرنہ اگر میں معاشی حقائق کی دلدل میں اتروں تو پھنس کر ہی رہ جائوں۔ میں جب سے پیدا ہوا ہوں مجھے قرضے لینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ میرے ڈیم ہوں یا ترقیاتی منصوبے، سارے کے سارے قرضوں پر بنے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ بنانے سے پہلے ہی میں سوچ لیتا ہوں کہ اس بار قرض لینے کا بہانہ کیا بنانا ہے اور کس کس سے قرض مانگنا ہے۔ 70سال سے یہ معاملہ کافی کامیابی سے چل رہا ہے، کبھی نہر سویز کا جھگڑا، کبھی کولمبو پلان، کبھی افغانستان کی جنگ اور کبھی ویتنام کی جنگ‘ مجھے دنیا سے مدد لینے کاکوئی نہ کوئی بہانہ ملتا رہتا ہے اور کچھ نہ ہو تو زلزلے، سیلاب اور قدرتی آفات ایسا موقع فراہم کر دیتی ہیں جس سے میری معیشت کا پیٹ بھرتا رہتا ہے۔ میں نہ تو اپنے خرچ کم کرنے پر تیار ہوں نہ ٹیکس ہی دینے پر راضی ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اب کورونا کے نام پر مجھے امداد ملے کیونکہ چین میرا پڑوسی ہے اور کبھی بھی وہاں سے یہ وبا ادھر آ کر پھیل سکتی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ اسے یہیں پر روک لیا جائے وگرنہ یہ میرے گھر میں نہ رک سکی تو سارے دنیا میں پھیل سکتی ہے۔ ہمیں فوراً قرض دیں وگرنہ ساری دنیا کورونا پھیلنے کے لیے تیار رہے۔
مجھے اپنی سماجی خودفریبی بہت اچھی لگتی ہے، مجھے اپنی اقدار، پرم پرا اور رسم و رواج سے بہت پیار ہے، مغربی دنیا میں نہ تو کوئی اقدار ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی ثقافت ہے۔ وہ بےشک ترقی کر رہے ہیں مگر اس بےروح ترقی کا کیا فائدہ؟۔ یہ سارے جہنم کی آگ میں جلیں گے اور ہم سب جنت کی بہاریں دیکھیں گے۔ یہ انعام ہے کہ ہم اس دنیا میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھیں گے، وہ ایجادات کریں گے اور ہم ان کا پھل کھائیں گے۔ ہم کورونا سے بچنا چاہتے ہیں، زندگی انجوائے کرنا چاہتے ہیں مگر اس کا علاج ہم نہیں مغرب ڈھونڈے۔ ہم فکر کے امام ہیں، ثقافت کے نقیب ہیں، علم ہمارے آبا کی میراث رہا ہے، اب ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں اب ہم سے مشقت نہیں ہوتی، محنت کریں گے اہلِ مغرب اور ہم اس کا پھل کھائیں گے۔
صحافتی خودفریبی بھی اچھی چیز ہے۔ دنیا کے اخبارات پڑھے بغیر اور ٹی وی و میڈیا کو جانے بغیر میری مستند رائے یہی ہے کہ دنیا بھر میں میڈیا کہیں بھی آزاد نہیں، اس لئے بےمہار آزادی کا مطالبہ ہی ناجائز ہے۔ صحافیوں کی گرفتاری جائز ہونی چاہئے اور میڈیا کی آزادی ناجائز قرار دی جانی چاہئے۔ صحافیوں کو علم ہی کیا ہے؟ انہیں کچھ علم نہیں ہوتا بس میز پر بیٹھ کر جھوٹ گھڑتے رہتے ہیں۔ اچھا تو یہ ہو کہ صحافت پابند کر دی جائے اور صرف اور صرف سرکاری اعلانات لوگوں تک پہنچائے جائیں۔ صدیوں پہلے بھی ایسا ہی رواج تھا، اب بھی یہی رواج جاری رہنا چاہئے۔ آزادی نے ہی ہمیں نقصان پہنچایا ہے اس لئے آزادی ہی کو روک دیا جائے۔
آخر میں مَیں خود فریب شاہ بقائمی ہوش و حواس یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرا مستقبل بہت ہی شاندار ہے، مَیں اس دنیا میں آیا ہی روحانی بشارتوں کی وجہ سے تھا، اس لیے میرا قائم رہنا ازلی و ابدی فیصلہ ہے۔ میں 1971میں ٹوٹا تھا مگر اس میں بھی غیبی اشارہ تھا۔ اب بھی جو بحران آتے ہیں وہ مجھے مضبوط بنا کر جاتے ہیں۔ میری قومی خودفریبی سے دنیا حیران و پریشان ہے، انہیں علم نہیں کہ میری روایت میں محمد شاہ رنگیلا بھی شامل ہے اور بچہ سقہ بھی، بغداد پر منگولوں کا حملہ بھی مجھے یاد ہے، محمد شاہ رنگیلا دہلی پر حملے کی مزاحمت نہ کر سکا۔ بچے سقے نے اڑھائی دن کی حکمرانی میں چمڑے کے سکے چلائے، خوب مزے اڑائے اور پھر فارغ ہوکر گھر کو چل دیا۔ بغداد پر حملہ ہوا تو دعائوں اور بددعائوں سے کام چلایا گیا، میں اپنی ان روایات اور ثقافت کو چھوڑ نہیں سکتا اور نہ ہی بھلا سکتا ہوں۔ خودفریبی میرا مان اور غرور ہے، میں اس کی وجہ سے سینہ تان کر چلتا ہوں۔ جو کوئی بھی مجھے حقائق کی طرف توجہ دلاتا ہے میں اس کو زندان کی سیر کروا دیتا ہوں چاہے وہ میر شکیل الرحمٰن ہو یا کوئی اور۔ میری شروع سے یہی ریت رہی ہے کہ جو بولے اس کا فوراً قلع قمع کر دو کیونکہ خودفریبی کی عمارت شیشے کا گھر ہے یہ سچ کا ایک پتھر بھی برداشت نہیں کر سکتی۔