بہت دنوں سے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے، تمام مکاتبِ فکر اسے آزادیٔ اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں مگر میں واحد شخص ہوں جس کے دل کی دیرینہ بےقراری کو ایک قرار سا آ گیا ہے۔
بات یہ ہے کہ میں ماضی کے مدیرانِ جرائد کے بارے میں پڑھا کرتا تھا کہ وہ کس بےجگری سے ہندوستان پر قابض انگریز غاصبوں کے خلاف قلمی جہاد کرتے رہے اور اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
کئی بار اپنے اخبارات بند کرائے، اسی طرح قیامِ پاکستان کے بعد بھی ہمارے درمیان ایسے مدیران موجود تھے جو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے باز نہیں رہتے تھے۔
ان میں سے کچھ کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، کچھ کو اقتصادی مار دی گئی تاکہ ان کو اطاعت پر مجبور کیا جائے لیکن پاکستان کے یہ قابلِ فخر سپوت ہر امتحان سے سرخرو ہو کر نکلے مگر کچھ عرصے سے تقریباً تمام ادوارِ حکومت میں، مارشل لا ہو یا جمہوری تماشا ہو، اخبارات پر بہت برے وقت تو آتے رہے، اشتہارات بند کر دیے گئے.
ان کی کردار کشی کی گئی، مقدمات قائم ہوئے، اس سے میرے دل کو کچھ سکون تو ملتا تھا کہ پاکستان کی صحافت اپنی آبرو کو قائم رکھے ہوئے ہے لیکن ایڈیٹروں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ تقریباً رک گیا تھا۔ اس کا مطلب میں یہ لیتا تھا کہ ہماری صحافت حق گو تو ہے مگر کچھ نرم خو بھی ہو گئی ہے، کبھی بول پڑتی ہے اور کبھی چپ ہو جاتی ہے البتہ جنگ اور جیو کا کیس مختلف تھا۔
جیو کے دفاتر پر حملے کیے گئے، اس کے کارکنوں پر تشدد ہوا، اشتہارات بند کیے گئے، کئی علاقوں میں جنگ اور جیو کی آمد پر پابندی عائد کر دی گئی، سرکاری دفاتر میں جنگ کی ترسیل روک دی گئی، میر شکیل الرحمٰن کو شدید اعصابی دبائو تلے رکھا گیا، صحافت کا یہ مردِ مجاہد صحت کے حوالے سے بہت سے مسائل کا شکار ہے مگر یہ شخص تھوڑے بہت کمپرومائز سے آگے کا سفر طے کرنے سے انکاری رہا چنانچہ جب مالی طور پر جنگ اور جیو کو شدید مشکلات کا شکار کرنے کے باوجود دیکھا کہ یہ شخص ایک حد سے زیادہ مصالحت کرنے کے ’’قابل‘‘ نہیں تو پھر اسے پابجولاں جیل کے ایک تنگ و تاریک سیل میں دھکیل دیا گیا، تب میرے دِل کو سکون ہوا اور میں نے مکمل طور پر محسوس کیا کہ میں ایک قابلِ فخر صحافتی ادارے سے منسلک ہوں۔
وہ کون لوگ ہیں جو بیرونِ ملک پاکستان کی بعض دوسری بدنامیوں کے علاوہ اسے ایک فاشسٹ ملک کے طور پر بھی پیش کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں وہی کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے جس سے حکومتِ وقت کی پیشانیوں پر بل نہ پڑے۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے بعض مشیروں کا نام لیا جا رہا ہے جو حکومت کی بدنامی کا باعث بننے والی خبروں کی اشاعت اور نشریات کی نشاندہی کو وزیراعظم کے سامنے منفی انداز میں پیش کرتے ہیں حالانکہ خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والا دشمن نہیں دوست ہوتا ہے کیونکہ اس سے حکومت کو ان فیصلوں کی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے اور یوں حکومت بدنامی سے بچ جاتی ہے۔
انگریزی اخبار ڈان بھی ایک عرصے سے جنگ اور جیو کی طرح پاکستان کی محبت میں یہاں کی حکومتوں کو ان کی غلطیوں پر ٹوکتا رہتا ہے اور اس کے صلے میں مشکلات کا شکار رہتا ہے لیکن اچھا وقت بھی سدا نہیں رہتا اور برا وقت بھی گزر جاتا ہے، مگر جو بات یاد رہ جاتی ہے وہ کردار کی اصابت اور استقامت ہے۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ان کے ادوار کا بھی یہی عالم ہے کہ کون اپنے دامن میں نیک نامی اور کون بدنامی سمیٹتا ہے۔ جنگ اور جیو کے علاوہ بعض دوسرے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا نیز سوشل میڈیا پر بھی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے موجود رہے۔ میرے نزدیک یہ سب لوگ حکومت کے دوست ہیں ان کی قدر کرنا چاہئے، اس کے برعکس ایک خوشامدی ٹولہ بھی ہے جو حکومت کو رستہ دکھانے کے بجائے اپنی خوشامد کا اندھیرا اس کی راہ میں بچھا دیتا ہے۔
یہ لوگ ماضی کی حکومتوں کو بھی ان کے ماتھی انجام تک پہنچاتے رہے اور اب یہی کام وہ عمران خان کے دورِ حکومت کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی ٹیم میں کچھ مخلص لوگ بھی موجود ہیں، وزیراعظم کو چاہئے کہ انہیں اپنے قریب تر رکھیں اور جن کے منہ سے خوشامد کے بھبھوکے نکلیں انہیں فارغ کر دیں اور اگر اس ضمن میں ان کی کوئی سیاسی مجبوری ہے تو ان کی بات سنتے وقت ناک اور منہ پر ماسک چڑھا لیا کریں۔
اور آخر میں یہ کہ میر شکیل الرحمٰن پاکستان کا صحافتی اثاثہ ہیں، کسی کن ٹُٹے کے مشورے کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک کر میر صاحب کو فوری طور پر رہا کریں۔ میر شکیل الرحمٰن پاکستانی صحافت کا ہیرو ہے۔ ہیرو کو وِلن قرار دینے والے وزیراعظم کے دوست نہیں ہیں۔