بدھ کے روز لکھے کالم کو دفتر بھیج کر طے کرلیا تھا کہ جمعرات کی صبح کرونا کے ذکر سے پرہیز کیا جائے گا۔سونے سے قبل مگر فون پر اپنی ٹویٹر لائن دیکھی تو خیبرپختونخواہ کے وزیر صحت نے نہایت دُکھ مگر جرأت سے ازخود یہ اطلاع دی ہوئی تھی کہ ان کے صوبے میں اس وباء کی بدولت مردان کا ایک باسی اس جہان میں نہیں رہا۔ کرونا کی وجہ سے پاکستان میں پہلی ہلاکت کا شکار ہوا بدنصیب حال ہی میں عمرہ کے بعد سعودی عرب سے وطن لوٹا تھا۔ اس کے اعزاز میں مبارک باد والی چند تقاریب بھی ہوئیں۔ روایتی مبارک سلامت کے دوران اس میں کرونا کی علامات نمودار ہونا شروع ہوگئیں۔ ٹیسٹ کروانے کو مجبور ہوا مگر جانبرنہ ہوپایا۔
کرونا کی وجہ سے پہلی ہلاکت کے علاوہ پریشان کن اطلاع صوبائی وزیر صحت نے یہ بھی دی تھی کہ اس کو موذی وباء کی تشخیص کے مراحل سے گزارنے والی ڈاکٹر بھی اس مرض کی زد میں آئی نظر آئی ہیں۔ربّ کریم اس فرض شناس ڈاکٹر کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔تیمورجھگڑا صاحب کے لکھے ٹویٹ کے چند ہی لمحوں بعد ان کے صوبے سے کرونا کے سبب ایک اور فوتیدگی کی خبر بھی آگئی۔ دو ہلاکتوں کی خبر پڑھنے کے بعد اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے کرونا کے ذکر سے گریز لہٰذا ناممکن ہوگیا۔اندھی نفرت وعقید ت میں دیوانے ہوئے کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر سفاکانہ بے رحمی سے کرونا کے باعث ہلاکتوں کی اطلاع کے بعد لوگوں کو یاد دلانا شروع کردیا کہ مذکورہ خبریں وزیر اعظم کے اس وباء کے موضوع پر خطاب کے عین ایک دن بعد آئی ہیں۔یہ حقیقت بھی یاد دلانا ضروری سمجھا کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف 2013ء سے برسرِ اقتدار ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ اپنی حکومت کے دوران اس نے مذکورہ صوبے میں صحتِ عامہ کا جو مؤثر نظام متعارف کروایا تھا وہ اسے 2018ء کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخواہ کی سب سے مقبول جماعت بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔تیمورجھگڑا صاحب کی انتہائی عاجزی سے کی ہوئی یہ فریاد نظرانداز کردی گئی کہ ان کے صوبے میں ہوئی ہلاکتوں کو پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔فی الوقت ہم پاکستانیوں کویکسو ہوکر اس وباء کا مقابلہ کرنا ہے۔وباء کی لہر گزرجائے تو طعن وتشنیع کے لئے کئی سال میسر ہوجائیں گے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے ’’حق پرست‘‘ بھی لیکن درگزرکو تیار نہیں ہیں۔میرے چند بہت ہی ذمہ دار اور Ratingsکی ہوس سے آزاد ہوکر فقط صحافت پر توجہ دینے کو بے قرار ساتھیوں نے تیمورجھگڑا صاحب کے ٹویٹ کو محض ایک مستند اطلاع دینے کے لئے ری ٹویٹ کیا تھا۔ ان کی ری ٹویٹس کے نیچے جوCommentsآئے ان کی اکثریت یہ الزام لگانے کو مصر تھی کہ پاکستان کا ’’بکائو‘‘ اور ’’غیر ذمہ دار‘‘ میڈیا کرونا کے موسم میں Breaking Newsڈھونڈنے کو بے چین ہے۔ہر ’’دوٹکے کا صحافی‘‘ خود کو وبائی امراض کا ماہر بناکر پیش کررہا ہے۔ تیمورجھگڑا صاحب سے مطالبہ ہوا کہ وہ وزیر اعظم کو قائل کریں کہ میڈیا کو کرونا کی بابت ’’ازخود‘‘ خبریں دینے سے روک دیا جائے۔فقط Expertsکے بتائے ’’حقائق‘‘ ہی شائع یا نشر کرنے کی اجازت ہو۔
“Experts”کا ’’دو ٹکے کے صحافیوں‘‘ سے تقابل ہوا تو مجھے ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب یاد آگئے۔وفاقی حکومت نے انہیں کرونا کے ضمن میں پوائنٹ پرسن بنارکھا ہے۔پیر کی شام ہی ان کی بتائی گنتی مگر سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار سے مختلف تھی۔ میں اس حوالے سے ایک کالم لکھنے پر مجبور بھی ہوا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں امریکہ جیسا ملک بھی کرونا کو ’’سیاسی‘‘ بناچکا ہے۔ اس سال کے آغاز میں چین کے شہر ووہان سے کرونا مرض کے دُنیا کے دیگر ممالک تک پھیلنے کے خدشات کا اظہار شروع ہوگیا تھا۔امریکی صدر سے 20جنوری 2020کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر Davosمیں اس کی بابت سوال ہوا۔ٹرمپ نے روایتی رعونت سے کرونا کو چین سے مختص اور وہیں تک محدود ررہنے کا اعلان کردیا۔
Foxٹی وی امریکی صدر کا ڈھٹائی سے مدح سرا ہے۔ ٹرمپ کے بیان کے بعد فروری کے اختتام تک اس کے Celebrity Anchorsجارحانہ انداز میں اصرار کرتے رہے کہ ٹرمپ کی آئندہ صدارتی انتخاب میں یقینی نظر آتی جیت کو ناکام بنانے کے لئے ’’ڈیموکریٹ پارٹی سے وابستہ میڈیا والے‘‘ کرونا کے حوالے سے خوفزدہ کرنے والی افواہیں پھیلارہے ہیں۔ان افواہوں کو ٹرمپ کے خلاف ایک گھنائونی سازش قرار دیا گیا۔اس ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ذریعے امریکی صدر بھی مسلسل ’’ہر شے قابو میں ہے‘‘والا پیغام دیتا رہا۔تلخ اور پریشان کن حقائق کے سامنے مگر اب سرنگوں کرنا پڑرہا ہے۔نہایت دُکھی دل کے ساتھ میں یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ تحریک انصاف نے پاکستان میں کرونا کے حوالے سے اُٹھے سوالات کو ٹرمپ اور اس کے حواریوں کے انداز میں جھٹکنے کی کوشش کی۔فروری 2020ء کے پہلے ہفتے کے اختتام کے دوران ایران میں کرونا پھیلنے کی خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد ہمارے لئے ضروری تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان شہریوں کی آمدورفت کی کثیر تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے شہریوں کو کرونا کے بارے میں مؤثر آگاہی کا نظام مرتب کرتے۔پاک-ایران سرحد اور وہاں موجود تفتان بالخصوص بروقت Preventive انتظامات کا متقاضی تھا۔ ’’قرنطینہ‘‘ اپنے تئیں ایک نظام ہے۔ اس کی بے شمار جزئیات ہیں۔ان کا کماحقہ اطلاق تفتان میں نظر نہیں آیا۔آج سے تقریباََ دو ہفتے قبل نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون چھپاتھا۔متعدد ماہرین سے گفتگو کے بعد اس مضمون میں اصرار ہوا کہ ایئرپورٹس پر کرونا کی سکریننگ کے لئے جو آلات استعمال ہورہے ہیں وہ کرونا کی تشخیص کے لئے کافی نہیں۔عمومی طورپر ایک پستول نما آلہ بیرون ملک سے آنے والے شخص کے ماتھے پر لگاکر اس کے جسم کا درجہ حرارت جانچاجاتا ہے۔ بے تحاشہ مثالوں سے مذکورہ مضمون میں یہ سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ ماتھے پر لگائے آلے کے استعمال کے لئے بھی تھوڑی تربیت کی ضرورت ہے۔بہتریہی ہے کہ فقط اس آلے کی بدولت “Clear”نظر آتے لوگوں کو بھی مزید چند گھنٹوں تک ایئرپورٹ پر رکھتے ہوئے ہی وقفوں سے مزید دو تین بار چیک کرلیا جائے۔دریں اثناء یہ بھی معلوم کرلیا جائے کہ وہ حالیہ دنوں عمومی تصور ہوتی کھانسی یا نزلہ زکام کی زد میں تو نہیں آئے تھے۔میں نے یہ فرض کرلیا کہ کرونا کے تدارک پر تعینات اعلیٰ حکام نے بھی اس مضمون کو غور سے پڑھا ہوگا۔اب گماں ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کئی لاکھ افراد سرسری معائنے کے بعد ’’کلیئر‘‘‘ ہوکر ایئرپورٹس سے نکلتے چلے گئے۔ایمان داری کا تقاضہ مگر یہ بھی ہے کہ کرونا جیسے بحران کا ذکر کرتے ہوئے ہم اپنے سماجی رویوں کو بھی ذہن میں رکھیں۔بنیادی طورپر ہم جلدباز قوم ہیں۔ انفرادی طورپر خود کو ’’پاٹے خان‘‘ بھی شمار کرتے ہیں۔اطلاعات اب یہ بھی آرہی ہیں کہ بظاہر پڑھے لکھے ’’معزز‘‘ خواتین وحضرات نے انگلستان جیسے ممالک سے کرونا کی ظاہری علامات کی زد میں آجانے کے باوجود جہاز میں بیٹھ کر پاکستان آنے کو ترجیح دی۔یہاں دعوتوں میں شریک ہوتے رہے۔ اپنے رویے پر کبھی شرمساری محسوس نہیں کی۔اعتراف اس حقیقت کا بھی لازمی ہے کہ ہمارے اجتماعی رویے فقط پاکستانیوں تک ہی محدود نہیں۔اٹلی یورپ کا قدیم ترین ملک ہے۔رومن تہذیب وثقافت کا مغرور ’’وارث‘‘۔اٹلی کے بڑے،خوشحال اور تاریخی شہر اس ملک کے شمال میں ہیں۔اس ملک میں صحتِ عامہ کا نظام بھی جدید ترہے۔اس کے باوجود کرونا کا مقابلہ نہیں کرپایا۔ فی کس تناسب کی بنیاد پر جائزہ لیاجائے تو دنیا بھر میں کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں اسی ملک میں ہوئی ہیں۔پاکستان کی جپھی والی روایتیں اٹلی کی ثقافت کے بہت قریب ہیں۔اٹلی میں گزشتہ تین ہفتوں سے جو وحشت پھلی ہوئی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے پاس Preventive اقدامات لاگو کرنے کے لئے مناسب وقت موجود تھا۔مجھے دست بستہ عرض کرنے دیجئے کہ ہم نے اسے ضائع کردیا۔سراسیمگی پھیلانے سے مگر اب بھی اجتناب برتنا ہوگا۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لیکن کامل لاک ڈائون غالباََ اب ضروری ہوگیا ہے۔ ’’ہنگامی صورت حال‘‘ کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ سفاکانہ تصور ہوگی۔ابھی تک دُنیا بھر میں کرونا کے حوالے سے جو Patternعیاں ہوا ہے وہ یہ سمجھاتا ہے کہ کرونا چوروں کی صورت دبے پائوں آتا ہے۔کئی ہفتے گزرجاتے ہیں اس کے بعد ’’اچانک‘‘ کرونا کی زد میں آئے افراد کی تعداد بتدریج بلند ترین سطح کی طرف اُچھلتی نظر آتی ہے۔اس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ نظر آتا ہے۔چند دن گزرجانے کے بعد مگر یہ اعدادوشمار Flatہونا شروع ہوجاتے ہیں۔فی الوقت اہم ترین حکومتی فریضہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی صدارت میں ماہرین کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہو۔وہاں ٹھوس اور مستند Dataکی بنیاد پر یہ طے کیا جائے ہم عالمی طورپر واضح ہوئے Patternکی اس وقت کس سطح پر ہیں۔حقائق سے مسلسل آگاہی ہی اس وباء کا مؤثر ترین تدارک ہے۔اس ضمن میں ہمارا روایتی میڈیا اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود حکومت کی بھرپور معاونت کو دل وجان سے تیار ہوگا۔خدارا روایتی میڈیا کے سماجی اعتبار سے مؤثر پہلوئوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اسے اپنا دشمن تصور نہ کریں۔