دیگر تمام مسائل پسِ پشت چلے گئے ہیں، ہر جگہ ”کورونا‘‘ ہی زیرِ بحث ہے۔ ”پیامِ صبح‘‘ (دنیا نیوز) والے انیق احمد لاہور میں ہیں اور شہر میں اپنے چاہنے والوں کی ضیافتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ جب بھی لاہور آئیں، یہی کیفیت ہوتی ہے (اور ایسے میں ہم جیسوں کی بھی بن آتی ہے) جمعرات کو میاں وحید صاحب کی طرف سے ان کیلئے ظہرانہ تھا۔ مہمانوں میں اکثریت اہلِ ”دنیا‘‘ کی تھی، شامی صاحب، اجمل جامی، حبیب اکرم، سلمان غنی، دیگر شرکا (اور شرفا) سجاد میر، حفیظ اللہ نیازی، عمر شامی، شعیب بن عزیز‘ حسین احمد پراچہ اور سید احسان اللہ وقاص تھے۔ مہمانِ خصوصی نے اپنے اعزاز میں گوناگوں ضیافتوں میں سے میاں وحید کی دعوت کیلئے بھی وقت نکال لیا تو میزبان نے مہمانِ خصوصی سے ان کی خاص پسندیدہ ڈش کا پوچھا۔ جواب میں نہاری کی فرمائش کی گئی اور اس پر اصرار بھی کہ ظہرانہ سنگل ڈش ہو، تاکہ اس سے انصاف ہو سکے۔ سویٹ ڈش کو ”سنگل ڈش‘‘ میں ہی شمار کیا جاتا اور آج کل لاہور میں ”گُڑ والے چاولوں‘‘ کی سویٹ ڈش کا رواج ہے۔ کبھی یہ دیہات اور قصبات تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور قصباتی پس منظر کے حامل ہم جیسے نئے لاہوریے، اپنے گھروں میں بھی اس کا اہتمام کرتے ہوئے شرماتے کہ ہماری سماجی پسماندگی کا اظہار نہ ہو۔ یہی معاملہ گُڑ والی چائے کا بھی تھا اور اب یہی گُڑ والی چائے اور گڑ والے چاول لاہور کے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی سپیشل سویٹ ڈش بن گئے ہیں۔ لاہور میں بھی ”کورونا‘‘ کے ڈر سے سوشل گیدرنگز محدود تر ہوگئی ہیں۔ سعود عثمانی کا شعر ہے ؎
تمہاری یاد دل سے اتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
لاہور کی سڑکوں اور شاہراہوں پر بھی ان دنوں عید کی چھٹیوں کا سماں ہے، جب یہاں کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہے۔ ان دنوں سڑکوں اور شاہراہوں پر اس ”ویرانی‘‘ کا ایک سبب (کورونا کے ڈرسے) تعلیمی اداروں کی چھٹیاں بھی ہیں (یوسی پی سمیت بعض اداروں نے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا ہے، جو ہم جیسے بزرگ استادوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہے، اگرچہ اس کے لیے ٹریننگ سیشن کا اہتمام بھی کیا گیا)۔ داغ دہلوی نے فرمایا تھا؎
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
تو ہم بھی آن لائن لیکچر کچھ سیکھ گئے ہیں (اس میں سٹوڈنٹس کی اٹینڈنس اور انہیں ”کلاس‘‘ میں مسلسل متوجہ رکھنا بھی شامل ہے) باقی کسر ایک دو مزید لیکچرز میں پوری ہو جائے گی۔ شہر کی روایتی ہماہمی میں کمی کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ فیملیز گھروں سے شوقیہ نکلنے اور بچوں سمیت شاپنگ مالز اور ریستورانوں کا چکر لگانے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ ضرورت کی اشیا کے لیے گھر کے ایک آدھ فرد کا جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ دیہاڑی کے لیے گھر سے نکلنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے کہ شہرمیں کاروبار میں مندا ہے، محنت مزدوری اور روزانہ کے روزگار کے مواقع محدود (اور مسدود) ہورہے ہیں۔
ہم جناب انیق احمد کے اعزاز میں نہاری کی (سنگل ڈش پارٹی کی) بات کررہے تھے جہاں درجن بھر ارباب دانش موجود تھے، طعام کے معاملے میں جن کی خوش ذوقی (اعلیٰ ذوقی) بھی شہرمیں مسلمہ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ایسی شاندار نہاری کیلئے کورونا کا خطرہ بھی کوئی زیادہ بُرا سودا نہیں۔ ظاہر ہے، یہ درجن بھر افراد کی ”سوشل گیدرنگ‘‘ تھی، جہاں ڈائننگ ٹیبل پر (معمول کے مطابق) نشستیں ساتھ ساتھ تھیں۔ بات چیت (اور میل ملاقات) میں ”مناسب‘‘ فاصلہ رکھنے کا پرہیز یہاں نہیں تھا۔ بھارت کے مقبول اردو شاعر بشیر بدر یاد آئے ؎
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کسی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلہ سے ملا کرو
نہاری (اور ایسی شاندار نہاری) سے بات سید مودودیؒ تک پہنچ گئی۔ انیق احمد بتا رہے تھے، سید کراچی تشریف لاتے تو خلیفہ انوار (جماعت کے بزرگ رکن، گزشتہ دنوں انتقال کر گئے) مولانا کے لیے نہاری کا خصوصی اہتمام کرتے۔ نہاری کے حوالے سے دہلی والوں کا خاص ذوق رہا ہے۔ اورنگ آباد (دکن) کے جم پل، سید مودودیؒ دہلی میں بھی رہے تھے۔ مولانا کے ساتھ کھانے کی نشست میں کچھ اور لوگ بھی ہوتے، ایک صاحب الگ تھلگ بیٹھ رہے، مولانا نے طعام میں شرکت کی دعوت دی، تو انہوں نے ”پرہیزی‘‘ کھانے کا عذر بتایا، کہ وہ کولیسٹرول وغیرہ سے بچنے کے لیے، مرغن غذائوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ مولانا کی حسِ ظرافت پھڑکی، مسکرائے اور فرمایا، میاں! اگر ایسی نہاری سے موت آجائے تو میں لکھ کے دینے کو تیار ہوں کہ یہ شہادت ہوگی۔
ہمیں اس موقع پر مولانا ہی کے حوالے سے (کہیں پڑھی ہوئی) ایک اور بات یاد آئی۔ تب مختلف سطحوں پر، جماعت کے تین چار روزہ سالانہ اجتماعات بھی ہوتے تھے۔ ان میں دعوتی و تربیتی نشستوں کے علاوہ، ظہرانے، عصرانے یا عشائیے پر، شہر کی (غیر جماعتی) ممتاز اور نمایاں شخصیتوں کو بھی مدعو کیا جاتا۔ ایک وکیل صاحب طعام کی ہر نشست میں موجود ہوتے۔ اتنے باتونی کہ کسی اور کو بات کرنے کا موقع کم کم ہی ملتا۔ ایک نشست میں ”بھیجے‘‘ کی ڈش بھی تھی۔ وکیل صاحب بھی (حسبِ معمول) موجود تھے۔ منتظمین نے مولانا سے کہا، مولانا! یہ ”بھیجا‘‘ بھی لیجئے، بڑا مزیدار ہے۔ مولانا مسکرائے اور وکیل صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ان کی خدمت میں پیش کیجئے، یہ ان کا من پسند کھاجا ہے۔ ہماری اس بات پر بعض نگاہیں ہمارے مہربان دوست، حفیظ اللہ نیازی کی طرف اٹھ گئیں، حالانکہ ہم نے شروع ہی میں عرض کر دیا تھا کہ ”روئے سخن کسی کی طرف ہو تو ”رو سیاہ‘‘۔ ظہرانے میں سارا وقت ”کورونا‘‘ کا قومی (اور بین الاقوامی) مسئلہ ہی زیرِ بحث رہا، ہر ایک کے اپنے اپنے دلائل تھے۔ چین، جہاں تین ماہ پہلے اس خطرناک وبا کا آغاز ہوا، اس پر قابو پا چکا۔ چینیوں نے جس ذمہ داری، مستعدی اور برق رفتاری کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اٹلی میں شرح اموات (آبادی کے تناسب سے) سات فیصد کو چھو رہی ہے اور اس کا بڑا سبب آبادی میں بوڑھوں کا تناسب ہے (تقریباً 60 فیصد)۔ بچوں اور بوڑھوں میں کورونا کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جنوبی کوریا میں شرح اموات سب سے کم رہی (ایک فیصد سے بھی قدرے کم) کہ وہاں نوجوانوں اور بوڑھوں کا تناسب اٹلی کے برعکس ہے۔ ایران میں صورتحال اس لیے تشویشناک ہوگئی کہ وہاں بروقت توجہ نہ دی گئی۔ اس نشست میں اس پر ”اجماعِ امت‘‘ تھا کہ اپنے ہاں اس کا بنیادی سبب ”تفتان‘‘ میں ”قرنطینہ‘‘ کے بدترین انتظامات تھے۔ قرنطینہ‘ تنہائی (آئسولیشن) کا نام ہے کہ مریض کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ تفتان میں ایک ہی ”خیمے‘‘ میں سینکڑوں لوگ ساتھ ساتھ پڑے تھے (جیسے سیلاب یا زلزلہ زدگان کے کیمپ) یہاں کورونا کا ایک مریض، اپنے گردوپیش درجنوں اور لوگوں کو بھی متاثر کرنے کا باعث بن گیا اور یہ متاثرین جہاں جہاں پہنچے، کورونا بھی پہنچ گیا۔
شعیب بن عزیز کو ”خادمِ پنجاب‘‘ کے دور کی انسداد ڈینگی مہم یاد آئی جب ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی سری لنکا سے معالجین کی خصوصی ٹیم منگوائی گئی۔ اپنے ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل سٹاف کو سیکھنے میں ایک دو دن ہی لگے۔ ادویات اور متعلقہ میڈیکل ایکویپمنٹ کی فراہمی بھی جنگی بنیادوں پر ہوئی۔ آگاہی مہم کیلئے خادمِ پنجاب خود پمفلٹ تقسیم کرتے نظر آئے۔ وہ روزانہ علی الصبح متعلقہ افسران اور ذمہ داران کی میٹنگ بلاتے جس میں گزشتہ روز کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے، اس روز کے کاموں کی فہرست تیار ہوتی۔ ہسپتالوں میں ہر بیڈ کو مچھر دانی کے ساتھ”قرنطینہ‘‘ کی شکل دیدی گئی۔ دنیا نیوز کے ”تھنک ٹینک‘‘ میں کورونا پر گفتگو کے دوران سلمان غنی کو بھی ”فاتح ڈینگی‘‘ یاد آئے۔ گزشتہ روز شاہد خاقان عباسی کہہ رہے تھے، پنجاب کو کورونا سے نمٹنے کیلئے شہباز شریف کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ کہ اس موذی مرض کے سدباب کیلئے شہباز شریف (اور ان کی ٹیم) جیسی صلاحیت، جذبے اور محنت کی ضرورت ہے۔