Site icon DUNYA PAKISTAN

نیند پوری کرنے کے لیے دفتر میں ملازمین کو اُونگھنے کی اجازت ہونی چاہیے؟

Share

امریکی حکومت نے حال ہی میں سرکاری دفاتر میں اونگھنے یا سونے پر پابندی عائد کی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام کو اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

اگرچہ وفاقی انتظامیہ کی سطح پر دفتروں میں اونگھنے والوں کو ہمیشہ سے برا سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اس سے پہلے اتنے واضح انداز میں دفتر میں سونے کے معاملے میں ایسا ہدایت نامہ جاری نہیں ہوا تھا۔

نومبر 2109 کے آغاز میں جاری ہونے والے امریکی جنرل سروسز ایڈمینسٹریشن کے ایک ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت کی تمام عمارتوں میں ملازمین کے سونے پر ممانعت ہے سوائے ان ملازمین کے جنھیں ان کے مجاز افسر نے سونے کی اجازت دی ہو۔‘

یہ ابھی تک غیر واضح ہے کہ انتظامیہ کو ایسا ہدایت نامہ جاری کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ جب ان سے معلوم کیا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انتظامیہ کو ملازمین کے اُونگھنے کے خلاف سخت کاروائی کرنا پڑی ہے۔

سنہ 2018 میں کیلیفورنیا کی ریاستی حکومت نے موٹر وہیکلز ڈِپارٹمنٹ کے ملازمین کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق وہ دن میں تین گھنٹے سوتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق چار برس میں ایک ملازم کے تین گھنٹے روزانہ اونگھنے کی وجہ سے ریاستی حکومت کو چالیس ہزار ڈالر کی مالیت کے برابر کی پیداواریت کا نقصان اٹھانا پڑا۔

ہفتے میں دو ایک مرتبہ دن کے وقت اونگھنے سے آپ کی زندگی لمبی ہو سکتی ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ایک ملازمہ اونگھنے کے لیے چلی جاتی تو ایک اور ملازم کو اس کا کام کرنا پڑتا تھا۔ مجاز افسر نے اونگھنے والی ملازمہ کی سرزنش نہیں کی کیونکہ اس نے سمحھا کہ اونگھنے والی خاتون شاید غنودگی کی بیماری کا شکار ہے۔

ملازمین کے اونگھنے کے بارے میں ایک اجتماعی سوچ والی پالیسی کے سامنے آنے سے شاید کئی لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہو، لیکن اونگھنے کی حمایت میں جو دلیل دی جارہی ہے وہ کام کی پیداواریت بڑھانے کے لیے ہے، نہ کہ اسے کم کرنے میں۔

امریکی اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کے سابق صدر اور برگھم میں کلینیکل سلیپ میڈیسن اور بوسٹن میں خواتین کے ہسپتال کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر لارنس ایپسٹائین کا اندازہ ہے کہ سات کروڑ امریکی نیند میں خلل کی بیماری (سلیپ ڈس آرڈر) کے شکار ہیں۔

انڈیانا کی بال سٹیٹ یونیورسٹی کی حال ہیں شائع ہونے والی ایک ریسرچ جس میں ڈیڑھ لاکھ افراد کی خود سے رپورٹ کی گئی نیند سے متعلقہ شکایتوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اُس جائزے کے مطابق ایسے افراد جو رات میں سات گھنٹے یا اس سے کم وقت کے لیے سوتے تھے ان کی تعداد سنہ 2010 میں تقریباً 31 فیصد سے سنہ 2018 میں 35 فیصد تک بڑھ گئی۔

ان میں نصف تعداد ایسے افراد کی تھی جو پولیس یا صحت کے شعبوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی شکایت یہ تھی کہ وہ صحیح طرح اپنی نیند پوری نہیں کر پاتے ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ کی ایک جج جسٹس روتھ بیڈر سنہ 2015 میں ایک مرتبہ اس وقت کے صدر بارک اوبامہ کی تقریر کے دوروان اونگھتی ہوئی دیکھی گئیں تھیں۔

اب کئی کمپنیاں اس بارے میں زیادہ آگاہ ہوتی جا رہی ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر ایسپٹائین کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں بدقسمتی سے ہمارے سرکاری محکمے درست سمت کی جانب نہیں جا رہے ہے۔‘

’یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن بدقستمی سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔‘

نیند کی کمی سے لوگوں کی صحت پر برا اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔

نیند کی کمی کو صحت کے بے شمار مسائل سے جوڑا جا سکتا ہے جن میں موٹاپا، ذیابیطس، امراضِ قلب اور خون کا دباؤ سمیت ڈپریشن اور تشویش جیسے ذہنی صحت کے معاملات بھی شامل ہیں۔

ایک امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی ایک سنہ 2016 کی ریسرچ کے مطابق، نیند کی کمی سے ہر برس امریکی معیشت کی 411 ارب ڈالرز کی پیداواریت پر برا اثر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر ایسپٹائین اور دوسرے ماہرین ملازمین کے دفتروں میں یا ان کے کام والی جگہ پر دورانِ ملازت سونے کی اجازت دینے کی حمایت کرتے ہیں۔

دفتری اوقات میں ایک خاتون سو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’نیند سے محروم افراد اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر پاتے ہیں اور کام والی جگہ پر حادثات کا بھی سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ صحت مند نہیں ہوتے ہیں۔‘

دوسرے ممالک میں اونگھنا کم برا سمجھا جاتا ہے۔ جاپان میں مختلف کمپنیاں کام والی جگہوں پر ایسے ساؤنڈ پروف پوڈز (کمرے) بنارہی ہیں جہاں دیر تک شفٹ کرنے والے ملازم کچھ دیر کے لیے آرام کرسکتے ہیں۔

اس خیال کو اب کافی جگہ پسند کیا جا رہا ہے لیکن بہرحال اب بھی اس سوچ کے خلاف ایک مزاحمت موجود ہے۔

کچھ کمپنیاں، مثلاً آئس کریم بنانے والی بن اینڈ جیریز، نے اونگھنے یا آرام کرنے کے لیے کمرے تیار کیے ہیں تاکہ ان کے ملازمین آسانی سے آرام کر سکیں۔ یہ کمرے پرآسائش نہیں ہیں، دس فٹ چوڑا اور دس فٹ لمبا کمرے میں جس کو ’ڈا ونچی روم‘ کا نام دیا گیا ہے، ایک بستر ہوتا ہے اور ایک کمبل۔

جن کو اونگھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنے جوتے اتار کر 20 منٹ کے لیے اس کمرے میں سو سکتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی ملازم بیمار ہے اور اُسے زیادہ سونے کی ضرورت ہے تو اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔

بن اینڈ جیریز کی ترجمان لورا پیٹرسن کہتی ہیں کہ ان سہولتوں کے باوجود بھی ’کام کی جگہ یا دفتر میں سونے‘ کی بدنامی کا دھبہ اب بھی برقرار ہے۔

’ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کو یہ سہولت استعمال کرنے والوں کے ناموں کی فہرست بنانے کو ختم کرنا پڑا کیونکہ اسے استعمال کرنے والے اکثر ’ڈونلڈ ڈک‘ جیسے جعلی ناموں کے ساتھ کمرے میں آرام کرنے آتے تھے۔

آئیس کریم بنانے والی ایک کمپنی بن اینڈ جیری نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں ایک آرام کرنے کا کمرہ اپنے ملازمیں کے لیا تیار کیا ہے تاکہ وہ وہاں کچھ دیر کے لیے اونگھ سکیں۔

لورا پیٹرسن جو اس ادارے میں تین برس پہلے ملازم ہوئی تھیں، اب تک چار مرتبہ خود سونے کے لیے اس کمرہ کا استعمال کر چکی ہیں، کہتی ہیں کہ اکثر ملازمین جو اس سہولت کو استعمال کرتے ہیں وہ اس کے استعمال کا اقرار نہیں کرتے ہیں۔

’میں خود کبھی کبھار کام کے دوران سو لیتی ہوں، اور میں اپنے موبائل فون کے الارم کو استعمال کرتی ہوں تاکہ زیادہ دیر تک سوتی نہ رہ جاؤں۔۔ ہاں یہ ایک اچھا وقفہ ہوتا ہے اور میں اس کے بعد اپنا کام بہتر انداز میں کرسکتی ہوں۔‘

ان کے ساتھی ملازمین ان سے اتفاق کرتے ہیں۔

بن اینڈ جیریز کے ایک اور ملازم راب مِچلاک جو اس کمپنی کے دفتری امور کے محکمے میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اس سہولت کو پہلی مرتبہ استعمال کیا تھا تو مجھے بہت عجیب سا لگا تھا۔ لیکن اس کے نتائج اتنے زبردست تھے کہ جب میں اس کمرے سے نکلا تو میں بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔‘

’جب دوسری مرتبہ میں نے ڈا وینچی کمرے کا استعمال کیا تو میں جانتا تھا کہ میرا یہ فیصلہ درست تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں تازہ دم محسوس کروں گا اور کمپیوٹر میں زیادہ ڈوب کر کام کرسکوں گا اور جس بھی دستاویز پر کام کررہا تھا وہ میری کتنی بھی توانائی لے لے، میں سونے کی وجہ سے پھر سے تیار تھا۔‘

اس دوران شمالی امریکہ میں کچھ کمپنیاں ’اونگھنے‘ کو ایک کاروبار بنا رہی ہیں۔

ہسپتالوں، ائرپورٹ یا یونیورسٹیوں میں اس جیسا ’میٹرونیپ پوڈ‘ دیکھا جاسکتا ہے۔

کینیڈا کا پہلا اونگھنے کا سٹوڈیو جسے ’نیپ اِٹ اپ‘ کہا جا رہا ہے، اس نے عام لوگوں کو یہ سہولت استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس ادارے کی سربراہ مہ جبین رحمان کہتی ہیں ہیں کہ انھیں اس کاروبار کا خیال اس وقت آیا تھا جب وہ کئی کئی گھنٹے ایک بینک میں کام کرتی تھیں۔

ٹورنٹو کے ایک مصروف علاقے میں واقع ان کے دو بیڈ والے سٹوڈیو میں ملازمین 25 منٹ آرام کرنے کے لیے دس کینیڈین ڈالر ادا کرتے ہیں۔ ایک سٹوڈیو میں دو بستروں کے درمیان پردے لگے ہوتے ہیں، جس سے آرام کرنے کے لیے آنے والے کو خلوت کے کچھ لمحے مل جاتے ہیں۔ اس سٹوڈیو کو لیوینڈر کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر رکھا جاتا ہے۔

’میٹرو نیپ‘ نے کاروبار کے اس خیال کو ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ہے۔ انھوں نے جدید قسم کے نظر آنے والے ’اینرجی پوڈ‘ تیار کیے ہیں جو آرام کرنے والے یا اونگھنے والے کو ایک آرام دہ نشست پر مزے سے چند لمحے سونے کی ایک جگہ فراہم کرتے ہیں۔

یہ پوڈز اب ایسی جگہوں پر مقبول ہوتے جارہے ہیں جہاں 24 گھنٹے کام ہوتا ہے مثلاً ہسپتال، فیکٹریاں، ایئرپورٹ وغیرہ۔ لیکن ’میٹرو نیپس‘ کے سربراہ کرسٹوفر لنڈھم کہتے ہیں کہ وہ ایسے پوڈز اب ہیلتھ کلب اور یونیورسٹیوں جیسے اداروں کو بھی فروخت کرنے جا رہے ہیں۔

’جب ہم نے یہ کام شروع کیا تھا تو اس وقت لوگوں نے سوچا تھا ہم کام کی جگہ پر اونگھنے کا کاروبار شروع کر کے حماقت کر رہے ہیں۔‘

لنڈھم کہتے ہیں کہ ’پہلے کمپنیاں یہ فرض کر لیتی تھیں کہ جب آپ کام پر آرہے ہیں تو آپ کام کرنے کے لیے بالکل فٹ ہیں۔‘

Exit mobile version