پاکستان

خیبرپختونخوا: متاثرہ مریضوں سے رابطہ کرنیوالے 3 ڈاکٹرز قرنطینہ منتقل

Share

پشاور: مردان اور صوبائی دارالحکومت میں کورونا وائرس کے مریضوں کے رابطے میں آنے والے تین ڈاکٹروں کو قرنطینہ منتقل کردیا گیا۔

 رپورٹ کے مطابق اس میں ایک پیتھالوجسٹ شامل ہیں جنہوں نے کورونا کے متاثرہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا تھا تاہم ان کا اپنا ٹیسٹ منفی آیا۔

دوسری جانب 2 دیگر ڈاکٹروں میں ایک خاتون معالج بھی شامل ہیں جنہوں نے مردان میں کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والے مریض کا علاج کیا تھا، مذکورہ تینوں ڈاکٹروں کو قرنطینہ کردیا گیا ۔

میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ ‘پرسنل پروٹیکٹو ایکویپمنٹس (پی پی ایز) یعنی ذاتی تحفظ کے آلات کی عدم دستیابی کے باعث ہیلتھ ورکرز میں خوف پیدا ہوگیا ہے جس سے وائرس کا پھیلاؤ شدید ہونے کی صورت میں مریضوں کے انتظامات پر اثر پڑ سکتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز عالمی وبا کو سنبھالنے کی مرکزی قوت ہیں اور انہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب ڈائریکٹر آف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر شاہین آفریدی کا کہنا تھا کہ کسی ڈاکٹرز میں علامات نہیں پائی گئیں اور کسی ڈاکٹر کو تنہائی میں نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ضرورت کی بنیاد پر تمام ہسپتالوں میں ذاتی تحفظ کے آلات فراہم کردیے ہیں کیوں کہ ہم اس انفیکشن سے اپنے عملے کا مکمل تحفظ چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پیز کی کمی نہیں، ‘ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر فراہمی کی جارہی ہے اور ہم اپنے ڈاکٹروں، نرسز اور طبی عملے کے تحفظ کے لیے ہسپتالوں کو فراہم کررہے ہیں’۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ قرنطینہ کی گئی خاتون ڈاکٹر نے مریض کا نمونہ لیا تھا جبکہ دوسرے ڈاکٹر سعودی عرب کا سفر کرنے والے ایک مشتبہ مریض سے قریبی رابطے میں تھے۔

مردان میڈیکل کمپلیکس میں بے ہوشی کے ماہر(اینیستھیٹسٹ) جنہوں نے متاثرہ مریض کو مختلف نلکیاں لگائیں انہوں نے حکام نے درخواست کی ہے کہ انہیں از خود قرنطینہ کی اجازت دی جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس ہسپتال میں وہ کام کررہے ہیں وہاں ذاتی تحفظ کے آلات نہیں تھے۔

دوسری جانب ڈاکٹر شاہین نے کہا کہ انہوں نے مردادن کی خاتون ڈاکٹر سے بات کی ہے اور وہ ٹھیک ہیں انہیں بیماری کی کوئی علامات نہیں۔

خیال رہے کہ ہیلتھ ورکرز گزشتہ چند ہفتوں سے پی پی ایز کے فقدان کی شکایت کررہے ہیں تا کہ مریضوں کے موثر انتظامات کو یقینی بنایا جاسکے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پی پی ایز کی کمی کے باعث تمام ہیلتھ ورکز کا انفیکشن سے واسطہ پڑنے کا خطرہ ہے اور متاثرہ مریضوں سے رابطے میں رہنے والے زیادہ تر افراد ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔

اس ضمن میں ایک اور میڈیکل انسٹیٹیوشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘ابتدا میں چین کا ردِ عمل اس لیے متاثر ہوا تھا کہ اس کے 2 فیصد کارکنان وائرس سے متاثر ہوگئے تھے اور یہی یہاں بھی ہورہا ہے’۔