بڑھی ہوئی داڑھی، کالی شرٹ اور پینٹ پہنے اوپر سفید رنگ کی چادر اوڑھے ملزم ایس ایس پی مفخر عدیل عرف موفی لاہور کے کوتوالی پولیس سٹیشن میں موجود تھے جب ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے سابق اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب شہباز تتلہ کے بھائی سجاد تتلہ اپنے وکیل فرہاد علی شاہ کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے۔
اس ملاقات میں شامل ایک سے زیادہ افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ملاقات چند سینیئر پولیس افسران کی موجودگی میں ہوئی تھی اور مفخر عدیل نے ملاقات کے لیے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے مقتول کے وکیل سے کہا: ’سجاد بھائی (درخواست گزار اور مقتول کے بھائی) کو بھی اندر بلالیں۔‘
10 مارچ کی شام لاہور کے ایک پولیس سٹیشن میں قتل کے ملزم اور مقتول کے ورثا کے درمیان ہونے والی یہ غیر روایتی ملاقات تقریباً 40 منٹ تک جاری رہی اور عینی شاہدین کے مطابق مقتول کے بھائی ملزم سے یہی پوچھتے رہے کہ اس نے ان کے بھائی کو کیوں مار ڈالا جبکہ ان کے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط تعلقات تھے۔
قتل کا پس منظر
خاندانی ذرائع کے مطابق شہباز تتلہ رواں سال سات فروری کو اسلام آباد سے ایک دوست کے ساتھ لاہور پہنچے تھے لیکن لاہور پہنچنے سے پہلے ہرن مینار شیخوپورہ پر ان کا فون بند ہوگیا تھا اور ان کی فون پر آخری بار بات بھی ان کے بھائی سجاد تتلہ سے ہی ہوئی تھی۔
لاہور پہنچنے کے بعد جمعے کی ہی شام مقتول اپنے آفس کے لاکر میں اپنے دونوں فونز، گاڑی کی چابیاں، گھڑی اور اپنا پرس رکھ کے باہر نکلتے ہیں اور ملازمین کو بتایا کہ وہ بہت جلد واپس آرہے ہیں۔
ان کے دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہباز تتلہ بہت تیزی سے دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں اور پھر دوبارہ واپس نہیں آتے۔
اگلے دن ان کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروائی گئی اور تقریباً ایک ماہ بعد ملزم مفخر عدیل نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنے دوست کو قتل کر دیا ہے۔
مفخر عدیل کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے علاقے بدوملہی جبکہ شہباز کا تعلق اسی ضلعے کے رانا گاؤں سے تھا۔ یہ دونوں بچپن کے دوستے تھے اور مفخر شہباز تتلہ کے قتل کے بعد روپوش رہے اور ٹھیک ایک ماہ بعد منظر عام پر آئے تھے اور اس وقت وہ شریک ملزم اسد بھٹی کے ہمراہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔
مفخر عدیل نے پولیس کو کیا بتایا؟
پولیس حکام کے مطابق اپنے ابتدائی بیان میں ملزم نے بتایا کہ انھیں کچھ ماہ قبل پتہ چلا کہ مقتول 2012 میں ان کی سابقہ اہلیہ کو، جنھیں وہ کچھ سال قبل طلاق دے چکے تھے، ریپ کرتے رہے ہیں اور اب انھوں نے ملزم کی موجودہ بیوی کو بھی ریپ کرنے کے لیے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا ہے، چنانچہ انھوں نے شہباز کو قتل کرنے کے لیے کچھ ماہ قبل سے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔
ملزم کے مطابق انھوں نے شہباز تتلہ کے قتل سے چند ہفتے قبل اپنے دوست اور شریک ملزم اسد بھٹی کے گھر بکرے کی سری کو تیزاب میں گلانے کا تجربہ کیا تھا اور تقریباً 18 گھنٹے بعد بکرے کی سری اور سینگ ایک محلول کی شکل اختیار کر چکے تھے۔
حکام کے مطابق مفخر عدیل نے بتایا کہ منصوبے کے مطابق انھوں نے فیصل ٹاؤن میں دس دن کے لیے 70 ہزار روپے کے عوض مکان کرائے پر لیا اور مالک مکان کو بتایا کہ ان کے کچھ دوست باہر سے آ رہے ہیں اور وہ اس گھر میں قیام کریں گے۔
پھر انھوں نے اپنے ملازم کی مدد سے 48 لیٹر تیزاب منگوایا اور جمعہ سات فروری کی رات شہباز تتلہ کو وہاں بلا کر اپنے دوست اسد بھٹی کے ساتھ مل کر پہلے منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کیا اور پھر ان کی لاش تیزاب والے ڈرم میں پھینک دی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے مطابق جب لاش پوری طرح سے گل گئی تو انھوں نے اس محلول کو ڈرموں میں ڈال کر ٹاؤن شپ اور روہی نالوں میں بہا دیا۔ پولیس کے مطابق انھوں نے مزید بتایا کہ بعدازاں شواہد مٹانے کے لیے انھوں نے سارا گھر دھلوا دیا اور خود روپوش ہو گئے۔
خیال رہے کہ مفخر عدیل کا یہ اقبالی بیان صرف پولیس کے سامنے دیا گیا ہے اور عدالت میں وہ اسے اپنا بیان تسلیم کرنے سے انکار بھی کر سکتے ہیں۔
اس کیس کے سلسلے میں مفخر عدیل کے وکیل سے جب بات کی گئی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘
ملزم اور مقتول کے رشتہ داروں اور وکیل کی ملاقات میں شریک مقتول کے قریبی رشتہ دار کے مطابق جب یہ ملاقات شروع ہوئی تو شہباز تتلہ کے وکیل فرہاد علی شاہ نے مفخر عدیل سے قتل کی وجہ پوچھی۔
ان کے مطابق ’مفخر نے کہا، شہباز کے میری بیوی سے تعلقات تھے اس لیے۔‘ مزید استفسار پر انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کا ذکر کر رہے ہیں۔
تاہم عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر مقتول کے بھائی سجاد نے کہا کہ ’میں نہیں مانتا! پہلی بیوی کو تو تم کب کے طلاق دے چکے اور اگر کوئی ایسی بات تھی تو مجھے بتاتے، میں خود اس (شہباز) سے بات کرتا۔‘
مینٹنگ میں موجود لوگوں کے مطابق اس پر مفخر نے کہا کہ انھیں بھی چند ماہ قبل ہی اس کا علم ہوا تھا جس کے بعد گذشتہ چند ماہ میں انھوں نے تین مرتبہ شہباز کو مارنے کی کوشش کی تھی۔
عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے بتایا کہ ’پہلی بار چھپکلی جلا کر سوپ میں ڈال کر پلا دی لیکن شاید جل جانے سے زہر کا اثر نہیں ہوا تھا، پھر وٹامن کیپسولز میں پارہ ڈال کر اسے کھلا دیا، مگر اس سے شہباز کو قے آئی اور وہ پھر بچ گیا تو اس بار میں نے مار کر لاش تیزاب میں ڈال دی۔‘
پولیس مفخر عدیل کے اس بیان سے ہٹ کر کہ انھوں نے اپنے دوست شہباز تتلہ کو غیرت کے نام پر قتل کیا، کئی دوسرے پہلوؤں پر بھی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا ان کا آپس میں کوئی کاروباری لین دین یا جائیداد وغیرہ جیسے معاملات کی وجہ سے کوئی جھگڑا تو نہیں تھا۔
پولیس مفخر کی جائیدادوں کی چھان بین بھی کر رہی ہے اور پولیس ذرائع کے مطابق جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھے گی، اس میں متعلقہ دفعات شامل ہوتی جائیں گی۔
شہباز تتلہ کے خاندان والے بھی غیرت کے نام پر قتل کا نظریہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے نزدیک معاملہ کوئی اور ہی ہے جس میں کوئی کاروباری تنازع بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
ٹشو پیپر، چار گلاس اور سات انسانی بال
مخفر عدیل کی گمشدگی کے بعد پولیس ماہرین کی ایک ٹیم اس مکان میں شواہد اکٹھے کرنے کے لیے بھی گئی تھی جہاں شہباز تتلہ کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔
اس فارینزک ٹیم کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ شہباز تتلہ قتل کیس میں جو اہم شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان میں خون کے دو نمونے بھی شامل ہیں جو فیصل ٹاؤن والے گھر کے بستر اور صوفے سے برآمد ہوئے ہیں۔ اب ٹیم مقتول کے بھائی سجاد تتلہ کے ڈی این اے کو اس خون سے ملا کر دیکھے گی کہ آیا وہ خون شہباز کا تھا یا نہیں۔
فارینزک ٹیم کو کھدائی کے دوران اس گھر کے گٹر کے پائپوں سے پتلون کی جیب کا کپڑا اور ایک ہُک ملا ہے جو کہ ممکنہ طور پر مقتول کے ہو سکتے ہیں۔ ٹیم کے رکن کے مطابق پتلون کے کپڑے اور ہُک پر گندھک کا تیزاب کے نشانات پائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ تحقیقات کے دوران وہاں سے گول ہیٹ، ٹشو پیپر، شیشے کے چار گلاس جن میں سے ایک ٹوٹا ہوا تھا، سات انسانی بال اور شراب کی بوتلوں سمیت 20 سے زیادہ چیزیں ملی ہیں جن کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پولیس کو چکمہ دے کر شواہد کو ضائع کیا گیا؟
تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شروع میں تو مفخر عدیل خود شہباز تتلہ کی تلاش کے عمل میں ان کے ساتھ رہے تھے۔
ان کے مطابق کال ڈیٹا ریکارڈ اور سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کی مدد سے اتوار نو فروری کو اس بات کا پتا چلا لیا گیا تھا کہ سات فروری جو جس وقت مقتول آخری بار اپنے کلمہ چوک والے دفتر سے نکلے تو اس کے تھوڑی دیر بعد ہی ملزم مفخر عدیل بھی اپنی سرکاری گاڑی میں فیصل ٹاؤن والے گھر کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
جب سی آئی اے پولیس نے اس بارے میں مفخر کو بتایا تو انھوں نے انھیں اس گھر کی طرف جانے سے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ اس جگہ کو جانتے ہیں اور شہباز وہاں نہیں ہوسکتے، اس لیے کہیں اور سے تلاش کرنا چاہیے۔
تحقیقاتی ٹیم کے رکن کے مطابق اسی دوران ملزم نے اتوار کو اپنے ملازمین کو بلا کر اس گھر کو دھلوا دیا تاکہ مبینہ طور پر شواہد مٹائے جا سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جن پولیس اہلکاروں نے مفخر کے کہنے پر گھر دھویا ان میں سے ایک نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ ’صاحب (مفخر) نے دو افراد سے کہا تھا کہ گھر صاف کر دینا لیکن ہم دس لوگ آ گئے تاکہ کام جلد نمٹ جائے۔
’ہم جب گھر میں داخل ہوئے تو عجیب سا منظر تھا اور ایسے لگا جیسے یہاں تین، چار لوگوں نے پارٹی کی ہو۔ سگریٹ کے ٹکڑے، ٹوٹے گلاس، شراب کی بوتلیں، ایک خالی ڈرم اور دیگر چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ ایک ہینڈ بیگ بھی تھا جس میں ایک پستول تھا۔ چونکہ گھر میں پانی نہیں آرہا تھا تو ہم نے واسا کا واٹر بوئزر منگوا کر اس سے گھر کو دھویا لیکن کمرے نہیں، وہاں ہم نے بس جھاڑو ہی دی اور تقریباً ڈیڑھ بجے یہ کام مکمل کر کے انھیں بتا کر واپس آ گئے۔‘
ملزم مفخر کے متعلق جب پولیس کے شکوک و شبہات بڑھے تو وہ 11 فروری کو اپنے نواب ٹاؤن والے گھر سے سرکاری گاڑی پر یہ کہہ کر نکلے کہ کسی اہم کیس کی تفتیش پر جا رہے ہیں۔ اسی دن وہ روپوش ہو گئے اور حیران کن طور پر اسی دن پولیس بھی اس فیصل ٹاؤن والے گھر تک جا پہنچی جہاں شہباز تتلہ کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا تھا۔
’لاش نہ ملنے کا فائدہ ملزم کو ہو سکتا ہے‘
فوجداری قوانین کے ماہر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر مقتول کی لاش نہیں ملتی تو مقدمہ یقینی طور پر کمزور پڑ سکتا ہے اور واضح ثبوت نہ ہونے سے براہ راست فائدہ ملزم کو ہو گا کیونکہ لاش نہ ہونے سے ملزم کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں فارینزک رپورٹ پر بھی بہت انحصار ہے کہ آیا اس میں کوئی ثبوت سامنے آتے ہیں یا نہیں۔
اس سلسلے میں لاہور پولیس کے سربراہ ذوالفقار حمید کا کہنا ہے کہ یہ پولیس کے لیے اہم نوعیت کا کیس ہے کیونکہ اس میں ایک پولیس افسر نامزد ملزم ہے اور ’ہم ہر ممکن حد تک ثبوت اکٹھے کر کے چالان عدالت میں جمع کروائیں گے تاکہ ملزمان کو سزا دلوا سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جاری تحقیقات پر بات نہیں کرنا چاہتے مگر یہ ضرور کہیں گے کہ پولیس ایمانداری اور تندہی سے اپنا کام کر رہی ہے، یہ مدِنظر رکھے بغیر کہ اس کیس کا مرکزی ملزم ایک سینیئر پولیس افسر ہے۔