منتخب تحریریں

کورونا:انسانیت کیخلاف تیسری جنگ ِ عظیم؟

Share

برادرم اجمل جامی نے صحیح کہا ہے کہ ہم ’’عہدِ کورونا‘‘ میں جی رہے ہیں، اس میں سب اقدار بدلتی چلی جائیں گی۔ گزشتہ روز ایک بزرگ بہت والہانہ محبت کے ساتھ مجھے ملنے آئے، وہ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے تھے، میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

وہ سمجھ گئے یا نہیں مگر انہوں نے مصافحہ پر قناعت کرنا چاہی تو میں نے اپنی کہنی آگے بڑھا دی، وہ کچھ دیر بیٹھنا بھی چاہتے تھے مگر میں نے دور سے پوری عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑے اور کہا ’’میں دل کی گہرائیوں سے اپنی اس بدتہذیبی کی معافی مانگتا ہوں، مگر مجھے اس وقت کہیں جانا ہے، آپ اپنا فون نمبر باہر میرے ریسپشنسٹ کو لکھوا دیں، میں بہت جلد آپ کو خود کال کرکے بلائوں گا!‘‘۔

وہ چلے گئے مگر میں نے خود کو کوسنے کیلئے دل میں دس دفعہ ’’لخ دی لعنت‘‘ کہا مگر یقین کریں میری تسلی نہیں ہوئی، میری اس تحریر کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اجنبیوں سے معانقہ، مصافحہ اور ملاقات سے گریز کرنا چاہئے کہ یہ سب کچھ کرنا ’’عہدِ کورونا‘‘ کی مجبوری ہے، مگر اپنے اس رویے کی وجہ سے خود سے نفرت سی ہونے لگی ہے۔

کیا یہ جینا بھی کوئی جینا ہے، اوپر سے یار دوست ایسی خوفناک وڈیوز اور آڈیو میسجز بھیجتے ہیں کہ یہ دیکھ کر جسم پر لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے مگر میں خوف سے کپکپاتی آواز میں گلیوں اور بازاروں میں یہ اعلان کرتا پھرتا ہوں کہ گھبرانا نہیں۔

حالانکہ سب سے زیادہ میں خود گھبرایا ہوا ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا میں بزدل ہوں یا موت سے ڈرتا ہوں، آپ یقین کریں ہرگز نہیں، مجھے اس وائرس کے گلوبل نتائج سے جس کا ابھی عام لوگوں کو اندازہ نہیں، خوف آتا ہے، مجھے یہ تیسری جنگ ِ عظیم لگتی ہے جو پوری دنیا کو ایسے دشمن سے لڑنا پڑ رہی ہے جو اسے نظر نہیں آتا اور وہ برق رفتاری سے اپنے اہداف پر حملہ آور ہوتا ہے۔

ایک چھوٹے پیمانے پر ہمارے صوبہ سندھ کی حکومت نے بہتر کارگزاری کا مظاہرہ کیا مگر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں ابھی تک اس کمینے دشمن کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

صرف تسلیاں اور نصیحتیں؟ ایک اعلیٰ خاندان کی بچی جو کورونا کا شکار ہوئی، لاہور کے سرکاری اور نجی اسپتالوں نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اور غیر ذمہ داری اور لاپروائی کی جو بدترین مثال پیش کی اس کی درد انگیز روداد اس کی انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ والدہ نے آڈیو میسج پر بیان کی ہے۔ اگر اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا سکتا ہے تو اس وبا کے مزید پھیلنے سے عام آدمی کو جس بےبسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کی بابت سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حکومت کے علاوہ ہمارے تاجروں نے اس غمی کے موقع پر جس طرح لوٹ مار کے شادیانے بجائے، اس سے صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔ کورونا سے بچائو کیلئے احتیاطی سامان چوگنی قیمت پر بیچا جا رہا ہے اور ابھی… آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

تو کیا ہم حکومتی اور تجارتی بےبسی کا صرف نوحہ ہی پڑھتے رہیں یا خود آگے بڑھ کر بھی کچھ کریں۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے فلاحی ادارے جن میں سرفہرست اخوت اور ایدھی ٹرسٹ ہیں اور مسلم ہینڈز بھی، جو لندن بیسڈ ہے مگر وہ ساری دنیا میں ایسی آفات کے موقع پر آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کی تکالیف کو کم سے کم کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے، قبلہ سید لخت حسنین کی سربراہی میں یہ ادارہ پاکستان میں بھی کام کر رہا ہے، ان سب اور ان کے علاوہ دوسرے اداروں کو فی الوقت اپنا سب کچھ کورونا کے خاتمے کیلئے صرف کر دینا چاہئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ الحمدللہ پاکستان میں ایسے ہزاروں اہلِ دل موجود ہیں جو کروڑوں، اربوں روپے ہر سال نیک کاموں پر خرچ کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ زکوٰۃ اور خمس کیلئے وقف کی گئی رقم کو خاص مہینے میں خرچ کرنے کے بجائے اس خطرناک وائرس کے مقابلے کیلئے اسی مہینے کا انتخاب کریں۔

مجھے پتا چلا کہ میرے شاعر دوست احسان شاہد جو لندن میں رہتے ہیں، نے اپنے پہلے سے جاری پروگرام کیلئے کورونا کے پیش نظر بجٹ چار گنا بڑھا دیا ہے حالانکہ احسان شاہد کوئی سرمایہ دار نہیں ہیں۔

کورونا کی صورت میں ایک طرح سے جو تیسری جنگ عظیم کی سی صورت ہمیں درپیش ہے، کا مقابلہ ہم سب نے مل جل کر کرنا ہے۔ فی الحال وفاقی حکومت اور تین صوبوں کی حکومتیں ’’جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا’’ سے ملتے جلتے رویے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ چونکہ یہ بلا طبقاتی اور فرقہ وارانہ امتیاز پر یقین نہیں رکھتا، اس لیے اس کے تدارک کے لیے جو تھوڑا بہت کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اب دعوے کے بجائے پوری توانائی کے ساتھ آگے بڑھیں۔

آخر میں سب سے اہم بات، حکومت اور اپوزیشن اپنی لڑائیاں کچھ عرصے کیلئے ملتوی کر دیں، وفاقی حکومت سے خصوصی طور پر گزارش ہے کہ وہ سب جماعتوں کے ساتھ ہاتھ ملائے۔

سب ایک جگہ چہرے پر ماسک اور ہاتھوں میں گلوز پہن کر اکٹھے ہوں اور اس وبا کی ایسی کی تیسی کرنے کے منصوبے تیار کرکے اٹھیں اور فوری طور پر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیں۔

یہ وقت میر شکیل الرحمٰن ایسے محبِ وطن اخبار نویس کو جیل میں رکھنے کا نہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف سیاسی مقدمے بنانے کا ہے۔ لڑائی کیلئے بہت وقت پڑا ہے مگر کورونا کے پاس انتظار کیلئے وقت نہیں ہے۔