کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے ان کی صحت بحال ہو جاتی ہے۔ تاہم متاثرہ افراد کی ایک مخصوص شرح میں طبی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔
تاحال سامنے آنے والے مشاہدات کے مطابق ان میں وہ افراد زیادہ شامل ہیں جو 60 سال سے زیادہ عمر کے ہیں یا وہ جن میں پہلے سے کوئی مرض پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
کووِڈ-19 کے بارے میں تاحال زیادہ معلومات میسر نہیں تاہم اس کی ایسی علامات جن کو خطرناک قرار دیا جا رہا ہے ان میں سانس کی روانی میں تعطل کی شکایات اور نظام تنفس میں انفیکشن شامل ہیں۔
مگر کیا ایسے تمام افراد کو وینٹیلیٹر یا مصنوعی نظامِ تنفس کی بھی ضرورت ہو گی اور کیا کورونا کی صورتحال میں پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب میں یہ موزوں تعداد میں دستیاب ہیں بھی یا نہیں؟
لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ‘کوئی بھی شخص جس میں بیماری شدت اختیار کر جائے اور مریض سانس ہی نہ لے سکے تو اسے وینٹیلیٹر پر ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔’
کووِڈ-19 کے مریض میں یہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن وینٹیلیٹر پہلے ہی پاکستان میں ضروت سے انتہائی کم تعداد میں میسر ہیں۔ وینٹیلیٹر پاکستان میں مقامی طور پر تیار نہیں ہوتے اور درآمد کرنے پڑتے ہیں اس لیے یہ مہنگے ہیں۔
عام حالات میں کسی بھی ہسپتال میں ضرورت کے مطابق وینٹیلیٹر کے استعمال کو ڈھالا جا سکتا ہے لیکن کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کا خدشہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔
وائس چانسلر ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی جاوید اکرم کے مطابق فی الوقت صورتحال زیادہ خراب نہیں ‘مگر اس میں زیادہ سنگین ہونے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔’
متاثرہ افراد کو وینٹیلیٹر کی ضرورت کب پڑے گی؟
پنجاب حکومت نے کووِڈ-19 کے حوالے سے جو رہنما اصول ترتیب دیے ہیں ان میں کسی مشتبہ مریض کو سنبھالنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔ اس کے مطابق مشتبہ مریض کو ماسک دے کر مخصوص کی گئی جگہ پر پہنچایا جائے گا۔
یہاں اس کا فلو وغیرہ کا علاج شروع کیا جائے گا اور ساتھ ہی اس کے جسم سے حاصل کیے گئے نمونے کووِڈ-19 کے ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے جائیں گے۔
اس دوران اس میں علامات میں بدتری کی نشانیوں کا جائزہ لیا جائے گا جن میں سیپسِس یا سیپٹک شاک اور ہائیپوکسیا وغیرہ شامل ہیں۔
اگر اس میں علامات کے بگڑنے کے شواہد موجود نہیں تو اسے علیحدگی میں رکھا جائے گا اور ہیں تو اسے ہائی ڈیپینڈنسی یونٹ (ایچ ڈی یو) بجھوا دیا جائے گا۔ اب ان دونوں جگہوں پر مریضوں کا مشاہدہ کیا جائے گا کہ کیا ان کی علامات میں بہتری آ رہی ہے یا نہیں۔
اگر مریض کی حالت میں بہتری نہیں آ رہی یعنی اس کی نبض کی رفتار 100 سے زیادہ ہے اور بلڈ پریشر 100 سے کم ہے یا اندرونی اعضا کے غیر فعال ہونے کا خطرہ ہے تو اسے وینٹیلیٹر سپورٹ پر لگایا جائے گا۔
وینٹیلیٹر کیا ہے اور کیا کرتا ہے؟
وینٹیلیٹر بنیادی طور پر ایک ایسی مشین ہے جسے مصنوعی نظامِ تنفس کہا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن داخل کرتا ہے اور جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتا ہے۔
یہ بذاتِ خود کسی بیماری کا علاج نہیں بلکہ کسی علاج کے دوران اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب مریض کو سانس لینے میں دشواری ہو یا وہ خود سے سانس ہی نہ لے پائے۔ ان میں نمونیا بھی شامل ہے جو کورونا کی بدتر علامات میں سے ایک ہے۔
ہسپتال میں ماہر ڈاکٹروں کی زیرِ نگرانی وینٹیلیٹر کو ایک ٹیوب کی مدد سے مریض کے نظامِ تنفس سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر وینٹیلیٹرز کو چلنے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم چند کو بیٹری کی مدد سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔
وینٹیلیٹر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کو اس وقت تک سانس کی فراہمی ممکن بنائی جاتی رہے جبکہ تک وہ اس کو لاحق مرض سے باہر نہیں آ جاتا۔ کسی متعدی بیماری کی وجہ سے یہ دورانیہ چند دنوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔
کیا پاکستان میں وینٹیلیٹر آسانی سے میسر ہیں؟
ہیلتھ سروسز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق وینٹیلیٹر مقامی طور پر پاکستان میں تیار نہیں ہوتے اور انھیں درآمد کرنا پڑتا ہے، اس لیے ان کی قیمت کافی زیادہ ہوتی ہے۔
‘ایک عام چھوٹا سا وینٹیلیٹر بھی 10 سے 15 لاکھ سے شروع ہوتا ہے اور 50 لاکھ روپے مالیت تک بھی چلا جاتا ہے۔’ ان کو چلانے کے لیے بجلی کا خرچ اس کے الگ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق پاکستان میں ‘پہلے ہی وینٹیلیٹرز ضرورت سے انتہائی کم ہیں۔’
وینٹیلیٹرز کی عدم دستیابی کی صورت میں جو متبادل طبی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق وہ قابلِ بھروسہ نہیں ہے۔
کورونا کی صورتحال میں کتنے وینٹیلیٹر میسر ہوں گے؟
کورونا کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتِ پنجاب نے صوبے کے تمام اضلاع کے اندر مختلف ہسپتالوں میں کورونا کے ہائی ڈیپینڈنسی یونٹ قائم کیے ہیں جن میں آئسولیشن سنٹر بنائے گئے ہیں۔
محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب کے کورنا کے حوالے سے کی جانے والی تیاریوں پر مشتمل کتابچے میں دیے گئے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے سروسز ہسپتال میں قائم آسولیشن سنٹر کے پاس چھ سے آٹھ وینٹیلیٹر موجود ہیں۔
سب سے زیادہ گجرات کے عزیز بھٹی شہید ٹیچنگ ہسپتال میں 15 وینٹیلیٹر موجود ہیں۔ اسی طرح بہاولپور میں سات، راولپنڈی میں چھ سے آٹھ، اوکاڑہ میں آٹھ، میانوالی میں پانچ، رحیم یار خان میں چھ جبکہ زیادہ تر جگہوں پر ایک یا دو وینٹیلیٹر موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھکر، جھنگ، قصور اور لودھراں کے ہسپتالوں میں قائم ہائی ڈیپینڈنسی یونٹس میں ایک بھی وینٹیلیٹر موجود نہیں ہے۔
کورونا کے مریضوں کی اس وقت صورتحال کیا ہے؟
پنجاب حکومت کے مطابق صوبے میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد منگل کی رات تک 25 سے تجاوز کر چکی تھی ان میں وہ زائرین بھی شامل ہیں حال ہی میں ایران سے واپسی پر تفتان کے مقام پر قرنطینہ میں 14 روز گزارنے کے بعد حال ہی میں پنجاب میں داخل ہوئے تھے۔
حکومت کے مطابق 700 سے زائد ان تمام زائرین کو ڈی جی خان میں قائم قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جہاں غازی یونیورسٹی میں 1740 افراد کی گنجائش کا قرنطینہ قائم کیا گیا تھا۔ تاہم پنجاب کے وزیرِاعلٰی عثمان بزدار کے مطابق 1276 مزید زائرین پنجاب میں داخلے ہوں گے جنہیں قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔
تاہم اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہو گا کہ آنے والے دنوں میں مخلتف ہسپتالوں میں قائم ہائی ڈیپینڈنسی یونٹس پر دباؤ کتنا بڑھے گا۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ کس مقام پر کتنے وینٹیلیٹرز کی ضرورت ہو گی۔
حکومت کیا کر کر رہی ہے؟
منگل کی شب عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے اس امر کا اعتراف کیا کہ کورونا کی صورتحال میں ‘حکومت کو اندازہ تھا کہ کسی ممکنہ پھیلاؤ کی صورت میں انھیں دیگر سہولیات کے ساتھ وینٹیلیٹرز کی کمی کا سامنا بھی ہو گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس امر کو دیکھتے ہوئے حکومت نے پہلے ہی سے چین سے رابطہ کر رکھا تھا۔ چین سے حاصل کی جانے والی طبی سہولیات میں وینٹیلیٹرز کا حصول بھی شامل ہے۔