نئے نوول کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے دنیا کا تیز تر سپرکمپیوٹر بھی حرکت میں آگیا ہے۔
نئے وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا سائنسدانوں کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے پھیلائو کی رفتار کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے تحقیقی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔
اور دنیا کے تیز ترین سپرکمپیوٹر سمٹ کو اسی کام کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق آئی بی ایم کا یہ سپرکمپیوٹر مصنوعی ذہانت والے دماغ سے لیس ہے جو ایسے ہزاروں تجزیے کرسکتا ہے جس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کونسی مرکبات موثر طریقے سے وائرس کو خلیات کو متاثر کرنے سے روک سکتے ہیں۔تحریر جاری ہے
اس سپر کمپیوٹر نے ایسے 77 کیمیائی مرکبات کی شناخت کی ہے جو کہ موثر ترین ویکسین کی تیاری میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
اوک ریج نیشنل لیبارٹری کے سائنسدانوں نے اس حوالے سے نتائج کو جریدے ChemRxiv میں شائع کیا۔
خیال رہے کہ اس کمپیوٹر کو امریکا کے محکمہ تواائی نے 2014 میں عالی مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔
اس کی پاور 200 پیٹافلاپس ہے اور ایک بیٹافلاپ کا مطلب یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں ایک ہزار کھرب آپریشنز یعنی یہ سپر کمپیوٹر 2 لاکھ ٹریلین کیلکیولیشن فی سیکنڈ کرسکتا ہے۔
اس سے پہلے یہ کمپیوٹر الزائمر کا باعث بننے والے خلیاتی سسٹمز کی شناخت، افیون کی لت جیسی عاداات میں کردار ادا کرنے والے جینز کے تجزیے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
یہ کورونا وائرس کے خلاف کیسے لڑے گا؟
وائرسز میزبان خلیات کو متاثر کرتے ہیں اور اس کمپیوٹر کا کام یہ ہے کہ ایسے مرکبات کو تلاش کرے جو خلیات کو اس عمل کو روک کر اسے پھیلنے سے روکے۔
تحقیقی کے دوران سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے ایک ماڈل کو تیار کیا اور کمپیوٹر کے ذریعے جاننے کی کوشش کی کہ مختلف مرکبات پر یہ وائرل پروٹین کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
سپرکمپیوٹر نے 8 ہزار سے زائد سمولیشن کو چلایا تاکہ جان سکے ان میں سے کونسے مرکبات وائرس کے اسپائیک پروٹین کے افعال کی روک تھام کرسکتے ہیں اور 77 کی شناخت کی۔
اب تحقیقی ٹیم ایک بار پھر کمپیوٹر میں اس عمل کو دوبارہ کر گی اور اس بار رواں ماہ ہی کورونا وائرس ک اسپائیک پروٹین کے زیادہ مستند ماڈل کو استعمال کرے گی۔
ایک بار مرکبات کی شناخت ک بعد تجرباتی طور پر ان کو آزما کرر فیصلہ کیا جائے گا کہ کونسے کیمیکلز زیادہ بہتر کام کرسکتے ہیں۔
محققین نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ہمارے نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے کورونا وائرس کا علاج دریافت کرلیا ہے، تاہم یہ نتائج مستقبل کی تحقیقی مطالعہ جات میں مدد د سکیں گے اور زیادہ موثر ویکسین بنانا آسان ہوجائے گا۔