ویسے تو انسان جاتی ہی بہت عجیب ہے مگر انسانوں میں بھی اگر قسم بندی کی جائے تو ہم جنوبی ایشیائی سب سے الگ ہیں۔
سو روپے کے ادھار پر قتل کر دیں گے، خاندانی و دینی غیرت کے مارے سر اتار دیں گے، ہمیشہ اپنے کے بجائے دوسرے کو مشورہ دیں گے، بات بے بات ریاستی نااہلی کو اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔
لیکن جب آزمائش کا وقت آئے گا تو عقل کے ایٹم بم کو کام میں لانے کے بجائے جذبات کے بھالے، تاویل کی تلوار، کج بحثی کے پستول، اندھے عقیدے کے نیزے، تعصب کی منجنیق اور افواہ کی بندوق سے ہر آفت اور مرض کا مقابلہ کرنے کو افضل سمجھیں گے۔
مثلاً باقی دنیا بشمول عالمِ اسلام پولیو کا مقابلہ ویکسین اور آگہی سے کر رہی ہے اور سو فیصد کامیاب ہے۔ مگر ہم پولیو کو جہالت کی توپ سے اڑانے پر کمربستہ ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
جسے عید کی نماز کے سوا باجماعت نماز کا کوئی تجربہ نہیں، وہ حرم شریف میں نماز نہ ہونے پر سعودیوں سے بھی زیادہ رنجیدہ ہے۔
جس نے ہمیشہ ذخیرہ اندوزی کو حلال جانا، وہ اللہ تعالی سے ڈرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ جس نے جہاد پر اپنا کوئی بچہ نہیں بھیجا وہ بتا رہا ہے کہ وبا عام میں مرنا شہادت ہے۔
جس کی ہٹی سے کوئی ہڑ کا مربہ دو نمبری کے شہبے میں خریدنا پسند نہ کرے اس نے کورونا کا دیسی علاج سوشل میڈیا پر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ جو خود کو ہارٹ سپیشلسٹ کہہ رہا ہے وہ وائرالوجی میں گھس کے مشورے دے رہا ہے کہ ہر آدھے گھنٹے بعد ہیئر ڈرائیر سے ناک کے بال گرم کریں تاکہ وائرس اندر نہ گھسے۔
وزیرِ اعظم کا کام ہے کہ وہ اس جنگ میں قوم کی قیادت کریں مگر انھیں بھی امید ہے کہ کورونا گرم موسم شروع ہوتے ہی کچھار میں گھس جائے گا۔
گورنر پنجاب نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ دوسروں کو بھی قائل کر رہے ہیں کہ پانی پیتے رہیں تاکہ وائرس حلق سے پھسل کر معدے میں پہنچ جائے جہاں تیزابی عناصر اس کا کام تمام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
سرحد پار بھی ایسے ہی تماشے ہو رہے ہیں۔ گاؤ موتر سے کورونا کا اجتماعی علاج کرنے والے خود بیمار پڑ گئے ہیں مگر اس کے فضائل بیان کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک ارب پتی سادھو نے آیورویدک جڑی بوٹیوں سے علاج تجویز کیا ہے کیونکہ اس سادھو کی اپنی آیورویدک دوا ساز کمپنی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ صابن سے ہاتھ نہیں دھونا، سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال نہیں کرنا، اجتماعات یا بھیڑ میں جانے سے نہیں ہٹنا اور گھر میں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ ان کے علاوہ تمام کام کرنے ہیں۔
خود کو بھی دھوکے میں رکھنا ہے اور لاکھوں لوگوں کو بھی ورغلاتے رہنا ہے۔ اور جب یہی لاکھوں لوگ خدانخواستہ مکھیوں کی طرح مرنے لگیں تو یہی دھوکے باز کہیں گے کہ انسان بے بس ہے، جو بھگوان یا اللہ کو منظور۔
مگر قصور ان سب کا بھی نہیں۔ ہماری اپنی نفسیات کون سی مثالی ہے۔ یہ تو خیر کورونا ہے۔
میں نے تو بچشمِ خود 2010 کے سیلابِ عظیم میں ملاحظہ کیا ہے کہ انتظامیہ گاؤں والوں کے ہاتھ جوڑتی رہی کہ گھروں کو خالی کر کے کشتیوں میں بیٹھ جاؤ تاکہ تمھیں کیمپوں تک پہنچا سکیں۔ اگلے 24 گھنٹوں میں پانی تمھارے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ مگر اکثریت نے گھر چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمارے پیچھے گھروں کی حفاظت کون کرے گا۔
اور جب 24 گھنٹوں بعد پانی سات، آٹھ فٹ تک آگیا تو گاؤں چھتوں پر چڑھ کے حکومت کو کوس رہا تھا کہ اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔
یہ محاورہ بھی صرف برصغیر میں ہی بولا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کمیٹیاں بٹھانے اور بحث کرنے کا وقت گزر گیا۔ آپ جتنے لوگوں سے مشورے لیں گے اتنے ہی کنفیوژ ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔
یہ ہمارا گیلی پولی ہے۔ جب گیلی پولی پر مغربی افواج نے چاروں طرف سے ہلا بول دیا تو کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں سے کہا ’میں تمھیں لڑنے کا نہیں، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘ اور پھر گیلی پولی جیت لیا گیا۔
اس وقت ایک ہی ماڈل کام کا ہے اور وہ ہے چینی ماڈل: کرو یا مرو۔