اپنے اپارٹمنٹ میں مقید ہو کر میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ خوف نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اس کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس وائرس کے علاج کی تگ ودو میں ہے، جس وائرس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض ایک سیاسی افوا قرار دیا تھا۔
یہ وہ ملک ہے جسے باہر سے دیکھنے والے ہر لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور یہاں آ کر پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش میں وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو خطرے میں ڈال کر اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔
لیکن چند دنوں میں ہی یہ ملک اب بدل چکا ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے 260 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ اس وائرس سے 19624 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورتحال کتنی بگڑ سکتی ہے اور کب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔
امریکہ میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کیسے اندرونی طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔
یہ وہ ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو رہا ہو اس پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے رہنما اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے پیچھے نہیں رہتے۔
امریکہ کے وفاقی تحفظ صحت ایجنسی کے بیماریوں پر قابو پانے اور بچانے والے ادارے (سی ڈی سی) کے سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ زیادہ خراب صورتحال میں، جو کہ دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کی آدھی آبادی کووڈ-19 وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ایک ملین سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کی صورتحال وہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہاں سے لوگ اپنے آبائی وطن واپس جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق جن چینی والدین نے بڑے فخر سے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ یا لندن بھجوایا تھا وہ اب انھیں ماسک اور سینٹائزر بھیج رہے ہیں یا انھیں جلد از جلد گھر واپس بلا رہے ہیں جس پر 25 ہزار ڈالر تک خرچ آ سکتا ہے۔
مشرقی چین سے آئے 24 برس کی طالب علم جنھوں نے حال ہی میں گریجوئیشن کی ہے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی روم میٹ کے ساتھ واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔
دو ماہ پہلے تک چین اس وائرس پر قابو پانے کی تگ ودو میں تھا تاکہ اموات سے بچا جا سکے۔
امریکہ میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹیسٹ کرنے اور بچاو کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔
صدر ٹرمپ نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر سی این بی سی کو بتایا کہ ہم نے اسے مکمل قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سے جو اطلاعات آ رہی ہیں ان کا اس پر مکمل اعتماد ہے۔
صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ یہ دیکھنا باعث تعجب ہے کہ کیسے امریکہ میں ہیلتھ کیئر سے شروع ہونے والی کئی دن کی سیاسی گہما گہمی والی بحث آخر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ پر ختم ہوئی۔
ہیلتھ کیئر ایجنسی (سی ڈی ایس) نے کورونا وائرس سے متعلق اپنا ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن مینوفیکچرنگ خامیوں کی وجہ سے ابتدائی ٹیسٹ کے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج بے نتیجہ ہی رہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق کاٹن سویب، دستانوں (گلوز) اور دیگر آلات کی کمی کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ مطلوبہ رفتار سے نہیں ہو رہے ہیں۔
جیسے جیسے لوگوں نے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو صدر ٹرمپ نے اجلاس اور کانفرنسز شروع کردیں اور کیمروں کے سامنے اپنی انتظامیہ کو متحرک کر دیا جو ٹی وی پر بھرپور مدد اور اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔
امریکی صحافی ڈیوڈ ویلاس ویلس نے اپنے ایک کالم America is broken میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی خوب خبر لی۔ انھوں نہ لکھا کہ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کا نظام نجی کمپنیوں اور مخیر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے جہاں امریکہ میں بھی ضرورت کے اس وقت میں اس وبا سے متعلق ضروری طبی امداد فراہم کریں گے۔
ہمارے موجودہ نظام کی خرابی کی اس سے زیادہ بھیانک مثال کیا ہوگی کہ صفِ اول کے طبی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فیس معاف کرنے یا مشترکہ ادائیگی پر زبردستی مجبور کرنا پڑا۔
اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں۔
صحافی کارل گبسن نے انشورنس نہیں کرائی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ کورونا وائرس کے دور میں رہنا کتنا خوفناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سڑک پر موٹر سائیکل سے گرنے کے بعد جب میں 2013 میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو زیادہ فیس دیکھ کر پھر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں گیا ہوں۔
چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر نے میرے بازو پر پٹی باندھی، درد کی دوا لکھی اور مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اتنے سے کام کے لیے مجھے 4000$ سے بھی زیادہ دینے پڑے۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا وہ آج تک میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نہ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے سکتا ہوں اور نہ ہی گاڑی خرید سکتا ہوں۔
سنہ 2018 تک امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 27.5 ملین لوگ جو کہ کل آبادی کا 8.5 فیصد بنتے ہیں نے ہیلتھ انشورنس نہیں کرا رکھی ہے۔
عوامی احتجاج کے بعد دباؤ میں آکر امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے جلد اور مفت ٹیسٹ کی سہولت کا قانون بنایا ہے۔
تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکیوں جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں میں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس کے صحن میں کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ملین کے حساب سے ماسک تیار کیے جارہے ہیں تاہم زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔
ایسی افسوسناک اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ریاست سیٹل میں ڈاکٹر پلاسٹک شیٹ سے اپنے لیے ماسک خود تیار کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق صحت اور ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن نے کنسٹرکشن کمپنیوں، دانتو اور جانوروں کے ڈاکٹرز سمیت دیگر گروپس جن کے پاس ماسک ہو سکتے ہیں سے ماسک عطیہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
ایک ایمرجنسی روم میں ڈاکٹرز کو زائدلمدت والے ماسک دیے گئے اور جب انھوں نے ان ماسک کو باندھنے کی کوشش کی تو ان کی ربڑ ڈھیلی پڑ گئی۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انھیں محض صرف ایک ماسک ہی دیا جا رہا ہے جسے وہ لامتناہی وقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اسے صاف کر کے دوبارہ استعامل کر رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کتنا موثر ہو سکتا ہے۔
شگاگو میں ایک میڈیکل سنٹر پر ہسپتال کے عملے نے ’واش ایبل لیب گوگلز‘ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔
بروکلن میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ماسک کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے تک ایک ماسک کو استعمال کرتے رہے۔
ترقی یافتہ ملک سے غیر معمولی قسم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
یہاں تک کہ امریکی محکمہ صحت (سی ڈی ایس) نے یہ اعلان کرنے کی بھی کوشش کی کہ ماسک کی کمی کی وجہ سے اگر ضروری ہو تو منہ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سکارف کا استعمال کیا جائے۔ سی ڈی ایس کے مطابق جہاں اگر ماسک دستیاب نہ ہوں تو پھر آخری آپشن کے طور پر گھر کے بنائے ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں تاکہ کووڈ-19 کے متاثرہ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔
ہیلتھ کیئر کے محکمے میں کام کرنے والے اس صورتحال پر سخت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کے یہ اقدامات انھیں اور ان کے خاندانوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔
اس طرح کی صورتحال میں مریض جب سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر ایسے میں وینٹیلیٹر انتہائی زیادہ ضروری ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 160،000 وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 89،000 ابھی سٹاک میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بہت زیادہ وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔
لیکن اس صورتحال کی انتہا دیکھیں۔ اس ملک میں اکثر پیشگی تیاریوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیےل بنکرز کی فروخت کی مثال ہے۔
ایک تجزیے کے مطابق اگر یہ وبا 1968 کی طرح کی ہوتی جو ایک انفلوئنزا اے (فُلو) کی وجہ سے پھوٹی تو اس کے لیے ایک ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت ہوتی۔ تقریباً 38 ملین کو میڈیکل کیئر کی ضرورت ہوتی اور دو لاکھ کو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی۔
اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی۔
سنہ 1968 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی بھی شامل تھے۔
سنہ 1918 میں فلو سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس وبا سے 50 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جس میں 675000 امریکی تھے۔
امریکہ میں ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ بھر کی ہسپتالوں میں 924،107 بستر اور 46،825 بستر میڈیکل سرجیکل انٹینسو کیئر والے ہیں اور 50،000 سے زائد کارڈیالوجی اور دیگر امراض کے لیے بستر دستیاب ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مطلوبہ بستر کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔
امریکہ کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے تقریباً 2.8 بستر دستیاب ہیں۔ اتنے ہی افراد کے لیے جنوبی کوریا کے پاس 12 بستر سے زائد دستیاب ہیں۔ چین کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے 4.3 بستر دستیاب ہیں۔
اس طرح کے موازنے جاری رہیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد مختص کردیے ہیں۔