کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر اسلام آباد کے جوڑے نے شادی کیسے کی؟
’ہماری شادی 15 اور 16 مارچ کو طے تھی اور ہر کسی کی طرح مجھے اور میرے گھر والوں کو بھی اس کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ ہم کئی مہینوں سے اس کے لیے تیاریاں کر رہے تھے۔ لیکن جمعہ کے روز مائیوں کی رسم کے لیے گھر پر آئے میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آج سے تمام اجتماعات، جن میں شادی کی تقاریب بھی شامل ہیں پر تین ہفتوں کی پابندی عائد کر دی ہے۔‘
31 سالہ انجینیر محمد ریحان (فرضی نام) آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں اور وہ اپنی شادی کے لیے ایک ماہ کی چھٹیاں لے کر اسلام آباد آئے تھے۔
ریحان کے مطابق جب وہ آسٹریلیا سے چلے تھے تو انھیں صرف سفر کے دوران کورونا وائرس لگ جانے فکر تھی لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حالات اتنے بگڑ جائیں گے کہ ان کی شادی تک اس کی زد میں آجائے گی۔
’میں یہ سوچ رہا تھا کہ شاید آسٹریلیا واپسی پر مجھے اور میری اہلیہ کو قرنطینہ میں رکھا جائے گا، لیکن میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ یہ باتیں بعد میں سوچنے والی ہیں۔ ابھی تو پہلے شادی کی تقریبات اور خریداری کی فکر کرنی چاہیے۔‘
ریحان کہتے ہیں کہ جب انھیں انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے اپنے والدین کو اس کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی منسوخ ہونے کی خبر کو سن کر وہ پریشان ہو جائیں گے۔
پھر انھوں نے اپنی بہن اور قریبی دوست سے مشورہ کیا کہ اب وہ کیا کریں کیونکہ حکومت نے شادی ہالز پر تین ہفتوں کی پابندی عائد کی ہے جبکہ انھیں دفتر سے صرف دو ہفتوں کی چھٹی ملی ہے۔
ریحان کی بہن اور دوست نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ پہلے جا کر ہال انتظامیہ سے بات کریں، شاید وہ ایک فنکشن کرنے کی اجازت دے دیں۔ لیکن جب انھوں نے ہال کے مینیجر سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ انھیں انتظامیہ کی طرف سے سختی سے احکامات ہیں کہ کسی قسم کا فنکشن نہ کیا جائے۔
’یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ میں ایک گھنٹے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا اور ایک گھنٹے کے اند اندر حالات اتنے بدل گئے کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ خبر اپنے والدین کو کیسے بتاؤں، اور پھر یہ کہ ہم نے جو ہال اور کھانے کے لیے رقم ادا کی ہے وہ ہمیں واپس ملے گی بھی یا نہیں اور اب اگر ہمیں ولیمے کا فنکشن کرنا پڑا تو ہم کیسے اور کہاں کریں گے۔‘
ریحان کے مطابق جب انھوں نے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اس صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ پریشان تو ضرور ہوئے لیکن پھر وہ سمجھ گئے کہ یہ غیر معمولی صورت حال سب ہی کے لیے ہے۔
’میں اور میری بہن جو امریکہ سے میری شادی میں شرکت کرنے آئی ہے، نے یہی فیصلہ کیا کہ ہم ولیمے کو حالات بہتر ہونے تک ملتوی کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف مہمانوں کی بلکہ ہماری اپنی صحت کے لیے بھی ضروری ہے۔‘
ریحان کا کہنا تھا کہ وہ یہی سوچ کر سوئے تھے کہ ان کا ولیمہ اب ملتوی ہو گیا ہے لیکن جب وہ صبح اٹھے تو ان کو مختلف صورت حال ملی۔
’ایسا ہو نہیں سکتا کہ پاکستانی شادی ہو اور آپ کے رشتے دار اعتراضات نہ اٹھائیں، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب میں صبح سو کر اٹھا تو میرے والدین نے مجھے بتایا کہ خاندان کے بڑوں کا اصرار ہے کہ چھوٹا اور محدود ہی صحیح لیکن ولیمہ ہونا چاہیے کیونکہ کچھ مہمان دوسرے ممالک اور شہروں سے شادی میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔‘
ریحان اور ان کے دوستوں نے پہلے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے ایک فنکشن کے لیے اجازت نامہ لینے کی کوشش کی لیکن جب انھیں اس میں کامیابی نہ ہوئی تو انھوں نے کسی فارم ہاؤس میں ٹینٹ لگا کر فنکشن کرنے کا سوچا لیکن تقریباً تمام ہی ٹینٹ والوں نے جرمانہ ہونے کے خوف سے انکار کر دیا۔
’جب کچھ بھی نہ ہوسکا تو ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ میرے والدین جا کر صبیحہ (فرضی نام) کو سادگی سے اس کے گھر سے لے آئیں گے کیونکہ ہمارا نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا اور ہم صرف قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو مدعو کر کے گھر پر فنکشن کر لیں گے۔‘
’جتنا ہو سکا صفائی کا خیال رکھا‘
ریحان اور ان کی فیملی کے پاس اس فنکشن کا بندوبست کرنے کے لیے 24 سے بھی کم گھنٹے تھے۔
’ہمیں صرف اس فنکشن کے لیے تیاریاں نہیں کرنی تھیں بلکہ ہمیں صفائی اور مہمانوں کی صحت کا بھی خاص خیال رکھنا تھا۔ اس لیے ہم نے مٹھائی کھلانا، مہندی لگانا، جوتا چھپائی اور راستہ روکائی جیسی رسمیں جس میں دوسروں کو چھونے کا امکان بڑھ جاتا ہے سے گریز کیا۔‘
ریحان کے مطابق انھوں نے جن مہمانوں کو مدعو کیا ان میں سے بڑی تعداد نے ان کے ولیمے کی تقریب میں شرکت کی لیکن چند ایسے مہمان بھی تھے جنھوں نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر آنے سے معذرت کر لی۔
’صحت شادی میں شرکت سے زیادہ اہم ہے‘
ریحان نے فاطمہ (فرضی نام) اور ان کے شوہر کو بھی ولیمے پر مدعو کیا تھا لیکن انھوں نے اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔ فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں خدشہ تھا کہ ان کا انکار شاید ریحان اور ان کی فیملی کو برا لگے لیکن جب انھوں نے ان سے بات کی تو وہ ان کی پوزشن سمجھ گئے۔
وہ کہتی ہیں، ’میں جانتی ہوں کہ لوگ آپ سے امید کرتے ہیں کہ آپ شادی میں شرکت کریں گے لیکن میرے لیے میری اور میری بیٹی کی صحت زیادہ اہم ہے۔ میری بیٹی دو سال کی ہے اور میرے گھر میں بزرگ بھی ہیں۔ خدانخوستہ اگر مجھے یہ وائرس لگتا ہے تو شاید میں اس سے اس طرح متاثر نہ ہوں لیکن اگر مجھ سے میری بیٹی اور کسی بزرگ کو یہ وائرس لگ جائے تو یہ ان کے لیے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘
فاطمہ کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں اس لیے لوگوں پر ذمہ داری ہے وہ غیر معمولی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
’آپ جتنی بھی احتیاط کر لیں، اتنے لوگوں میں 100 فیصد صفائی کو یقینی بنانا ممکن نہیں۔ اس لیے اس صورت حال میں اس قسم کی تقاریب کو منسوخ کرنے اور زیادہ سے زیادہ سماجی دوری رکھنے میں ہی عقلمندی ہے۔‘
شادی پر آنا میری مجبوری تھی
لیکن ریحان کے قریبی دوست صائم (فرضی نام) ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے شادی میں شرکت کی۔
’میں کورونا وائرس سے متعلق صورت حال سے آگاہ ہوں لیکن ریحان میرا بہت اچھا دوست ہے اور میں اس کی شادی میں شرکت سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ شادی میں آنا میری مجبوری تھی۔‘
صبیحہ اور ریحان کا کہنا ہے کہ ان کا فنکشن ان کے منصوبے کے مطابق تو نہیں ہوا لیکن انھیں خوشی ہے کہ ان کا فنکشن بالآخر ہو گیا۔
’ہم نے شادی سادگی سے کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنایا تھا لیکن حالات کی وجہ سے ہمیں ایسا کرنا پڑا۔ اس سے ہمیں پتہ چلا کہ شادی اگر سادگی اور چھوٹے پیمانے پر ہو تو اس کا بھی اپنا مزہ ہے۔ اور وہ کہتے ہیں نا جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے۔‘
ریحان اور صبیحہ کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کی تقریب جب ہوئی تو اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کم تھی لیکن اب حالات مزید خراب ہوگئے ہیں، اس لیے وہ دوسروں کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ حالات بہتر ہونے تک بڑی تقریبات کو ملتوی کر دیں۔