خواجہ سعد رفیق کیلئے محترمہ مریم نواز کا یہ مشورہ بجا کہ وہ کورونا وائرس کے باعث (زیادہ میل ملاقات میں) احتیاط کریں‘ لیکن ایک عوامی (اور انتخابی) سیاستدان کوشش بھی کر لے تو کتنی احتیاط کر سکتا ہے؟ آخر وہ اپنے چاہنے والوں سے کتنا فاصلہ رکھ سکتاہے؟ اور اس میں کیا شک ہے کہ خواجہ سعد رفیق کا شمار مسلم لیگ (ن) کے مقبول رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کا انتخابی حلقہ ایک مشکل حلقہ ہے۔ یہ عوام سے ان کا رابطہ اور اپنے حلقے کیلئے تعمیر و ترقی کے حوالے سے وسیع تر خدمات ہیں‘ جو دیدہ و نادیدہ مشکلات کے باوجود ان کی انتخابی فتح کو یقینی بنا دیتی ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں انہوں نے حامد خاں ایڈووکیٹ جیسے پی ٹی آئی کے نامور لیڈر کو چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی ۔(حامد خاں صاحب پی ٹی آئی میں اب کہاں ہیں؟ کس طرف کو ہیں؟ کدھر ہیں؟) 2018ء کے عام انتخابات میں خود عمران خان یہاں سے امیدوار تھے۔ لاہور کینٹ اور ڈیفنس کا بیشتر علاقہ اس حلقے میں تھا‘ لیکن خواجہ صاحب نے خان صاحب کو بھی ٹف ٹائم دیا اور خان صاحب صرف سات سو ووٹوں کی سبقت حاصل کر سکے۔ (دوبارہ گنتی کی درخواست چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے مسترد کر دی تھی)اس حلقے میں خواجہ سعد رفیق پنجاب اسمبلی کے امیدوار بھی تھے‘ یہاں انہوں نے پی ٹی آئی کے فیاض بھٹی کے 14,940 ووٹوں کے مقابلے میں 34,113ووٹوں سے فتح حاصل کی۔ قومی اسمبلی کی اس نشست سے عمران خان صاحب کی دستبرداری کے بعد‘ ضمنی انتخاب میں جنرل اختر عبدالرحمن کے نامی گرامی صاحبزادے ہمایوں اختر پی ٹی آئی کے امیدوار تھے‘ الیکشن جیتنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ‘لیکن یہاں خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں وہ دس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔
اتوار کی شام خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی رہائی کے چوتھے روز بھی ان کی رہائش پر میلے کا سماں تھا۔ دونوں بھائی قریباً 16ماہ نیب کی حراست میں رہے۔ ابتدائی تین ماہ براہِ راست نیب کی تحویل میں اور سال بھر کیمپ جیل میں۔خواجہ برادران کی رہائی اگرچہ ضمانت پر ہے ‘لیکن نیب کے اس کیس میں کتنی جان ہے‘ اس کا پول ان ا لفاظ سے کھل جاتا ہے‘ جو ان کی درخواست ضمانت کی منظوری کے وقت ملک کی سب سے بڑی عدالت کے الفاظ میں کھل جاتا ہے‘ اسے نیب کی نااہلی یا بددیانتی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ دونوں بھائیوں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف نیب مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے‘ سپریم کورٹ اور لاہور و اسلام آباد ہائی کورٹس بھی اس طرح کے ریمارکس دے چکی ہیں۔ میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نیب عدالت کی سزاؤں کے خلاف ضمانت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے‘ چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ تیس سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلے میں احتساب عدالت کیلئے کافی سبق تھا‘ اسی طرح کے ریمارکس ملک کی اعلیٰ عدالتیں شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ مفتاح اسماعیل اور بیورو کریٹ فواد حسن فواد سمیت دیگر ملزمان کی ضمانت کی منظوری کے وقت بھی دے چکی ہیں۔
اتوار کی شام جاوید ہاشمی اور حفیظ اللہ نیازی کے ہمراہ خواجہ برادران کی رہائی کی مبارک باد دینے پہنچے تو دور تک گاڑیوں کی قطار تھی اور ان کے چاہنے والوں کا ہجوم۔ نیازی صاحب اور میں گاڑی سے نکل کر ایک طرف کو ہو لئے۔ کارکنوں نے ہاشمی صاحب کو دیکھا تو دیوانہ وار ان کی طرف لپکے۔ سعد رفیق کیلئے انہیں ہجوم سے نکال کر اندر ڈرائنگ روم تک لے جانا مشکل ہو گیا تھا۔خواجہ سعد رفیق کی اہلیہ اور بیٹی کو ہاشمی صاحب کی آمد کا پتہ چلا تو وہ بھی سلام کرنے چلی آئیں۔ ہمیں 23دسمبر 2011ء کی شب یاد آئی۔ تب سعد رفیق کرائے کے ایک اور گھر میں رہتے تھے۔ ہاشمی صاحب ‘ مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اور اگلے روز کراچی جا کر عمران خان صاحب کے جلسے میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ کر چکے تھے۔ تب بیگم صاحبہ (مرحومہ کلثوم نواز) کسی پروٹوکول کے بغیر جاتی امرا سے سعد رفیق کے ہاں پہنچیں کہ منہ بولے بھائی کے گلے شکوے رفع کر سکیں۔ سعد رفیق کی اہلیہ اور بیٹی بھی منت ترلے کر رہی تھیں‘ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ ہاشمی صاحب کی قسمت میں وہ تاریخی کردار لکھا تھا‘ جو انہوں نے اگست 2014ء کے دھرنا ایڈونچرکے دوران ادا کیا۔ہاشمی صاحب دسمبر 2011 ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد عمران خان کے بعد پارٹی میں سب سے مقبول اور اہم لیڈر تھا۔ اگست 2014ء کے دھرنے نے دونوں کے راستے جدا کر دیئے (اس حوالے سے ہاشمی صاحب کی اپنی اطلاعات تھیں) ہاشمی صاحب نے ایک انکشاف انگیز پریس کانفرنس اور قومی اسمبلی میں ایک معرکۃالآرا تقریر کے ساتھ تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا (اور اسمبلی کی اس نشست سے بھی مستعفی ہو گئے‘ جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتی تھی)۔
میاں نواز شریف کی معزلی اور نااہلی کے بعد دسمبر 2017ء میں ہاشمی صاحب نے دوبارہ میاں صاحب کی رفاقت کا اعلان کر دیا۔ یہ آزمائشوں کا نیا سفر تھا۔ کوئی سیاسی لالچ یا کسی منصب کی ہوس ہوتی تو ہاشمی صاحب پی ٹی آئی سے وابستگی کیوں ترک کرتے؟ ہم جیسوں کو خوش فہمی تھی کہ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کیلئے پنجاب سے ہاشمی صاحب کیلئے ایک ٹکٹ کیا مشکل ہوگی‘ لیکن ہاشمی صاحب کو اس کی خواہش تھی نہ اس سے محرومی کا کوئی ملال۔ مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو میں درجن بھر سے زائد نائب صدور تھے‘ ان میں بھی ہاشمی صاحب نہیں تھے‘ لیکن ہاشمی صاحب کو کوئی دکھ نہ تھا‘ انہیں تو میاں صاحب کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے غرض تھی (سویلین بالادستی کی دیرینہ خواہش‘ جو عہد شباب سے ان کے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی) ہاشمی صاحب میاں صاحب کی ہر پیشی پر عدالت میں موجود ہوتے۔ ملتان سے پنڈی تک (جسمانی معذوری کے ساتھ) سڑک کے راستے سفر کوئی آسان نہ تھا۔ یہ تعلقِ خاطر دوطرفہ تھا۔ ہاشمی صاحب کو دیکھ کر میاں صاحب کی آنکھیں بھی چمک اٹھتیں۔
ہاشمی صاحب کی طرح خواجہ سعد رفیق نے بھی سیاست میں بہت دکھ جھیلے‘ انہیں یہ آزمائش ورثے میں ملی تھیں۔ ایوب خاں کے عہد آمریت میں خواجہ رفیق کی جمہوری جدوجہد سیاسی تاریخ کا شاندار باب تھا‘ پھر بھٹو صاحب کے ”نئے پاکستان‘‘ میں انہیں دوسرا سیاسی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا (پہلے شہید ڈیرہ غازی خاں سے جماعت اسلامی کے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد تھے)۔سعد رفیق کا بھی جیل آنا جانا لگا رہا۔ مشرف دور میں‘ سردیوں کی اُس یخ بستہ شب کو وہ ہاشمی صاحب کے ساتھ تھے جب ان کے برہنہ جسموں پر بید برسائے گئے۔ اتوار کی شام‘ اس ملاقات میں پتا چلا کہ گزشتہ شب خواجہ سعد رفیق کی لندن میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے بات ہوئی تھی۔ شہباز صاحب واپسی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ یہ ایک اچھی خبر تھی (جس کا کئی دنوں سے انتظار تھا)۔ اس دوران لندن سے کال آئی کہ شہباز صاحب خواجہ سعد رفیق کو بتا رہے تھے کہ وہ ایئر پورٹ کیلئے روانہ ہو رہے ہیں۔ یہاں باتوں باتوں میں سعد رفیق نے بڑے پتے کی بات کہی‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلی بار 19سال کی عمر میں جیل گئے تھے ‘تب ضیا الحق کا دور تھا اور وہ ایم اے او کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ تب اٹھتی جوانیاں تھیں اور جیل کاٹنا کوئی مشکل نہ تھا۔ اب‘ وہ 57سال کے ہیں‘ جب جسم و جاں میں وہ پہلے والی کیفیت نہیں رہی‘ اعصاب بھی پہلے جیسے توانا نہیں ‘ تاہم یہ اپنے نصب العین کی صداقت پر یقین اور اس کیلئے جاں تک سے گزر جانے کا جذبہ ہی ہوتا ہے جو انسان کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔خواجہ سعد رفیق نے یہاں ایک اور بات بھی کہی کہ ہمارے جیسے قیدیوںکو تو پھر بھی دن کے اوقات میں باہم مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ (شام کو وہ اپنے اپنے سیل میں بند کر دیئے جاتے‘ دن کو اس احاطے میں کھلے ہوتے) منشیات کیس کے ملزم رانا ثنا اللہ تو دُور کہیں قید تنہائی میں تھے‘ان کی تو پرچھائیں تک کسی کی رسائی نہ تھی۔