بحران کی فالٹ لائن پر وبا کے دن
کورونا وائرس نے ایک دو نہیں، دنیا کے قریب قریب ہر ملک کو آ لیا۔ اس کا علاج معلوم نہیں، کسی کے پاس حتمی اعداد و شمار نہیں کہ تیز رفتار سفری سہولتوں کے اس عہد میں کون کہاں سے آیا اور کہاں کہاں سے ہوتا ہوا کدھر جا نکلا۔ ساڑھے سات ارب سے زائد آبادی میں سے کون کس سے کب ملا، کب اس نادیدہ عفریت نے کس کے جسم کو ٹھکانہ بنایا اور گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ بندہ بشر سماجی حیوان ہے۔
اجنبی چہروں کے کلبلاتے ہجوم میں چند افراد سے آشنائی کے سہارے زندگی گزاری جاتی ہے۔ اس وبا نے بنیادی انسانی رشتوں اور طبی ہدایات میں نفسیاتی کشمکش پیدا کر دی ہے۔ منہ لپیٹ کر کورونا وائرس سے بچ گئے تو آنکھوں میں شناسائی کا رنگ کیا ہو گا۔ سیاسی نظام کی تفریق مٹ چکی۔ وبا کی ابتدائی اطلاعات چین سے آئی تھیں لیکن اب نیویارک کے حالات بھی مخدوش ہیں۔
نیک و بد کا فرق مٹ گیا۔ یہ ایڈز کی بیماری نہیں جس پر اہلِ تقویٰ نے اپنی دکان چمکائی تھی۔ کورونا ایسا شپرہ چشم حریف ہے کہ حقانی اور تحریف شدہ عقیدوں کا امتیاز بھی نہیں کرتا۔ اسرائیل کی چیک پوسٹوں پر عرب شہریوں کو روکنے والے سپاہی بے بس ہیں کہ کورونا وائرس نوعمر فلسطینی لڑکوں کی صورت میں نظر نہیں آتا۔
اگر ایران سے لاشیں اٹھ رہی ہیں تو سعودی عرب میں بھی کرفیو نافذ ہے۔ بلند و بالا چرچ عبادت گزاروں سے خالی ہیں، مندروں کے ناقوس خاموش ہیں۔ گاؤ ماتا کے بول سے راشٹریہ کی سیوا کرنیوالے گھروں میں دبک گئے ہیں۔
مسجدوں میں رسم ِبلالی تو جاری ہے لیکن منبر سے دھاڑنے والے مولانا صاحب نے لاہور پولیس کی دوستانہ تجویز پر اپنی رائے بدل ڈالی ہے۔ ایسے کافر کا کیا کرے کوئی۔
رنگ اور نسل کی تمیز بھی مٹ چکی۔ بھارت کے حکمرانوں نے کیسی مافوق الفطرت بصیرت پائی ہے۔ کورونا وائرس تو کہیں دسمبر میں سامنے آیا، بھارت سرکار نے اگست 2019 ءہی سے کشمیریوں پر لاک ڈاؤن کا تجربہ کر ڈالا تھا۔ اب دہلی سرکار کو معلوم ہوا کہ لاک ڈائون کی جکڑ میں معیشت کیسے پگھلتی ہے اور دلوں کے قتلے کیسے ہوتے ہیں۔
ٹرمپ صاحب سمجھتے تھے کہ اوول آفس سے نشر کردہ امریکی غلبے کی للکار سے کورونا سہم جائے گا لیکن معلوم ہوا کہ کورونا وائرس میکسیکو کا غریب مہاجر نہیں ہے، سرمائے کے بل پر تعصب کی بکنی پہننے والی جمہوری دیوی کے ڈیجیٹل خدوخال سے کورونا کا بے چہرہ دیو مرعوب نہیں ہوتا۔
ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش سے اپنے لوگوں کا دفاع کرنیوالوں کو اچانک معلوم ہوا کہ 120ایٹمی وار ہیڈ اور 2ہزار وینٹی لیٹرز کو تحفظ کا توازن نہیں کہتے۔ ریاست عوام کے نام پر ہتھیار جمع کرتی ہے اور جب عوام کی بقا کا سوال اٹھتا ہے تو خبر آتی ہے کہ سلامتی کے نام پر خسارے کا سودا کیا گیا ہے۔
معاملہ صرف ہتھیاروں کا نہیں، ہم نے فرد کی تنک سی کائنات سے ریاست کے جبروت اور عالمی بندوبست کی دھونس تک دھوکے کی ایک دیوار اٹھائی تھی، کورونا ناانصافی اور جھوٹ کی اس فصیل پر حملہ آور ہوا ہے۔
بے چہرہ انسانوں کے معصوم دلوں پر پیوستہ مفادات کی باڑ باندھنے والوں کی بے بضاعتی سے پردہ اٹھا رہا ہے۔
اب طاقت کی دیوی کے پجاری ٹویٹ نہیں کرتے، سہمی ہوئی نظروں سے ان فرشتہ صفت انسانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو سفید لبادوں میں ملبوس سائنسی تحقیق میں غرق ہیں۔
اب کسی حکومت کا ریاستی نوٹ عوام کی ڈھارس نہیں بندھا رہا کیونکہ ہانگ کانگ میں مقیم منحرف ادیب یان لیانکے نے ایک ای لیکچر میں عظیم جست اور ثقافتی انقلاب کے استعاروں کی مدد سے سوا ارب انسانوں پر مسلط اخفا کی عبا نوچ ڈالی ہے۔
سویڈن کی اس بچی گریٹا تھنبرگ کی بصیرت جیت گئی ہے جو کرۂ ارض کی وسعت اور فرد انسانی کی بقا میں موجود پیچیدہ توازن کی گرہیں کھولتی تھی۔
ابھی ایک برس پہلے پیوٹن اور ٹرمپ نے اس لڑکی کا مذاق اڑایا تھا۔ یہ تاریخ کا سبق ہے، پوپ کا منصب گیلیلو کی صداقت پر فتح نہیں پا سکتا۔
صدیوں کا کھیل اب چند ہفتوں کے دورانیے میں سمٹ آیا ہے۔ کورونا وائرس میں اموات ابھی تک قابل ِتصور ہندسوں میں ہیں لیکن اس کی اصل ہیبت ہمہ گیر خوف میں ہے۔ نظر نہ والا اندیشہ جس سے پوری انسانیت پر فنا کی پرچھائیں لرز رہی ہے۔
اب اپنے گھرکی خبر لیجئے۔ ٹھیک چالیس برس پہلے پاکستان کی ریاست نے شہریوں کی صحت اور تعلیم کی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ جس کے پاس پیسے ہیں، علاج کرا لے، ذاتی وسائل ہیں تو تعلیم حاصل کر لے، باقی بھاڑ میں جائیں۔ ریاست اسٹرٹیجک گہرائی کا مورچہ کھودنے چلی گئی تھی۔
لال حویلی سے چکری راجپوتاں تک ایک ہی ’پارٹی لائن‘ تھی کہ ملک کو بیرونی خطرات کا سامنا ہے، دھرتی پر بسنے والوں کی فکر کرنے کا محل نہیں۔ عوام کو قبضہ گروپوں، بوری بند لاشوں، ٹیلی وژن کے ٹاک شوز، دھرنوں، ڈراموں، ترانوں اور سازشوں کے اسکرپٹ میں الجھا دیا گیا۔ اب صورت یہ ہے کہ کورونا کی وبا عالمی ہے اور ملکی وسائل مفقود۔ معیشت پہلے سے مفلوج ہے۔ انسانی سرمائے کی حالت پتلی ہے۔
تمدنی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ شہریوں میں سے جس کی نبض میں حرارت نظر آئی، اسے سرِبازار رسوا کیا گیا۔ سماج معطل ہو کر رہ گیا۔ سماج کے دریا سے ریاست کے کھیتوں کو پانی ملتا ہے۔
منبع خشک ہو گیا تو آبپاشی کیسے ہو سکتی ہے۔ پورے ملک میں کوئی ایک ریاستی ادارہ نہیں جو سر اٹھا کر اعلان کر سکے کہ اس نے اس ملک کے عوام سے دستور میں کیا گیا عہد نبھایا ہے۔ لاک ڈاؤن کی بحث بتاتی ہے کہ پاکستان میں عوام اور ریاست کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔
یہ عمران خان پر تنقید نہیں، وہ تو ایک بڑی تمثیل کا ضمنی منظر ہیں۔ اصل خبر یہ ہے کہ ریاست شہریوں کا اعتماد کھو چکی ہے، وسائل ضائع بھی کیے ہیں اور نئے وسائل پیدا کرنے کی تدبیر بھی نہیں کی۔ ہم تو دوسروں کے دروازے پر کشکول لیے بیٹھے تھے۔
ہم نے اپنی زمیں پر بارودی سرنگیں بچھائی تھیں، اور زیرِ زمیں خفتہ بھونچال سے نظریں بند کر رکھی تھیں۔ اب ایک عالمگیر وبا کا سامنا ہے، ہم سانس روکے ناگہانی کے انتظار میں ہیں۔ فضا میں بس گئی ہے دور سے آتے ہوئے چیتے کی بو، پتے لرزتے ہیں۔