مگر ندیم چن کی کال ریکارڈ کس نے کی!
ندیم افضل چن صاحب سے عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی۔ ان سے رابطے کے لئے میرے فون میں جو نمبر محفوظ ہے وہاں سے جواب موصول نہیں ہورہا۔مجھے یقین ہے کہ ان دنوں وہ کوئی اور نمبر استعمال کررہے ہیں۔وہ نمبر بھی ڈھونڈا جاسکتا تھا منگل کی رات مگر سونے سے قبل سوشل میڈیا پر دوکلپس دیکھ لیں۔ وہ ایک نہیں دو ٹاک شوز میں شریک ہوئے تھے۔دونوں ہی میں دیانت داری سے انہوں نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ان کی ’’مختارے‘‘ سے گفتگو کسی نے Doctor نہیں کی ہے۔پیر کی شام سے مجھے بھی بے تحاشہ لوگوں نے Whatsappاور ٹویٹر کے DMوالے آپشن کے ذریعے اس گفتگو کی کلپ بھیجی تھی۔ نظر بظاہر اسے بھیجنے والے یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ کورونا کی وجہ سے خدانخواستہ پاکستان میں ’’ہزاروں‘‘ اموات ہوچکی ہیں۔ حکومت مگر انہیں چھپارہی ہے۔ندیم افضل چن صاحب کی وائرل ہوئی گفتگو کے ذریعے ’’حقیقت‘‘ عیاں ہوگئی۔ایمان داری کی بات ہے کہ مذکورہ گفتگو کو سنتے ہی میں نے ازخود طے کرلیا کہ ندیم افضل چن صاحب درحقیقت ’’مختارے‘‘ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کورونا کے موسم میں ’’ڈیرہ داری‘‘ یا محفل بازی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ’’مختارے‘‘ کے لئے ضروری ہے کہ فوراََ اپنے آبائی قصبے حافظ آباد چلاجائے اور اپنے گھر والوں کے ہمراہ Social Isolationمیں بیٹھ جائے۔اسے اس امر پر قائل کرنے کے لئے ضروری تھا کہ کورونا کی وجہ سے پھیلے خوف کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔دیہاتی بیک گرائونڈ کے ساتھ ایک متحرک سیاسی کارکن ہوتے ہوئے چن صاحب خوب جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی ’’ڈھیٹ ہڈی‘‘ خود کو محفل بازی سے کاٹ کر گھروں تک محدود ہوجانے کو آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی۔انہیں اس امر پر قائل کرنے کیلئے کسی وبا کے ممکنہ نتائج کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنا ضروری ہے۔’’ہزاروں‘‘ اموات کا ’’مختارے‘‘ کے دل میں خوف کو جاگزیں کرنے کے لئے ’’ایجاد ‘‘ کرنا لازمی تھا۔ہمارے چند ’’پڑھے لکھے‘‘خواتین وحضرات کو ندیم صاحب کی ’’زبان‘‘ بھی ’’غیر مہذب‘‘ محسوس ہوئی۔ شہری متوسط طبقات قصبوں اور دیہات کی روزمرہّ زبان سے قطعاََ ناآشنا ہے۔وہ ہرگز سمجھ نہیں پائیں گے کہ ندیم صاحب کی زبان اور لب ولہجہ قصباتی روایات وثقافت کے تناظر میں بے ساختہ ہے۔یہ درحقیقت چن صاحب کی ’’مختارے‘ ‘سے محبت کا اظہارہے۔سوشل میڈیا پر چن صاحب کے حوالے سے وائرل ہوئی وڈیو سے حظ اٹھاتے چسکہ فروش بنیادی طورپر کہانی یہ پھیلانا چاہ رہے تھے کہ پاکستان میں کورونا سے ’’ہزاروں‘‘ اموات ہوچکی ہیں۔ عمران حکومت اس تعداد کو مگر چھپارہی ہے۔حکومت کے ایک ’’تگڑے‘‘ ترجمان نے اپنے ایک بے تکلف دوست سے گفتگو کرتے ہوئے ’’حقائق‘‘ بیان کردئے۔ ہم سب کو لہذا خوف میں مبتلا ہوجانا چاہیے۔چن صاحب کی لیک ہوئی گفتگوسن کر میں ڈھیٹ آدمی اگرچہ کورونا کے حوالے سے خوف میں ہرگز مبتلا نہیں ہوا۔میرے دل ودماغ میں اس کی وجہ سے بلکہ ایک جداگانہ نوعیت کاخوف اجاگر ہوا۔ آپ سے اس کا ذکر ضروری ہے۔ٹھنڈے پانی کا ایک گھونٹ پی کر ذرا غور کریں تو آپ کو یہ حقیقت دریافت کرنے میں کوئی دِقت محسوس نہ ہوگی کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی گفتگو محض دواشخاص یعنی ندیم افضل چن اور ’’مختارے‘‘ کے درمیان ہوئی تھی۔مجھے خبرنہیں کہ یہ گفتگو Whatsappکے ذریعے ہوئی یا اس کے لئے عام فون استعمال ہوا۔Appکوئی بھی استعمال ہوئی ہو گفتگو مگر ریکارڈ ہوئی۔لفظ ریکارڈ کے نیچے خطِ کشیدہ لگاتے ہوئے یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ ریکارڈنگ ’’کس‘‘ نے کی۔چن صاحب تو اپنی گفتگو ازخود ریکارڈ کرکے وائرل نہیں کرنا چاہتے ہوں گے ۔’’مختارے‘‘ کو بھی اس ضمن میں ضرورت نہ تھی۔یہ گفتگو یقینا ’’کسی‘‘ اور نے ریکارڈ کی اوراسے سوشل میڈیا پر وائرل کردیا۔بات کو آگے بڑھائیں تو یہ طے کرنا پڑے گا کہ ندیم افضل چن صاحب کا فون ریکارڈ ہورہا ہے۔میرے اور آپ جیسے عامیوں کے پاس کسی کے فون کو ریکارڈ کرنے کی قوت وصلاحیت موجود نہیں ہے۔یہ سہولت فقط چند ریاستی اداروں کو میرے اور آپ کے اداکردہ ٹیکسوں کے ذریعے فراہم کی گئی ہے۔ریاستی اور قومی سلامتی سے متعلق امور ٹیلی فونوں پر ہوئی گفتگو کی ریکارڈنگ کا جواز بتائے جاتے ہیں۔وطنِ عزیز میں ٹیلی فون ریکارڈ ہونا کوئی نئی بات نہیں۔1990سے 1996کے دوران صدر غلام اسحاق خان اور سردار فاروق خان لغاری نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت مہیا اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کو برطرف کیا تھا۔تینوں مرتبہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا۔ایوان صدر سے اپنے دفاع کے لئے جودستاویزات فراہم کی جاتیں ان میں ’’سیاسی مخالفین‘‘اور ’’صحافیوں‘‘ کی ایک فہرست بھی موجود ہوتی۔اصرار ہوتا کہ برطرف کئے وزرائے اعظم کی حکومتیں ان افراد کے ٹیلی فون ٹیپ کرتی تھیں۔لطیفہ یہ بھی رہا کہ تینوں مرتبہ ’’تخریب کار‘‘شمار ہوتے جن صحافیوں کی فہرست تیار ہوئی اس میں مجھ بدنصیب کا نام بھی شامل تھا۔ندیم افضل چن صاحب ’’تخریب کار‘‘ نہیں ہیں۔کھلے ڈلے آدمی ہیں۔کسی بھی موضوع پر اپنی رائے چھپانے کے عادی نہیں۔سنا ہے کہ کابینہ کے کئی اجلاسوں میں انہوں نے بلاخوف وزیر اعظم کی چند ترجیحات سے برملا اختلاف بھی کیا۔دروغ برگردنِ راوی،ایک بارانہیں وزیر اعظم نے مبینہ طورپر “Ultra Democrat” یعنی جمہوریت کا ضرورت سے زیادہ سجن بھی پکاراتھا۔دو افراد کے مابین ہوئی ’’نجی‘‘ گفتگو کو سوشل میڈیا پر ڈالنا غالباََ Cyber Crimeبھی شمار ہوتا ہے۔چن صاحب کی لیک ہوئی گفتگو سے لطف اٹھاتے او ر اسے اپنے دوستوں کو فارورڈ کرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں نے مگر اس پہلو پر بھی نگاہ نہ رکھی۔بحیثیت صحافی مجھے پیغام یہ ملا ہے کہ ندیم افضل چن صاحب کا فون ان دنوں ریکارڈہورہا ہے۔اچھا ہوا ان سے رابطے کا جونمبر میرے فون میں محفوظ ہے اس سے جواب موصول نہیں ہوا۔ میرے ساتھ وہ ’’مختارے‘‘ کے لئے استعمال ہوا لب ولہجہ تو اختیار نہ کرتے۔برجستگی میں البتہ مجھ سے چند ’’باغیانہ‘‘ کلمات ادا ہوجاتے۔چن صاحب انہیں خوش دلی سے نظرانداز کردیتے۔ ان کے فون پر نگاہ رکھنے والے مگر یہ طے کرلیتے کہ وہ ’’ناپسندیدہ‘‘ صحافیوں سے دوستانہ مراسم برقرار رکھے ہوئے ہیں۔یہاں تک لکھنے کے بعد اچانک خیال آیا ہے کہ میرے کئی قاری بضد ہیں کہ ان دنوں سوائے کورونا کے مجھے کسی اور موضوع کو اس کالم میں زیر بحث نہیں لاناچاہیے۔ان کی اکثریت کو یقینا یہ توقع ہوگی کہ بدھ کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے میں اس پیکیج پر توجہ مرکوز رکھوں گا جس کا اعلان منگل کی شام اس ملک کے سینئر ترین صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے معاشی ریلیف کے نام پر کیا ہے۔میری خواہش تھی کہ مذکورہ پیکیج کا اعلان وزیر عظم صاحب قوم سے خطاب کے ذریعے کرتے۔سینئر صحافیوں سے اڑھائی گھنٹے تک پھیلی گفتگو کی وجہ سے مذکورہ پیکیج کی جزئیات Focusedطریقے سے ہمارے سامنے نہ آپائیں۔نظر بظاہر ایک کھرب سے زیادہ کی خطیر رقوم معیشت کو کورونا کے ممکنہ اثرات سے محفوظ بنانے کے لئے مختص ہوئی ہے۔نیت یہ بھی ہے کہ اس رقم کا بیشتر حصہ غریب دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو ریلیف پہنچانے کے لئے خرچ ہو۔ پیٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹرکمی کا اعلان ہوا ہے۔بے تحاشہ لوگ اس سے اگرچہ مطمئن نہیں۔میں ذاتی طور پر نہایت خلوص سے یہ توقع باندھے ہوئے تھا کہ پیٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی نہ کی جائے۔پیٹرول کی قیمت میں گرانقدر کمی کے اعلان سے دادوصول کرنے کے بجائے کوشش یہ ہو کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کی وجہ سے حکومتِ پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے جو گرانقدرریلیف ملی ہے اسے اس امر کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میںآئندہ کئی مہینوں تک کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔یہ اعلان بھی بآسانی کیا جاسکتا تھا کہ بجلی اور گیس کے ایسے صارفین، جہیں ہر ماہ ان دومدوں میں کم سے کم پانچ ہزار روپے ادا کرنا ہوتے ہیں اپریل سے جون تک Zeroبتاتے بل وصول کریں گے۔دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو براہِ راست ریلیف فراہم کرنے کا یہ ایک شاندار نسخہ تھا۔نجانے کیوں اسے بروئے کار نہیں لایا گیا۔وہ گھرانے جو ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کے مستحق شمارہوتے ہیں انہیں بجلی اور گیس کے بلوں سے کم از کم تین مہینوں تک نجات دینے کے علاوہ یکمشت دس سے پندرہ ہزار روپے کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکتی تھی۔مجوزہ ریلیف سے بھی گریز ہوا۔مجھ جیسے سادہ لوح کی دانست میں دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو ریلیف فراہم کرنے والے ’’براہِ راست‘‘ طریقوں کے بجائے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس پر عملدرآمد بہت مشکل نظر آرہا ہے۔