دنیا بھر میں چین سے پھیلے ہوئے کورونا وائرس سے جو افرا تفری مچی ہے، اب وہ دھیرے دھیرے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اب تک کئی ہزار لوگوں کی جان جاچکی ہے اور آئے دن کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دنیا بھرمیں بڑھتی جارہی ہے۔یورپ سمیت برطانیہ میں بھی اب تک سو سے زیادہ لوگوں کی جان جاچکی ہے اور ہزاروں اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ برطانیہ میں لگ بھگ پانچ لاکھ لوگ کرونا وائرس سے جان گنوا سکتے ہیں۔ وہیں سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی تعداد آنے والے دنوں میں اور بڑھے گی۔برطانیہ کی ہیلتھ منسٹر کو بھی کرونا نہ دبوچ لیا ہے اور اب وہ پچھلے کئی روز سے الگ تھلگ ہو کر گھر میں بند ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے تقریباً ہر شہر سے آئے دن کرونا وائرس کی خبریں موصول ہورہی ہیں جس سے ہسپتال پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
برطانوی حکومت نے کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ایک نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ وزیر اعظم بورِس جون سن اپنے میڈیکل صلاح کار کے ساتھ روزانہ پریس کو خطاب کر رہے ہیں۔ہسپتال اور دفاتر میں خاص نوٹس لگایا گیا ہے کہ اگر آپ کو کھانسی،بخار یا قے وغیرہ جیسی کیفیت ہے تو آپ دفتر 14 دن تک کام پر نہ آئیں۔پہلے برطانیہ میں کورونا وائرس پانے والے لوگوں کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ لوگ پیرس میں کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ تاہم رفتہ رفتہ کورونا وائرس کا منحوس سایہ اب پورے برطانیہ پر چھا چکا ہے اور متاثرہ لوگوں کوالگ تھلگ رکھا جا رہا ہے۔ وہیں برطانیہ کا(NHS) این ایچ ایس یعنی نیشنل ہیلتھ سروس (جس سے برطانوی شہری کو مفت میڈیکل علاج دی جاتی ہے)کے ڈاکٹر، نرس اور دوسرے اسٹاف بہت محتاط ہو کر دن رات مریضوں کی جان بچانے میں کوشاں ہیں۔
اِن دنوں برطانیہ میں قیامت کا منظر ہے۔گزشتہ چھبیس برس میں پہلی بار مجھے لندن میں ایک خوفناک منظر دکھائی دے رہا ہے۔۔گلیوں اور سڑکوں پر بہت کم زندگی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور سنجیدگی سے اس بیماری سے نجات کا حل سوچ رہے ہیں۔ اسکول بند کر دیے گئے ہیں اور امتحانات ملتوی ہوگئے ہیں۔ دکانوں سے سامان دن بدن کم ہوتے جا رہا ہے اورپب، سوشل کلب، ریسٹورینٹ اور عبادت گاہوں میں لوگوں نے جانا بند کر دیا ہے۔ تمام تفریح کے پروگرام اور انگلش پریمئیر لیگ فٹ بال کو غیر معینہ مدت کے لئے رد کر دیا گیا ہے۔حکومت لوگوں سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ لوگوں سے ملنا جلنا بند کر دیں اور گھروں سے کام کریں۔ بزرگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تین مہینے تک گھروں میں رہیں اور اپنے رشتہ دار اور دوستوں سے نہ ملیں۔گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کرے تو کیا کرے اور ہر کوئی آنے والے دن میں اس وبا سے محفوظ رہنے کی باتیں کر رہا ہے۔
برطانیہ کا معروف رائل ہوسپیٹل فور نیورو ڈِس ایبیلٹی جس میں، میں ملازم ہوں، اپنے مریضوں، رشتہ داروں اور اسٹاف کی حفاظت کے لیے کئی طرح کے اقدام اٹھائے ہیں۔ ہسپتال کو سات زون میں بانٹ دیا گیا ہے۔ ہر زون کو ایک رنگ کے ذریعہ پہچانا جا رہا ہے۔ غیر طبی اسٹاف کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مین گیٹ کو چھوڑ کر ہسپتال کے سارے دروازوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی لِک وِڈ صابن سے ہاتھ دھونے کی گزارش ہے۔ ایک زون کا اسٹاف دوسرے زون میں نہیں جاسکتا ہے۔ کینٹین بند کر دیا گیا ہے۔مریضوں کے رشتہ داروں کو ہسپتال نہ آنے کی گزارش کی گئی ہے۔ہسپتال میں ایک ایمرجنسی روم بنایا گیا ہے جہاں سے کچھ لوگ چوبیس گھنٹے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
کورونا وائرس کے علامات یہ ہیں کہ اس کے شروعاع میں بخار سے ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔ چند دنوں بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے جس کے بعد مریضوں کو ہسپتال جانے کی نوبت آجاتی ہے۔ واضح رہے کہ اس کیفیت میں ناک کے بہنے اور چھیکنے کی علامات بہت کم ہیں۔ کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے گرم پانی اور صابن سے بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں یا سینی ٹائزر استعمال کریں۔ جب کھانسی اور چھینک آئے تو منھ پر ٹیشو پیپر رکھیں۔اگر ٹیشو پیپر ساتھ نہ ہو تو آستین سے منھ پوچھیں۔ بغیر دھلے ہاتھ آنکھوں، ناک اور منھ پر نہ لگائیں۔ اگر آپ کو لگے کہ آپ کو ایسی کوئی بات ہے تو بہتر ہوگا کہ آپ اپنے آپ کو الگ تھلگ کر کے گھر پر رہیں۔اس کے علاوہ کسی بھی شخص سے ملتے وقت دو میٹر کا فیصلہ رکھیں۔ ان لوگوں سے دوری رکھیں جن کی صحت پہلے سے ہی خراب ہے۔ اس کے علاوہ وائرس کے ٹیسٹ کے لیے اپنے ڈاکٹر اور ہسپتال سے فوری طور پر رجوع کریں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لا حق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14دنوں پر محیط ہے۔ لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24دن تک بھی ہو سکتا ہے۔
چین اور اٹلی میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں ریکارڈ کی گئی جو کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے جہاں کافی تعداد میں لوگوں کی موت ہوئی ہے۔اس کے علاوہ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں روزانہ لوگ مر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کی تشخیص بھی ہورہی ہے۔ فی الحال کورونا وائرس رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے تاہم ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چین میں اب کورونا وائرس کا زور ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ پورے چین میں احتیاطی طور پر اس وائرس کو روکنے اور علاج کا انتظام کا کام زوروں پر چل رہا ہے۔ تاہم فوری طور پر اس وبا سے کوئی راحت نہیں ملی ہے۔چین کے شہر ہوبائی جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے وہاں نیولک ایسیڈ کے طریقے کی بجائے اگر کسی شخص کو کورونا وائرس کا شک ہے تو اور سی ٹی اسکین میں اس کا پھیپھڑہ متاثر ہے تو اسے تصدیق شدہ کیس سمجھا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس کی تحقیق کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک ٹیم بیجنگ روانہ کی ہے۔ جو چینی صحت ایجنسی کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی روک تھام پر کام کر رہی ہے۔ وہیں عالمی ادارہ صحت نے اس بات کا بھی یقین دلایا ہے کہ جلد کورونا وائرس کی تحقیق کرنے کے بعد اس کے لیے ویکسین کا ایجاد کر لی جائے گی۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خاتمے کی بات کرنا فی الحال مشکل کام ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم اس پر دن رات کام کر رہی ہے اور اس کا حل نکالنا فوری طور پر ناممکن ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھا نوم نے کہا ہے کہ کورونا وائرس وبا کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جس سے اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ وبا دنیا بھر میں ایک بڑی تباہی مچا سکتی ہے۔ تاہم اس بات کی بھی امید دلائی گئی ہے کہ رواں ماہ تک یہ وبا ممکنہ طور پر اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد اس کی شدت میں کمی آنی شروع ہوجائے گی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرس کا نام کورونا وائرس ہے۔ 2002میں کورونا وائرس سے لگ بھگ 774افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں اس وائرس سے متاثر بھی ہوئے تھے۔کرونا وائرس کے کئی اقسام ہیں جن میں سات ایسی ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس سے بخار ہوتا ہے، سانس کی نلی میں شدید درداور مسئلہ ہوتا ہے۔
میرے ایک صحافی دوست کی ایک پوسٹ نظر سے گزرا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’کرونا چین میں آیا تو اللہ کا عذاب، ایران پہنچا تو تو شیعہ کی سزا، سعودیہ اور پاکستان میں آیا تو آزمائش ہے، واہ مُلّا تیری مرضی‘۔ میں اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی لکھتا چلوں کہ کئی مسلمانوں نے تو یورپ میں کرونا کا ہونا یوروپی لوگوں کی برائیوں کی سزا بتا ئی ہے۔ لیکن حیرانی تو مجھے تب ہوئی جب مجھے پاس کی ایک اسلامک سینٹر کے امام کو کورونا وائرس ہونے کا علم ہوا۔اللہ رحم کرے۔
گویا چین سے پھیلا کورونا وائرس اب دھیرے دھیرے دنیا کے سو سے زائدممالک میں پہنچ چکا ہے جس سے دنیا بھر میں سفر کرنے والوں میں ایک گھبراہٹ پائی جارہی ہے۔ائیر پورٹ پر ہو کا عالم ہے اور برطانوی حکومت نے اپنے شہریوں سے سفر نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ کرونا وائرس سے جہاں دنیا بھر میں ایک خوف اور افراتفری کا ماحول بن گیا ہے وہیں لوگ اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں۔ زیادہ تر ممالک اپنے اپنے طور پر احتیاتی اقدام اٹھا رہے ہیں تو وہیں عالمی ادارہ صحت بھی اپنی ماہرین کے ساتھ اس وائرس کی روک تھام کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آئیے ہم اور آپ اللہ سے دعا مانگے کہ اللہ ہم سب کواس وباسے محفوظ رکھے۔