منڈی بہاؤ الدین سے لاہور تک
بڑھاپے کی دہلیز کراس کرنے کے بعد ادھیڑ عمری کے دائرے میں داخل ایک شخص اسپتال میں مجھے ملنے آیا۔ میرا نام محمد زکریا بھٹہ ہے۔ میں منڈی بہائو الدین سے ہوں۔ منڈی کا نام سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اُسے اشکبار خوش آمدید کہا اور غم و حزن سے اُس کا استقبال کیا۔ میں نے پوچھا اب وہاں زکریا بھٹہ کو کون جانتا ہوگا۔ کم از کم چار نسلیں تو پروان چڑھ چکیں اور اگر میں، جیسا کہ آپ سے عمر میں بڑا ہوں، پانچ نسلیں اپنے پیچھے چھوڑ چکا ہوں، میں نے زکریا سے کہا، اب ہمیں کون جانتا ہوگا؟ زکریا بھٹہ نے کہا، بات تو صحیح ہے اب تو میں بھی چند برسوں سے لاہور میں بسیرا کر چکا ہوں، بس آپ کا کالم منڈی بہائو الدین سے لاہور تک پڑھا اور ملنے چلا آیا۔
معقول وقت تک میرے پاس بیٹھے صحت کا حال احوال پوچھتے رہے اور اٹھتے وقت کچھ روپے پیش کئے۔ میں نے زکریا سے پوچھا، یہ کیا ہے؟ کہنے لگے بھُل گئے ہو (بھول گئے ہو) ہماری طرف سے اِسے ’’پچھ‘‘ (حال احوال) کہتے ہیں، جب ہم کسی اپنے عزیز کی تیمارداری کرنے جاتے ہیں۔ میں نے یہ پیسے اپنے سینے سے لگائے اور کہا زکریا! آپ کو معلوم ہے مجھے منڈی گئے آدھ صدی سے اوپر ہو چکا ہے، اب تو نگاہ قدرت کے کرم پر ٹکی ہوئی ہے، وہ وصال کا سفر کرا دے تو کرا دے۔ اس طرح زکریا بھٹہ ’’پچھ‘‘ کا قرض ادا کر کے اور میرے دل میں یادوں کے غم زدہ چراغ روشن کر کے چلے گئے، جن کی لو کی پھنگوں پر میرے آنسو لرزاں ترساں تھے۔
منڈی بہائو الدین، نہیں ’’میرے منڈی بہائو الدین‘‘ کی بات آگے بڑھنے سے پہلے میرے محبوب مصنف اور شاعر رسول حمزہ توف کو پڑھتے چلے جائیں، اس سے مجھے آپ کو اپنا ’’منڈی بہائو الدین‘‘ سمجھانا زیادہ آسان اور فہم خیز لگے گا۔
رسول حمزہ توف لکھتے ہیں:۔ وہ کتاب جو میں نے ابھی لکھی نہیں ہے، میرے لئے ان تمام کتابوں سے زیادہ قیمتی ہے جنہیں میں لکھ چکا ہوں۔ وہ انمول ہے میرے دل سے بےحد قریب ہے اور جرأت آزمائی کی طالب ہے۔ ایک کتاب میرے نزدیک وہ گھاٹی ہے جس میں مَیں کبھی داخل نہیں ہوا لیکن راستے کھلتے جا رہے ہیں اور دھند میں لپٹی ہوئی وسعتیں سامنے آتی جا رہی ہیں۔ ایک نئی کتاب وہ گھوڑا ہے جس پر میں نے کبھی سواری نہیں کی، وہ تلوار ہے جس کو میں نے نیام سے باہر کبھی نہیں نکالا۔ پہاڑیوں میں ایک کہاوت ہے کہ ’’کسی معقول وجہ کے بغیر تلوار نیام سے باہر نہ نکالو اور اگر نکالنا پڑ جائے تو ایسی ضرب لگائو کہ ایک ہی وار میں سوار اور راہوار دونوں کا قصہ ہی پاک ہو جائے۔ پہاڑی لوگو! تمہاری باتیں کتنی صحیح ہوتی ہیں۔ پھر بھی تلوار نیام سے نکالنے سے پہلے اطمینان کر لینا چاہئے کہ اس کی دھار تیز ہے یا نہیں!
اے میری کتاب،تُو میرے دل کی گہرائیوں میں برسوں سے پڑا گھر ہے، تو اس خوبصورت محبوبہ کی طرح ہے جسے میں دور دور سے دیکھتا رہا ہوں، جس کے خواب میں نے دیکھے ہیں لیکن جسے چھونے کی ہمت کبھی نہیں ہوئی۔ اکثر ایسا ہوا کہ وہ بہت قریب آ گئی اتنے قریب کہ میں ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا لیکن ایسے موقع پر میں شرما کر اور جھجھک کر پیچھے ہٹ گیا ہوں۔ مگر وہ زمانہ گزر گیا۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے قریب جائوں گا اور اس کے بانہوں میں بانہیں ڈالنے کی جرأت کروں گا۔ شرمیلے عاشق کی جگہ اب میں ایک دلیر اور آزمودہ کار انسان بننا چاہتا ہوں، میں اس نئے گھوڑے پر سوار ہوتا ہوں، اسے تین بار چابک لگاتا ہوں اور روانہ ہو جاتا ہوں۔ اب جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔ پھر بھی میں سب سے پہلے پہاڑوں میں پیدا ہونے والے خالص تمباکو سے ایک سگریٹ بناتا ہوں اور لطف لے لے کر بناتا ہوں، جب سگریٹ بنانے میں اتنا مزہ آئے گا تو سگریٹ پینے میں کتنا مزہ آئے گا۔ اے میری کتاب! تجھے شروع کرنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری شخصیت کی گہرائیوں میں کس طرح تیری کونپل پھوٹی، تیرا نام کیسے میرے ذہن میں آیا، میں تجھے کیوں لکھ رہا ہوں اور زندگی میں خود میرے کیا منصوبے ہیں۔ میں اپنے مہمانوں کو اپنے باورچی خانے میں بلا لیتا ہوں، جہاں ابھی ابھی ذبح کیا ہوا مینڈھا صاف کیا جا رہا ہے۔ کبابوں کی مہک ابھی آنا شروع نہیں ہوئی ہے۔ باورچی خانے میں خون، گوشت اور تازہ اتری ہوئی کھال کی بو بھری ہے۔
میں اپنے دوستوں کو اس کمرے میں بلا لیتا ہوں جہاں بیٹھ کر میں لکھتا ہوں اور جہاں ہر طرف میرے مسودے بکھرے ہوئے ہیں، میں انہیں اپنے مسودے دیکھنے کی کھلی چھوٹ دے دیتا ہوں۔ حالانکہ ابا کہا کرتے تھے کہ دوسرے کے مسودے الٹنے پلٹنے والا آدمی اس آدمی کی طرح ہے جو دوسرے آدمی کی جیب ٹٹول رہا ہے۔ ابا یہ بھی کہا کرتے تھے کہ پیش لفظ اُسی آدمی کی طرح ہے جس کے شانے چوڑے چکلے ہوں۔ سر پر فر والی بڑی اور اونچی پاپاخ ٹوپی ہو اور وہ کسی تھیٹر کی اگلی صف میں بالکل آپ کے سامنے بیٹھا ہو۔ اب یہ آپ کی قسمت ہے کہ وہ سیدھا بیٹھا رہے، اِدھر اُدھر جھکے نہیں، میں کوئی تماشا دیکھ رہا ہوں اور سامنے اس طرح کا کوئی آدمی بیٹھا ہو تو مجھے بڑی کوفت اور جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔
منڈی بہائو الدین سے لاہور تک سفر کی داستان ابھی جاری ہے۔