ہمارے پروفیسر طارق احمد
عطاء الحق قاسمی صاحب کے ظہرانے میں، حسبِ معمول، حسبِ روایت مسکراہٹیں تھیں، قہقہے تھے، فقرے بازی تھی۔ گنگا رام ہسپتال کے پہلو میں، وارث روڈ پر ”معاصر‘‘ کے دفتر میں کوئی درجن بھر افراد کی گنجائش ہے، کھینچ تان کر دو، تین کا اضافہ کر لیں۔ شامی صاحب سے لے کر سہیل وڑائچ تک، یہ سب شہر کی نادرِ روزگار ہستیاں تھیں۔ میں قدرے تاخیر سے پہنچا تھا۔ کسی نے حسبِ معمول پوچھا: کوئی نئی تازی؟ تھوڑی دیر پہلے نیو کاسل (انگلستان) والے پروفیسر طارق احمد کی ٹائم لائن پر، ان کے صاحبزادے ڈاکٹر نبیل کی پوسٹ تھی۔ اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کی طرف سے، بے پناہ شفقت اور محبت کرنے والے والد کے لیے یہ دعائے صحت کی اپیل تھی۔ نبیل سے تفصیل جاننے کے لیے تین چار بار کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوا۔ شاید نیٹ ورک کا پرابلم تھا۔ طارق کا چھوٹا بھائی تنویر لاہور میں ہوتا ہے۔ اسے فون کیا تو اسے بات کرنے کا یارا نہ تھا، ”کینسر طارق کے جسم میں پھیل گیا ہے‘ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے…‘‘ اس نے مزید بھی کچھ کہا، لیکن اب مجھ میں سننے کی تاب نہ تھی۔میں نے یہی المیہ کہانی، عطا صاحب کے مہمانوں کو سنا دی… ایک دم سناٹا سا چھا گیا۔ سب حواس باختہ ہو گئے تھے۔ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ چند دن پہلے تک تو وہ سوشل میڈیا پر ایکٹو تھا۔ تھوڑا عرصہ پہلے لاہور کا چکر بھی لگایا تھا۔ ان میں شاید ہی کوئی ہو، جو طارق کے خلوص اور محبت سے شاد کام نہ ہوا ہو۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی کہانی تھی۔ وہ لاہور کا جم پل تھا۔ بچپن اور لڑکپن کرشن نگر میں گزارا۔ پھر والدین کے ساتھ راج گڑھ آ گیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز سے، امتیازی نمبروں کے ساتھ انگریزی میں ماسٹرز کیا۔ کچھ عرصہ پولیس میں افسر ی کی، لیکن یہ نوکری مزاج کو راس نہ تھی؛ چنانچہ پولیس انسپکٹری چھوڑی اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں انگریزی کا لیکچرار ہو گیا۔ انگریزی کے ساتھ اردو لٹریچر کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتا تھا؛ چنانچہ کالم نویسی بھی کرنے لگا۔ کالموں کا بنیادی مزاج مزاح کا تھا، طنز بھی کرتا‘ لیکن طنز اور استہزا میں باریک سے فرق کو خوب سمجھتا تھا؛ چنانچہ قلم کو استہزا سے آلودہ نہ کرتا اور اپنے ناقدین و حاسدین کے آبگینوں کو بھی ٹھیس نہ پہنچنے دیتا۔طارق کے اپنے الفاظ میں: احباب کے بے شمار پوسٹیں دیکھتا ہوں‘ جن سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن خاموشی سے گزر جاتا ہوں۔ کبھی کسی کی توہین نہیں کی۔ تیس سال سے انگریزی ادب پڑھ رہا ہوں۔ بیس پچیس سال پرانے میرے شاگرد آج بھی میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی معاملہ دوستوں کا ہے… والدین، اولاد، سگے بہن بھائی نعمت خداوندی ہیں… بچپن کے سنگی ساتھی جن کے ساتھ ایک ہی چھت تلے زندگی کا خوبصورت ترین وقت بسر ہوا۔ ایک ہی ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹیاں کھائیں، ایک ہی باپ کی گود میں جھولے لئے۔ اس کی کمر پر سواری کی۔ بہن بھائی دوبارہ نہیں ملتے۔ ان سے ”شریکا‘‘ کیسا؟ وہ چھوٹی بہن جس کی انگلی پکڑ کر سکول چھوڑنے گئے، بڑی بہن جس سے پیار لیا۔ دل کے جانی سگے بھائی، جو آپ کا تحفظ کرتے ہیں… زندگی کا اصل حسن، اصل خوبصورتی یہی ہے۔ ہم اس کی قدر کیوں نہیں کرتے؟لڑکپن ہی سے سیاست کا ٹھرک بھی تھا۔ (ہمارے شہید جنرل ضیاء الحق اپنی ہر دوسری تیسری تقریر میں پاکستانی قوم کے ذہنوں میں ”جمہوریت کے خناس‘‘ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ کبھی اس کے لیے ”جمہوریت کے کیڑے‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتے) طارق کے کالموں میں بھی جمہوریت کا کیڑا کلبلا تا رہتا۔ اسی دوران پی ایچ ڈی کی خواہش مچلنے لگی؛ چنانچہ لیکچرر شپ کے پندرہ سال بعد، اس کے لیے انگلستان کا رخ کیا۔ تب بیرونی یونیورسٹیوں کے ساتھ ”ایکسچینج پروگرام‘‘ نہیں ہوتے تھے۔ باہر سے سکالر شپ آتے بھی تو وہ بڑوں کے بیٹے بیٹیوں اور دامادوں کی نذر ہو جاتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سکالر شپس کی فیاضی بھی بعد کی بات ہے۔ طارق کو انگلستان میں پی ایچ ڈی کی گاڑی خود ہی کھینچنا تھی؛ چنانچہ یہ مشکل کام ادھورا ہی رہ گیا۔ ادھر طارق کے تینوں صاحبزادے نبیل، راحیل اور سجیل لاہور میں سکول جانے لگے تھے۔ طارق انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا؛ چنانچہ فیملی کو بھی انگلستان بلا لیا۔ محکمہ تعلیم پنجاب سے پہلے ”لانگ لیو‘‘ لی‘ پھر استعفیٰ بھجوا دیا… اور انگلستان میں لکھنے پڑھنے کی جاب کے ساتھ، چھوٹا موٹا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار بھی کرنے لگا۔ لیکن اس کا بنیادی ذوق شعر و ادب اور سیاسیات و سماجیات کا تھا۔ بس اتنے سے پونڈز کی فکر ہوتی جن سے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات اور آسودہ زندگی کے تقاضے پورے ہوتے رہیں۔طارق کو انگلستان میں پاکستانیوں کے سیاسی و سماجی اور شعری و ادبی حلقوں میں پاپولر ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ پاکستان (اور خصوصاً لاہور) سے کسی علمی و ادبی شخصیت کی لندن آمد کی خبر ملتے ہی، طارق کا شوقِ میزبانی مچل اٹھتا۔ وہ مہمان سے نیو کاسل آنے پر اصرار کرتا۔ اسے اپنے ہاں ٹھہراتا۔ پاکستانی احباب کے ساتھ اس کی نشست کا اہتمام کرتا۔ لندن سے نیو کاسل، ٹرین پر تین گھنٹے کا راستہ ہے۔ طارق مہمان کو لانے کے لیے لندن بھی پہنچ جاتا۔ ورنہ یہ ڈیوٹی چھوٹے بھائیوں جیسے مبین رشید کے سپرد کرتا کہ وہ مہمان کو لے کر آئے۔ اس حوالے سے شامی صاحب، عطاء الحق قاسمی، عطا الرحمن اور نوید چودھری سمیت ہر ایک کے پاس اپنی اپنی حکایت لذید ہے۔انگلستان کی بھرپور زندگی میں بھی طارق کو لاہور کی یاد آتی۔ وہ یہاں آتا اور تمام احباب سے ملاقات کو فرضِ عین سمجھتا۔ یہاں کی علمی و ادبی مجالس میں بھی شریک ہوتا۔ سوشل میڈیا، اس کے سیاسی نظریات کے بھرپور اظہار کا وسیلہ تھا۔ شاید ہی کوئی دن ہو، جب اس کی ایک دو پوسٹیں، اس کی ٹائم لائن پر نہ آتی ہوں۔ جمہوریت اس کے نزدیک محض ایک سیاسی عیاشی نہیں بلکہ وطن عزیز کے اتحاد و یک جہتی اور بقا و استحکام کا لازمی تقاضا تھی۔ وہ اپنے ریاستی اداروں کے لیے بھی محبت اور احترام کے فراواں جذبات رکھتا اور اس کے ساتھ یہ اصرار بھی کہ ادارے اپنی اپنی آئینی حدود کی پاسداری کریں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث کو وہ کٹ حجتی تک نہ پہنچنے دیتا۔ وہ سوشل میڈیا کی دنیا میں خاصا پاپولر تھا۔ 30 اکتوبر کو اس کی 62 ویں سالگرہ پر اس کی ٹائم لائن مبارکباد کے سینکڑوں پیغامات سے بھری ہوئی تھی۔ بیماری کے عالم میں بھی، وہ سوشل میڈیا پر ایکٹو رہا۔ زندگی روز پوچھتی ہے مجھے آخری شعر ہو گیا تو چلیںطارق خوش تھا کہ اس نے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے جو خواب دیکھے تھے، وہ شرمندہ تعبیر ہو چکے۔ نبیل نے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر لی۔ راحیل ایم آر سی پی ہو گیا اور سجیل نے بھی ایم آر سی پی کا پارٹ ون کلیئر کر لیا تھا۔ تینوں بیٹے اپنے اپنے گھر والے بھی ہو گئے لیکن تینوں ماں باپ کے ساتھ ہی مقیم رہے۔ وہ خوش تھا کہ بچے انگلستان کے ماحول میں پلے بڑھے، یہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اپنی مشرقی (اور اسلامی) اقدار و روایات کو بھی تھامے رکھا۔ بچوں کی شرافت و شائستگی میں سلیقہ شعار ماں کی تعلیم و تربیت کا کردار بھی بہت اہم تھا۔ چھ سال پہلے پراسٹیٹ کے کینسر کا انکشاف ہوا ۔ علاج جاری رہا اور طارق کی بھرپور سرگرمیاں بھی۔ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹروں نے بتایا، معاملہ بہت خراب ہو گیا ہے، اب کیموتھراپی لازم ہے۔ طارق اس اذیت دہ عمل سے پہلے لاہور آیا، احباب سے ملا، لیکن کسی کو اپنی بیماری کا نہ بتایا۔گزشتہ دنوں ڈاکٹر نبیل کی پوسٹ اور تنویر کی گفتگو سے طارق کی بیماری کی سنگینی کا علم ہوا تو کسی بری خبر کا دھڑکا لگا رہا… اور گزشتہ روز یہ بری خبر آ گئی… طارق خوش تھا کہ بچے اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے، اب وہ اپنی مرضی کی زندگی جیے گا۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ گھومے پھرے گا۔ دوستوں کے لیے اس کے پاس بہت وقت ہو گا۔ اس کی چار کتابیں آ چکی تھیں۔ اب وہ دو تین اور کتابوں پر کام کرے گا۔جمال احسانی نے کہا تھا ؎یہ کس مقام پر سوجھی تجھے بچھڑنے کیکہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے طارق اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ اس نے سنورے ہوئے مہ و سال بھی دیکھ لیے۔