’گھر والے پوچھتے ہیں گھر کب آؤ گے، انھیں کیا بتاؤں؟‘
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کے ایئر پورٹ پر 50 سے زائد ایسے پاکستانی گذشتہ ایک ہفتے سے پھنسے ہوئے ہیں جو مختلف ممالک سے پاکستان آنے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
حکومتِ پاکستان نے ان مسافروں کے لیے ایک خصوصی پرواز کا اعلان کیا ہے جس کی آمد آج شام پاکستان میں متوقع ہے۔
بی بی سی اردو کی نمائندہ منزہ انوار نے بنکاک ایئر پورٹ پر پھنسے ایسے چند پاکستانیوں سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کر کے وہاں کی صورتحال جاننے کی کوشش کی ہے جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
سعدیہ چوہدری کے مطابق ان کے ساتھ جانے والوں میں سے کُل ایک مسافر کو ای میل موصول ہوئی تھی کہ اپنا ٹکٹ اپ ڈیٹ کر لیں۔ وہ کہتی ہیں اس کے علاوہ ہم ادھر اُدھر سے سن رہے تھے کہ شاید آج فلائٹ مل جائے لیکن ہمیں یقین نہیں کیونکہ سفارت خانہ اور ائیر لائن کچھ نہیں بتا رہی تھی۔
’لیکن آج صبح تھائی ائیر والے ہمیں بتانے آئے کہ تیار رہیں آج شام اپ کی فلائٹ ہے۔ یہ فلائٹ اسی وقت (پونے سات بجے) پر پاکستان روانہ ہو گی۔ اس کے علاوہ تھائی ائیر نے سب مسافروں سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے فارمز بھی پر کروائے ہیں جن میں ان سے ایک قسم کا حلف لیا گیا ہے کہ وہ پاکستان جا کر آئسولیشن میں رہیں گے۔‘
گذشتہ ہفتے جب تھائی ایئر ویز کی پرواز ٹی جی 349 کے مسافر بورڈنگ پاسز حاصل کرنے کے بعد جہاز میں سوار ہونے جا رہے تھے تو گیٹ پر انھیں بتایا گیا کہ آپ کی فلائٹ کینسل ہو گئی ہے، تمام مسافروں کو گیٹ سے واپس لوٹا دیا گیا۔
یہ 50 مسافر مختلف ممالک سے براستہ بنکاک اسلام آباد جا رہے تھے۔ لیکن کورونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے اپنی فضائی حدود اچانک بند کر دیں۔
یاد رہے پاکستان میں چار اپریل تک بین الاقوامی فضائی آپریشن معطل ہیں جس کے سبب بے شمار پاکستانی مختلف ممالک کے ایئر پورٹس پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ان میں سے کچھ مسافروں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان لے جایا جا چکا ہے تاہم بہت سے مسافر اب تک پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ویزوں کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔
بنکاک ہوائی اڈے پر پھنسے ایسے ہی 50 افراد میں بزرگ، سات بچے اور ایک حاملہ خاتون بھی شامل ہیں۔ انھیں ایئر پورٹ میں بند ہوئے آج ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور یہ سب افراد ایک ہی لاؤنج میں ایک طرح سے قید ہیں۔
انھی مسافروں میں جاپان سے پاکستان جانے والے عرفان بھی شامل ہیں۔ عرفان اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں، جن کی عمریں دو اور چار سال ہیں، کے ساتھ ایئر پورٹ پر موجود ہیں۔
عرفان کہتے ہیں ’جب جاپان سے جہاز اڑا تو میں نے چیک کیا کہ کیا اگلی فلائٹ مقررہ وقت پر ہے یا نہیں۔ اگلی فلائٹ بالکل مقررہ وقت پر جارہی تھی۔ تب تک سب ٹھیک تھا۔‘
’ہم 3:15 پر یہاں پہنچے اور اس وقت تک بھی اگلی فلائٹ مقررہ وقت پر جا رہی تھی اور ہم مطمئن تھے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہونے والا۔ 6:45 پر ہماری فلائٹ روانہ ہونی تھی لیکن جب 6:30 پر ہم بورڈنگ کرنے لگے تو انتظامیہ نے آگاہ کیا کہ آپ کی فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔‘
عرفان کہتے ہیں ’یہ گذشتہ سنیچر کی بات ہے اور آج ہمیں ایئر پورٹ میں بند ہوئے پورا ہفتہ ہو گیا ہے۔ ہم باہر نہیں نکل سکتے۔۔ یہاں کے حکام ویزہ نہیں دیتے اور ہاکستانی حکومت جہاز لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کریں۔ تھائی ایئر والے کہتے ہیں آپ کی حکومت کا قصور ہے انھوں نے آخری وقت میں پروازیں بند کر دیں اس لیے ہم نہیں جا سکتے۔‘
عرفان کے مطابق ’ہم تقریباً 57 افراد ٹرانزٹ والے تھے اس کے علاوہ 20 مسافر اور تھے کیونکہ اس روز دو فلائٹس پاکستان جا رہی تھیں، ایک لاہور اور دوسری اسلام آباد۔ جو تھائی لینڈ سے بورڈ ہو رہے تھے وہ وہیں سے باہر نکل گئے۔ پانچ سے چھ افراد ایسے تھے جو کوریا اور ملائشیا سے آ رہے تھے ان کے پاس ان ممالک کے ویزے تھے اس لیے وہ واپس لوٹ گئے۔‘
’پہلے چار روز تو ہم نے بینچوں پر بیٹھ کر گزار دیے۔ پھر تھائی ایئر لائن نے ہمیں ایک لاؤنج کھول دیا (عرفان نے بتایا کہ تھائی ایئر نے لاؤنج میں منتقل کرنے سے قبل ان سب کا چیک اپ اور کم از کم 10 افراد کا کورونا ٹیسٹ بھی کیا ہے) لیکن اس میں بھی انھوں نے ہمیں پچھلے 48 گھنٹے سے بند کیا ہوا ہے۔‘
عرفان ہنستے ہوئے کہتے ہیں یہ ’ایک طرح کی آئسولیشن ہی ہے بس اتنا ہے کہ ہم 51 افراد ایک ہی کمرے میں ہیں۔‘
پاکستانی سفارت خانے سے امداد کے متعلق عرفان کہتے ہیں کہ سفارت خانے کا عملہ ان کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ سفارتی عملہ تین وقت کا کھانا، دوائیں، بچوں کے لیے دودھ اور پیمپر وغیرہ سب پہنچا رہا ہے۔
عرفان کے مطابق سفارت خانے والوں نے ویزے کے لیے بھی بھرپور کوشش کی اور ہوٹل بھی بک کروا لیا تھا جہاں پروازوں کی اجازت ملنے تک ہمیں رکھا جا سکے، لیکن تھائی حکام نے ویزہ نہیں دیا۔
عرفان کہتے ہیں ’یہاں سارا قصور حکومتِ ہاکستان کا ہے جنھوں نے سب سے پہلے تو جلدی میں فیصلہ کیا اور فلائٹ آپریشن صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر بند کر دیا۔ ہاکستان میں صبح کے چار بجے تھے جب انھوں نے اعلان کیا۔ انھوں نے اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ وہ سب لوگ جو ائیرپورٹس پر ٹرانزٹ میں تھے کم از کم وہ پاکستان پہنچ سکتے۔‘
وہ کہتے ہیں ’دنیا میں جتنے ممالک بھی ایسا کر رہے ہیں وہ کم از کم 48 گھنٹے کا نوٹس دیتے ہیں۔ کچھ ملکوں نے تو چار سے پانچ دن تک کا نوٹس دیا ہے تاکہ ان کے جتنے لوگ باہر کسی بھی وجہ سے گئے ہیں وہ اپنے ملک واپس آ سکیں۔ پاکستان نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اسی لیے پاکستانی دبئی، دوحہ اور ترکی کے ائیر پورٹ میں پھنس کر رہ گئے۔‘
یاد رہے دبئی اور دوحہ میں پھنسے مسافروں کو بذریعہ خصوصی فلائٹس پاکستان لے جایا جا چکا ہے تاہم پاکستانی سفارت خانے کے مطابق اس وقت کم از کم 175 افراد ترکی میں پھنسے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی ایئر پورٹ کے اندر پھنسے 40 مسافروں کو ترکی کے قرنطینہ مراکز میں لے جایا جا چکا ہے۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک ہفتے تک ایئر پورٹ کے ایک کمرے میں پھنس کر رہ جانا یقیناً بہت اذیت ہے۔ عرفان اور ان جیسے تین اور خاندانوں کے لیے بھی بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
خصوصی پرواز کے انتظامات کے متعلق عرفان کہتے ہیں ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ شاید کل پاکستان جا سکیں لیکن گذشتہ پانچ دن سے وہ کل ہی نہیں آ رہا۔ میں تب تک 100 فیصد یقین نہیں کروں گا جب تک ہاکستان واپس پہنچ نا جاؤں۔‘
وہ کہتے ہیں ’پاکستان پہنچ کر میں اپنے خاندان سمیت خوشی خوشی قرنطینہ میں 14 دن گزارنے کو تیار ہوں لیکن خدا کے واسطے ہمیں یہاں سے نکالیں۔‘
ان مسافروں میں کمبوڈیا میں زیرِ تعلیم سعدیہ چوہدری بھی شامل ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے باعث سعدیہ کی یونیورسٹی میں کلاسز منسوخ ہو گئیں اور وہ گھر واپس جا رہی تھیں۔
سعدیہ کہتی ہیں ’پہلی رات سفارت خانے والے آئے ہمیں ڈنر واؤچر دے کر چلے گئے کہ کل آئیں گے۔ اگلے دو روز میں انھوں نے آہستہ آہستہ کھانے، ادویات، ماسک اور سینیٹائزر کا انتظام کیا لیکن پاکستان جانے کا کچھ بھی نہیں بتایا کہ کیا ہو گا۔ بس یہی کہتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہ سب افراد ایک ہی لاؤنج میں بند ہیں۔ سعدیہ پریشان ہیں کہ کسی بھی وقت کسی مسافر میں کورونا کی تشخیص ہو جائے تو پھر باقیوں کا کیا ہو گا۔
سعدیہ کے مطابق ’سفارت خانے والے کھانا تو دے رہے ہیں لیکن صرف کھانا دینا حل نہیں ہے۔ گھر والے پوچھتے ہیں کہ تم نے کب آنا ہے تو اب انھیں کیا بتاؤں؟‘
سعدیہ چاہتی ہیں حکومت جلد از جلد کوئی فیصلہ کرے ’ہر روز یہی سنتے ہیں کل کچھ ہو جائے گا۔۔ قطر اور دوحہ ائیر پورٹ میں پھنسے لوگوں کو ہاکستان لے جایا جاسکتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں؟‘