کورونا: پاکستان میں کیا صنعتی اداروں کے علاوہ مزدوروں کو بچانے کی بھی ضرورت ہے؟
پاکستان میں کورونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے باعث ملک کی متعدد صنعتیں اور کارخانے بند ہیں اور یہاں کام کرنے والے افراد کو متعدد معاشی اندیشوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کو یا تو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے یا غیر معینہ مدت کے لیے بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنے کا کہا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کے نتیجے میں کئی کارخانے، ملیں، اور فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں یا بند ہونے کے عمل میں ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کارخانوں اور ملوں میں کام کرنے والوں کو نکالے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
بغیر تنخواہ گھر بیٹھنے کا حکم
سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں متعدد صنعتوں سے وابستہ افراد، کئی مزدوروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو نکالا گیا ہے۔ ان تمام افراد کو نوکری سے یہ کہہ کر نکالا گیا کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے باعث اس وقت صورتحال غیر یقینی ہے۔
سندھ حکومت نے حال ہی میں ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ صوبے میں جاری پابندی کے دوران کسی بھی ملازم یا مزدور پیشہ فرد کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا اور تنخواہیں بروقت دی جائیں گی لیکن اس اعلامیہ پر عمل نہیں کیا جارہا ہے۔
سندھ کے ایک بڑے کاروباری گروپ، ہاشو گروپ سے منسلک ہوٹل نے حالیہ دنوں میں ملازمین کو رواں ماہ کی تنخواہ دے کر گھر بیٹھنے کا کہا ہے۔ جبکہ ان ملازمین میں سے صرف چند کی ملازمت فعال رکھی گئی ہے۔
ان ملازمین میں سے ایک نے بی بی سی سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چاہے کوئی کانٹریکٹ پر ہے یا پکی نوکری پر اس وقت سب کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ سالانہ چھٹیاں بھی منجمد کردی ہیں۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ وہ تب فعال ہوں گی جب حالات بہتر ہوں گے۔ اور اس وقت کسی کو نہیں پتا کہ حالات کب بہتر ہونگے۔‘
اس بارے میں جب ہاشو گروپ کے ترجمان سے بات کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارے تمام ہوٹل بند ہیں۔ ہمارے ساتھ جُڑے کسی بھی ہوٹل میں، چاہے وہ میریئٹ ہو، پرل کانٹیننٹل یا پھر ہوٹل ون، ہم نے اپنے لوگوں کو گھر کسی منطق کی بنیاد پر بھیجا ہے۔ جب ہوٹل بند ہیں تو ہم انھیں کام پر بلا کر کیا کریں؟‘
ترجمان نے کہا کہ ’مارچ ابھی ختم بھی نہیں ہوا اور ہم نے تمام ملازمین کو رواں ماہ کی تنخواہ دے کر چھٹی پر بھیجا ہے۔ ہم خود ہاشو فاؤنڈیشن کے تحت لوگوں کی معاشی مدد کرتے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ غلط نہیں کررہے۔‘
جب ترجمان سے سندھ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیہ کی بات کی گئی تو ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’قانون میں لکھا ہے کہ بزنس بند ہونے کی صورت میں آدھی تنخواہ اور مکمل طور پر بند ہونے کی صورت میں بغیر تنخواہ ملازموں کو چھٹی پر بھیجا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی نہیں آئی کہ ہر گھنٹے بعد صورتحال مختلف ہو۔ ہم ہر وقت مانیٹر کررہے ہیں کہ اس سب سے کیسے نمٹا جائے۔‘
گارمینٹ فیکٹری اور مِلیں
سندھ اور پنجاب میں اب بھی گارمینٹ فیکٹری اور مِلیں کھلی ہیں اور وہاں پر کام کرنے والوں کے مطابق اُن کو آنا پڑتا ہے۔ اور پابندی کے باعث گھر بیٹھنے کی صورت میں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
حال ہی میں پولیس نے کراچی کے لانڈھی کے علاقے سے ایک کپڑوں کی فیکٹری کے مینیجر کو فیکٹری بند نہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا۔
ملک میں مزدوروں سے منسلک قوانین یا تو ایک صوبے کی حد تک محدود ہیں یا پھر ان کا اطلاق نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہورہے ہیں اور ان کے پاس اپنی بات کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
معاشی پیکج اور تین ہزار روپے کا راشن
جبکہ دوسری جانب سرکار دو سو ارب کے معاشی پیکج کا اعلان کر چکی ہے جس کے تحت یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور مزدوروں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
لیکن ماہرین کے مطابق اس معاشی پیکج کا فائدہ بڑے صنعتی اداروں کو تو مل جائے گا جبکہ مزدوروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد پر اس پیکج کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بڑے صنعتی اداروں کو بچانے کے بجائے مزدوروں اور ملازموں کو بچانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے کہا کہ ’اداروں میں اصلاحات لائے بغیر آپ مزدوروں کے حق اور نوکری کے تحفظ کی بات نہیں کرسکتے، یہ زخم صحیح کیے بغیر پٹی کرنے والی بات ہے۔ 3000 روپے میں کیا ہوسکتا ہے؟ قوانین بحال کریں تاکہ ملازم پیشہ یا مزدور پیشہ افراد خود کو سنبھال سکیں۔‘
اس وقت ملک بھر میں دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد سب سے زیادہ مشکل میں ہیں۔ کیونکہ یہ واحد طبقہ ہے جس کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتا۔
لیکن لاہور کے رہائشی اور سماجی کارکن مرتضی باجوہ اس وقت مزدوروں اور نوکریوں سے نکالے جانے والے ملازمین کے لیے ماہانہ راشن کا انتظام کررہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ چند ماہ پہلے تک بطور سپروائزر کام کررہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت صورتحال بہت خراب ہے کیونکہ اب بھی چند ایسی فیکٹریاں موجود ہیں جو ورکرز سے دو ماہ کام لینے کے بعد ایک ماہ کی تنخواہ دے رہے ہیں۔‘
حال ہی میں لاہور کے گجوّمتہ فیکٹری ایریا اور شاہ درا کے علاقے سے تقریباً 200 ملازمین کو بغیر کسی اطلاع دیے نوکری سے فارغ کردیا گیا۔
تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ
سماجی کارکن مرتضی باجوہ نے بتایا کہ ’کنٹریکٹ ورکرز کو یہ کہہ کر نکالا جارہا ہے کہ وہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے نوکریوں پر لگائے گئے تھے اس لیے باقی ملازمین کو ملنے والے حقوق ان پر لاگو نہیں ہوتے۔ جبکہ اس وقت ہر طرح کے فیکٹری ورکر کی نوکری خطرے میں ہے۔‘
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ منان باچہ نے تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے بارے میں بتایا کہ اس میں وہ ملازمین شامل ہوتے ہیں جو ٹھیکیدار یا ایجنٹ کے ذریعے فیکٹریوں میں لائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ایسے چھوٹے بڑے انڈسٹریل یونٹ موجود ہیں جن میں ایک مدت سے مزدوروں کو کوئی لیٹر یا ثبوت نہیں دیا جاتا جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ اس ادارے کے ملازم ہیں۔
’تھرڈ پارٹی ملازمین کی قانونی پوزیشن کمزور ہوتی ہے کیونکہ عدالتوں میں مالک منع کردیتے ہیں کہ یہ ہمارا ملازم نہیں ہے۔ جبکہ سندھ حکومت کے قوانین کے تحت تھرڈ پارٹی کا کوئی کونسیپٹ نہیں ہے۔‘
منان باچہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے تقریباً 80 فیصد ملازم تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ کے ذریعے آتے ہیں۔جن کا مستقبل حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مشکل نظر آتا ہے۔
اس وقت مختلف سماجی کارکن سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے مزدور پیشہ افراد اور ان تمام لوگوں کی معاشی مدد کرنے میں مصروف ہیں جن کو حال ہی میں نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔
لیکن ایڈووکیٹ منان کے مطابق ’اس وقت معاملہ صرف کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ اس وقت ملازمت اور مزدوری کرانے کے طریقہ کار پر بات کرنے کی اور جلد از جلد لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘