Site icon DUNYA PAKISTAN

خبردار! کوئی ویکسین استعمال نہ کرے

Share

کسی کا خیال ہے کہ یہ قدرت کا انتقام ہے، انسان نے زمین کا ستیاناس کر دیا تھا، ماحول برباد ہو رہا تھا، جنگلی حیات کو نقصا ن پہنچ رہا تھا، نیچر کا توازن بگڑ رہا تھا سو اسے درست کرنے کے لیے قدرت کا اپنا نظام حرکت میں آیا، ایک وائرس نے جُون بدلی اور انسان کو پیچھے دھکیل دیا، اب ہمیں خود میں جھانکنے کی ضرورت ہے، مسئلہ وائرس کا نہیں ہماری خود غرضی اور مردہ ضمیر کا ہے۔ 

کسی کا خیال ہے کہ یہ کورونا وائرس دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نتیجہ ہے، کشمیر سے لیکر فلسطین تک اور شام سے لیکر یمن تک مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا مگر نام نہاد مہذب ممالک کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ اسلامی ممالک کا ضمیر جاگا، سب اپنے اپنے کاروباری مفادات کے غلام بنے رہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اصل میں یہ وبا حرام جانوروں کے کھانے سے پھیلی ہے، اگر ہم حلال اور حرام میں تمیز کر لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

ایک صاحب کی وڈیو میں نے دیکھی، وہ فرما رہے تھے کہ یہ وائرس دراصل حیاتیاتی جنگ کا نیا ہتھیار ہے، یہ ایک امریکی کمپنی نے اپنی لیبارٹری میں تیار کرکے یورپ کو دیا اور وہاں سے اب یہ اسرائیل کے پاس پہنچ چکا ہے، اسرائیل اب اِس کی ویکسین اُن ممالک کو دے گا جو اسے تسلیم کریں گے۔ 

کچھ دانشور صاحبان کا فرمانا ہے کہ انسان اپنی اوقات سے باہر ہو رہا تھا، سائنس کے بل پر وہ خود خدا بن بیٹھا تھا، سو یہ وائرس خدا کی پکڑ ہےاور انسان کو اُس کی اوقات یاد دلانے کا طریقہ ہے کہ میاں آپے سے باہر مت ہو، تم ایک جرثومے کی مار ہو۔ اور ہم میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ وائرس خدا کی طرف سے کوئی عذاب، آزمائش یا سرزنش ہے، ہم گناہوں میں اسے بھول بیٹھے تھے سو اب توبہ اور استغفار کا وقت ہے۔آئیں! گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ کورونا وائرس کی آفاقی تعبیر درست ہے یا روحانی، اِس کی مذہبی وجوہات تلاش کرنا صحیح ہے یا سائنسی، مگر ایک بات طے ہے کہ ہم جس بھی تعبیر کو ٹھیک سمجھیں گے علاج بھی اسی میں ڈھونڈنا پڑے گا مثلاً پرانے وقتوں میں جب لوگ وباؤں کا شکار ہو جاتے تھے یا کسی آفت میں مبتلا ہو جاتے تھے تو اُن کا خیال ہوتا تھا کہ دیوتا اُن سے ناراض ہو گئے ہیں، سو پھر وہ کسی انسان کی قربانی دے کر دیوتاؤں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ کیسے کوئی وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر بیماری کا سبب بنتا ہے اور وبا کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اُن کے نزدیک بیماری کی وجہ دیوتاؤں کی ناراضی تھی نہ کہ وائرس۔

 آج بھی ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کورونا دراصل دنیا میں برپا کیے جانے والے مظالم کا ردعمل ہے تو پھر ایسے لوگوں کو اِس وائرس کا علاج ڈھونڈنے یا اِس کی ویکسین استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگر وائرس کسی سیاسی وجہ سے پھیلا ہے تو پھر اس کا تدارک بھی سیاسی طریقے سے کرنا پڑے گا، ویسے بھی جو ممالک مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں اگر انہی میں سے کوئی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اصولاً وہ ویکسین بھی ہمیں استعمال نہیں کرنی چاہیے!

 اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ یہ وائرس دراصل ہمارے گناہوں کی سزا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ وائرس سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا نہ کہ ویکسین استعمال کرنا ہوگی! اور وہ لوگ جو اِس وبا کو انسان کی سرکشی کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ بھی براہ مہربانی اِس کی ویکسین کو استعمال نہ کریں بلکہ سرکش انسانوں کو قابو میں لانے کی کوئی تدبیر کریں! اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس قدرت کا ایک تجربہ ہے جس سے قدرت دھرتی ماں کا تحفظ کر رہی ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اِس ویکسین کا استعمال کرنے کے بجائے مراقبے کے ذریعے دھرتی ماں سے گفتگو کریں، یقیناً افاقہ ہوگا!

یہ دلیل بہت دی جاتی ہے کہ بیماریاں، وبائیں، آفتیں، کسی بھی سبب سے ہوں، ان کی کوئی بھی تعمیر ہو، مذہبی، روحانی، آفاقی، سیاسی یا سائنسی، ہمیں ان کا تدارک تدبیر سے ہی کرنا چاہیے، دنیاوی اسباب تلاش کرنے چاہئیں اور پھر خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اِن دونوں رویوں میں کوئی متضاد بات نہیں۔ 

اِس دلیل میں بظاہر وزن لگتا ہے مگر حقیقت میں جب ہم اِس دلیل کو اپنے روز مرہ رویوں کے تناظر میں پرکھتے ہیں تو ہمارے تضادات سامنے آ جاتے ہیں، ایک طرف تو ہم اِس وبا کی غیر سائنسی تشریح پر یقین رکھتے ہیں مگر اسی بےچینی سے ہم اِس کی ویکسین یا دوا کے انتظار میں بھی بیٹھے ہیں جو سراسر میڈیکل سائنس کی تحقیق کے نتیجے میں ایجاد ہوگی، کسی ظالم کو سزا دینے کے نتیجے میں نہیں۔ 

یہ وائرس کسی سیاسی، روحانی، مذہبی یا آفاقی تعبیر کو نہیں مانتا، یہ جرثومہ اگر شکست کھائے گا تو صرف حیاتیاتی علم سے۔ اِس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بالکل کسی سائنسی روبوٹ کی طرح سوچنے لگیں اور اپنی روحانی تطہیر نہ کریں، ہم ضرور اپنے پروردگار سے مدد اور رحم کی بھیک مانگیں مگر ساتھ ہی اپنی سوچ کو سائنسی رکھیں، یہ وقت ہمیں Soul Searchingکا موقع دے رہا ہے، دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے.

ایک نئی تاریخ بننے جا رہی ہے، اِس وائرس کے بعد جب دنیا دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی تو بہت کچھ بدل چکا ہوگا، شاید کارپوریٹ ورلڈ ویسی نہ رہے جیسے پہلے تھی، شاید عالمی معاشیات کی حرکیات بدل جائیں، شاید زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہی تبدیل ہو جائے، شاید ہماری پرائیویسی پر کاری ضرب پڑے اور حکومتیں اپنے شہریوں کو وائرس کے خوف میں مبتلا کرکے اُن کی آزادیاں سلب کر لیں۔ 

یا شاید کچھ بھی خاص تبدیل نہ ہو اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہی، میں نہیں جانتا، میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر کسی کافر نے ویکسین ایجاد کر لی جس کے نتیجے میں انسانیت بچ گئی، کعبہ اور کلیسا آباد ہو گئے تو اُس کافر کے ساتھ ہم کیا سلوک کریں گے؟

Exit mobile version