ہر طرف صرف کورونا، کورونا ہو رہا ہے۔ ہونا بھی چاہئے کہ پوری دنیا اس وقت کورونا کے گرد گھوم رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کورونا کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ سب سے زیادہ شور مصیبت کے وقت مچاتا ہے اور شکر گزاری میں بخل سے کام لیتا ہے۔ سو دنیا میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو مصیبت کے وقت ہوتا ہے لیکن اس مصیبت کے وقت میں جبکہ بازار بند ہیں‘ شوقیہ آوارہ گردی موقوف ہے‘ مشاعرے معطل ہیں‘ آنا جانا انتہائی مجبوری کے عالم میں ہو رہا ہے‘ وقت وافر میسر ہے‘ واحد کام، جسے کام کہا جا سکے، بور ہونا ہے۔ اس بوریت کا حل یہ نکالا ہے کہ برادر عزیز مجیب الرحمان شامی کی تجویز کے مطابق کتابیں پڑھنا شروع نہیں کیں‘ بلکہ زیادہ کر دی ہیں۔ کتاب پڑھنا تو زندگی کا لازمہ ہے، اب ان دنوں کتاب پڑھنے کا وقت بڑھا دیا ہے۔
نظر کا معاملہ میرے مالک کی کرم نوازی سے کافی بہتر ضرور ہے مگر زیادہ دیر لگاتار کتاب پڑھنا اب بھی ممکن نہیں۔ تھوڑی دیر بعد آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور حرف پھیل جاتے ہیں۔ پھر ایک وقفہ لیتا ہوں اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ عامر ہاشم خاکوانی کی کتاب تو اس بدبخت کورونا سے پہلے ختم کر لی تھی۔ کل برادرم اظہارالحق کو اپنے گھر کا پتا ایس ایم ایس کیا ہے کہ فوری طور پر کتاب بھیجیں تاکہ وہ کالم جو نظر سے نہیں گزرے انہیں پڑھ کر اپنی اردو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے ایک نہایت ہی عمدہ نثر لکھنے والے دوست جو خود اتنا اعلیٰ لکھتے ہیں کہ پڑھ کر دل شاد ہو جاتا ہے اور ان کے اندر کا نقاد بھی اتنا ہی سخت ہے اور پسند نا پسند کے اس معیار پر فائز ہے کہ ہم جیسے لکھنے والے تو ان معیار پر ہی پورے نہیں اترتے مگر وہ عامر ہاشم خاکوانی اور اظہارالحق صاحب کے بارے میں ہمیشہ رطب اللسان رہتے ہیں۔ سو ایک کتاب پڑھ لی ہے، دوسری کیلئے ڈاکیے کا منتظر ہوں اور اس درمیانی وقفے میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب پر ہاتھ صاف کر رہا ہوں۔
اسی دوران محبّی ڈاکٹر معین نظامی نے اپنی چاروں کتابوں کو یکجا کر کے کلیات کی شکل میں شائع کروا دیا ہے۔ کتاب کا نام ہے ”چار مجموعے‘‘ اس میں ان کی تجسیم، استخارہ، متروک اور طلسمات شامل ہیں۔ حالانکہ میرے پاس یہ چاروں کتابیں علیحدہ علیحدہ کی شکل میں موجود ہیں لیکن اس مجموعے کے آنے کے بعد ایک بار پھر سے پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بار بار پڑھنے کے لائق والی شاعری ہے۔ طلسمات تو کئی ماہ تک میرے بستر کے سرہانے پڑی رہی اور اتنی بار پڑھی کہ کوئی اور کتاب ہوتی تو بندہ اس سے تنگ آ جاتا مگر طلسمات نے ہر بار لطف دیا اور صرف طلسمات پر ہی کیا موقوف؟ ڈاکٹر معین نظامی نے مجھے اپنی کتاب ”تجسیم‘‘ کا ایک نسخہ 1996ء میں عطا کیا تھا۔ تب اس کتاب نے لطف دیا۔ نظم لکھنا معین نظامی پر ختم ہے۔ کتاب گھر پڑی ہے اور یہ نظمیں میں محض یادداشت کے زور پر لکھ رہا ہوں۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کی معافی کے ساتھ دو چار نظمیں آپ کے لیے۔
قطرہ قطرہ شبنم
زمستاں
زمستاں کی بارش
زمستاں کی بارش میں خوشبو
زمستاں کی بارش میں خوشبو تمہاری
خدا جانے یہ شام تم نے کہاں اور کیسے گزاری؟
٭…٭…٭
کوئی رغبت نہیں دل کو
بہت سے چاند چہرے یاد آتے ہیں
جو میرے مطلع خواہش پہ چمکے تھے
اور اک اک کرکے گہناتے گئے تھے
کہ یہ گردش کی وہ مولائی سنت ہے
کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی
بس اک دھندلا سا چہرہ ہے
کہ جس کی ٹمٹماتی ضو
ابھی تک دوستی کی
تیرہ روزی میں بہت پرعزم ہوکر آتی جاتی ہے
مگر کب تک؟
کہ یہ چہرہ تو پھر بھی چاند جیسا ہے
اگر سورج بھی ہوتا، تو بالآخر ڈوب ہی جاتا
اور اب ان ڈوب جانے والی چیزوں سے
کوئی رغبت نہیں دل کو
٭…٭…٭
تشکر
ہمارے دل کی قسمت میں
اگر یوں دربدر ہونا ہی لکھا ہے
تو ہم خوش ہیں
سرِ تسلیم ختم کرتے ہیں
اور اپنی زبان شکر طینت کو
گناہ گارِ شکایت کرکے آلودہ نہیں کرتے
ہمیں اچھا نہیں لگتا
کہ شکوہ کرکے مردودِ محبت ہوں
ہمیں اچھا نہیں لگتا
رضائے جانِ جاناں پر
دل ناعاقبت اندیش ناخوش ہو
سو ہم اس دربدر ہونے کی ذلت کو
کرم کی اک ادائے خاص کہتے ہیں
اور اس میں مست رہتے ہیں
٭…٭…٭
نا آسودگی
یہ ناآسودگی کیا ہے
کہ جس کا دل پہ سایہ ہے
جو رگ رگ میں سرایت کر گئی ہے
اور داخل کے دریچوں میں
اذیت کا چراغاں کرتی رہتی ہے
جو آب و تاب خارج سے
خراجِ خیرگی لینے کی عادی ہو نہیں پائی
یہ نا آسودگی کا چشمۂ سیماب کیا ہے
جو علاجِ تشنگی ہونے نہیں دیتا
یہ کیسا دردِ بے دردی ہے
جو رونے نہیں دیتا
٭…٭…٭
تمہیں کچھ ہوا تو
تمہیں کچھ ہوا تو ۔۔۔۔۔۔۔
مگر بات یہ ہے، میرا دل یہ کہتا ہے:
”اس کو کبھی کچھ نہ ہوگا‘‘
تمہیں کچھ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔
مگر بات یہ ہے، میرا دل یہ کہتا ہے:
”تم نے یہ سوچا ہی کیوں ہے‘‘
تمہیں کچھ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔
مگر بات یہ ہے، میرا دل یہ کہتا ہے:
”آخر اسے کچھ بھی کیوں ہو‘‘
تمہیں کچھ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنے دل کی طرف سے اجازت نہیں ہے
کہ اس سلسلے میں، میں کچھ اور سوچوں
٭…٭…٭
یہ چاروں کتابیں ہی آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں، لیکن طلسمات تو بذات خود طلسم ہوشربا ہے۔