دنیا میں کووڈ-19 کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد جہاں روز بروز بڑھ رہی ہے وہیں اس سے متاثرہ افراد میں سے ایک لاکھ سے زیادہ صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
تاہم ان میں سے کچھ مریض ایسے بھی ہیں جن میں صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ عام نزلہ زکام جیسے انفیکشن کا شکار ہونے والے مریض میں عموماً ایسی بیماریوں کے لیے قوتِ مدافعت بھی پیدا ہو جاتی ہے سو کورونا وائرس کے معاملے میں مختلف کیا ہے۔
جاپان میں کورونا کا ایک 70 سالہ مریض وہ شخص ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو اس سلسلے میں پریشان کن حقائق کا علم ہوا۔
ٹوکیو میں رواں برس فروری میں اس مریض میں کورونا کی تصدیق کے بعد اسے الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔
جاپانی خبر رساں ادارے این ایچ کے کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحت یاب ہونے کے بعد اپنی روزمرہ زندگی کی جانب لوٹ گیا لیکن چند دن بعد وہ پھر بیمار پڑ گیا اور اسے بخار ہو گیا۔
وہ واپس ہسپتال آیا اور اسے اور اس کے معالجین کو یہ جان کر دھچکا لگا کہ اس میں دوبارہ کورونا وائرس پایا گیا ہے۔
یہ شخص جاپان میں ایسا واحد مریض نہیں لیکن بظاہر مریضوں میں صحت یابی کے بعد کورونا وائرس کے دوبارہ شکار ہونے کے واقعات زیادہ نہیں لیکن ایک قابلِ ذکر تعداد میں ایسا ضرور ہوا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
وائرل ری باؤنڈ
سپین میں بائیو ٹیکنالوجی کے قومی مرکز سے تعلق رکھنے والے وائرولوجسٹ لوئس اینہوانس کا کہنا ہے کہ کم از کم 14 فیصد مریضوں میں دوبارہ وائرس پایا گیا جن کا صحت یابی کے بعد کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا۔
ان کے مطابق یہ نیا انفیکشن نہیں بلکہ وائرس کی واپسی ہے۔
’میرے خیال میں دیگر امکانات کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں عام حالات میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہو رہی ہے وہیں کچھ افراد میں یہ کافی نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی مدافعتی ردعمل کمزور پڑتا ہے وائرس جو جسم میں کہیں نہ کہیں چھپا بیٹھا ہوتا ہے دوبارہ کام پر لگ جاتا ہے۔‘
وائرس جسم میں باقی رہ سکتا ہے
کچھ وائرس ایسے ہوتے ہیں جو جسم میں تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک رہ سکتے ہیں۔
لوئس اینہوانس کے مطابق جب کوئی شخص زیرو پازیٹو یعنی متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہوتا ہے تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ اس فرد میں اس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہے لیکن صحت یابی کے باوجود انفیکشن کے کچھ محرکات جسم کے بافتوں میں باقی رہ جاتے ہیں جن کا سامنا جسم کے دفاعی نظام سے نہیں ہوا ہوتا۔‘
لیکن کووڈ-19 میں کچھ ایسا ہے جس نے سائنسدانوں کو مخمصے میں ڈال دیا ہے اور وہ مریض کی صحت یابی کے بعد اس کے دوبارہ کورونا کے شکار ہونے کے درمیان کم وقفہ ہے۔
سائنسدان مخمصے کا شکار
ہم یہ جانتے ہیں کہ مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت مختلف ہوتی ہے۔
خسرہ جیسی بیماری میں اگر بچے کو ایک مرتبہ ویکسین دے دی جائے تو وہ عموماً عمر بھر کے لیے کافی ہوتی ہے۔ تاہم ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک خاص عمر کے لوگوں کو دوبارہ جدید ویکسین بھی لگوا لینی چاہیے۔
ایسے بھی وائرس ہیں جن کے خلاف ویکسین اتنی موثر نہیں ہوتی اس لیے ہمیں ان کا استعمال بار بار کرنا پڑتا ہے۔
اور پھر فلو یا نزلہ زکام کی ویکسین جیسی ویکسین بھی ہیں جو آپ کو ہر سال لگوانی پڑتی ہے کیونکہ وائرس شکل بدلتا رہتا ہے۔
کووڈ-19 چونکہ نیا وائرس ہے اس لیے سائنسدان ابھی سجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صحت یابی اور انفیکشن کے دوبارہ متاثر کرنے کے درمیان اتنا کم عرصہ کیوں ہے۔
میڈرڈ میں کارلوس تھری انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے اسیدورو مارٹینز کا کہنا ہے کہ اگرچہ کورونا سے دوبارہ متاثر ہونے کے واقعات سامنے آ سکتے ہیں لیکن اتنا کم درمیانی وقفہ عجیب ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس وائرس کے خلاف مدافعت دیرپا نہیں تو اگلی وبا میں جو ایک دو برس میں آ سکتی ہے آپ دوبارہ متاثر ہو جائیں گے اور یہ عام بات ہے۔
’تاہم یہ کبھی کبھار ہوتا ہے کہ ایک شخص اسی وائرس سے دوبارہ متاثر ہو جائے جس سے وہ صحت یاب ہو چکا ہے جبکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ کورونا فلو کے وائرس کی طرح زیادہ تبدیل نہیں ہوتا۔‘
عارضی تیزی
اسیدورو مارٹینز کی توجیہ بھی اینہوانس جیسی ہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر ہو یہ رہا ہے کہ وہ لوگ جن کے صحت یاب ہونے کے بعد ان میں دوبارہ کووڈ-19 کی تصدیق ہوئی ہے انھیں انفیکشن کے خاتمے سے قبل اس کی عارضی تیزی کا سامنا ہے۔‘
تاہم دونوں محققین نے خبردار کیا ہے کہ کووڈ-19 کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
بین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ ایک نیا وائرس ہے جس کے بارے میں ہم روز بروز کچھ نیا سیکھ رہے ہیں اس لیے دوبارہ متاثر ہونے کے معاملات کی وجہ کے بارے میں بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
تاہم سائنس کوشاں ہے کہ اس بات کا جواب مل سکے تاکہ دنیا بھر میں حکومتوں کو بتایا جا سکے کہ وہ کیا اقدامات کریں۔