کورونا وائرس: پاکستان کی جیلوں میں 80 ہزار قیدیوں میں کسے رہا کیا جا سکتا ہے اور کیسے؟
دنیا بھر میں کورونا وائرس کا بڑھتا پھیلاؤ خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ خدشات ان مقامات کے حوالے سے زیادہ شدت سے سامنے آ رہے ہیں جہاں ہجوم جیسی صورتحال درپیش ہے اور جس سے نمٹنے میں حکومتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
جیل ایسے مقامات میں سے ایک ہے۔
حال ہی میں یورپ کے چند ممالک میں جیلوں میں بند قیدیوں اور ان کے اہلخانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں کورونا کے خطرے کے پیشِ نظر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
پاکستان میں صورتحال زیادہ تشویشناک اس لیے ہے کیونکہ یہاں جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں۔
حال ہی میں لاہور کے کیمپ جیل میں ایک قیدی میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔ کیمپ جیل میں بھی دیگر جیلوں کی طرح گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں۔
گذشتہ برس پاکستان کی سپریم کورٹ میں وفاقی محتسب کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان بھر کی 114 جیلوں میں 77 ہزار سے زائد قیدی موجود تھے اس کے برعکس کہ ان جیلوں کی قیدیوں کی گنجائش 50 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔
سب سے زیادہ قیدی صوبہ پنجاب کی جیلوں میں قید ہیں جن کی مجموعی تعداد 45 ہزار سے زیادہ ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا دعوی ہے کہ قیدیوں کو مناسب انداز میں رکھنے کے لیے ان جیلوں میں گنجائش اس سے کہیں کم ہے جو سرکاری طور پر بتائی جاتی ہے۔
ان قیدیوں میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے خلاف مقدمات ابھی شروع بھی ہو پائے تھے۔ تشدد کے روک تھام کے بین الاقوامی ادارے کی سنہ 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قید میں رکھے جانے والے افراد میں 70 فیصد ایسے تھے جن کے خلاف مقدمات شروع نہیں کیے گئے تھے۔
لاہور میں انسانی حقوق کے وکیل اسد جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اب بھی حالات زیادہ مختلف نہیں تھے۔ اگر حکومت چاہے تو موجودہ صورتحال میں کم از کم 40 ہزار سے زائد قیدیوں کو جیل سے آسانی سے رہا کیا جا سکتا ہے۔‘
تاہم حکومتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ قیدیوں کو رہا کیسے کیا جائے اور کس قسم کے قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے؟ کیا آئین و قانون میں ریاست کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ قیدیوں کر رہا کرے یا اس کے لیے عدالتوں کے احکامات کی ضرورت ہو گی؟
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کیا جس میں معمولی جرائم میں ملوث 400 سے زائد افراد کو رہا کرنے کا کہا گیا۔ تاہم ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہونے کے بعد عدالتِ عظمٰی نے اسے سماعت کے لیے مقرر کر لیا ہے۔
صوبہ پنجاب میں لاھور ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کرتے ہوئے صوبہ بھر میں جیل حکام سے ان قیدیوں کی ضمانتوں کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے کا کہا ہے جنھیں قانونی طور پر رہا کیا جا سکتا ہے۔
کن قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے؟
چند قانونی ماہرین کہتے ہیں صرف ان قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے جو معمولی جرائم میں ملوث ہوں۔ چند ماہرین کے خیال میں قتل یا جسمانی ایذا پہنچانے والے مجرمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا تاہم کچھ کا خیال ہے کہ ان الزامات میں قید افراد کو بھی ضمانت پر رہائی دی جا سکتی ہے۔
فوجداری قوانین کے ماہر وکیل اٰعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسے مقدمات میں معافی مرنے والے کے لواحقین ہی دے سکتے ہیں اس لیے ان کو ریاست قانونی طور پر پیرول پر رہا نہیں کر سکتی۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات جن میں قتل یا جسمانی ایذا کے جرائم شامل نہ ہوں یا وہ معمولی نوعیت کے جرائم میں قید ہوں تو ریاست ان کو پیرول پر رہائی دے سکتی ہے۔ پیرول پر یہ رہائی قانونِ فوجداری کی دفعہ 401 کے تحت دی جا سکتی ہے۔
ریاست کن قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ’جن افراد کے خلاف مقدمات زیرِ سماعت ہوں ان کو عدالتوں سے ضمانت لینا ہو گی تاہم جن کے خلاف جرم ثابت ہو چکا ہے ان کو ریاست پیرول پر رہا کر سکتی ہے۔‘
وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ریاست کے پاس موجود اختیارات میں آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر کو معافی کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے تحت صدر کسی بھی جرم میں سزا پانے والے شخص کو معافی دے سکتے ہیں یا اس کے سزا میں کمی کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی قانونِ فوجداری کے دفعہ 494 کے تحت سرکاری وکیل مجاز عدالت کے اجازت کے ساتھ استغاثہ کی طرف سے مقدمہ واپس لے سکتا ہے اگر یہ نظر آ رہا ہو کہ مقدمہ ملزم کے بری ہونے کے طرف جا رہا ہے۔
عدالتیں کن قیدیوں کو چھوڑ سکتی ہے؟
وکیل اعظم نذیر تارڑ کی مطابق ایسے قیدی جن کے خلاف مقدمات زیرِ سماعت ہوں ان کو عدالت ہی سے ضمانت لینا ہو گی۔ یہ ضمانت زیادہ تر مجاز ماتحت عدالت دیتی ہے تاہم اعلی عدالتیں بھی ضمانت دے سکتی ہیں۔
تاہم وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ریاست اور عدالتوں کے پاس ایسے اختیارات اور قوانین موجود تھے جن کو استعمال کر کے قیدیوں کے ایک بڑی تعداد کو رہا کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پروبیشن آف آفینڈرز آرڈیننس 1960 کے تحت ٹرائل عدالتوں کے پاس یہ وسیع اختیارات ہیں کہ وہ کسی ایسے قیدی کو مشروط رہائی دے دیں جو گھناؤنے جرائم کے مرتکب نہ ہوں۔
عدالتوں کے خصوصی اختیارات
اسد جمال کے مطابق یوونائل جسٹس سسٹم 2018 کے تحت ٹرائل عدالت ایسے ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دے سکتی ہے جو یوونائل کے زمرے میں آتے ہوں اور کسی قابلِ ضمانت جرم کے مرتکب ٹھہرے ہوں۔
اگر ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہونے میں چھ ماہ یا زیادہ کی تاخیر ہوئی ہو تو عدالت کسی بھی جرم میں ان کو ضمانت پر رہا کر سکتی ہے۔
قانونِ فوجداری کی دفعہ 265 کے تحت ٹرائل عدالت ملزم کو مقدمہ کی سماعت کی دوران کسی بھی مرحلے پر رہا کر سکتی ہے اگر اسے محسوس ہو جائے کہ مزید مقدمہ چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام طور پر سرکاری وکلا یا ماتحت عدالتیں زیادہ تر ان پر عملدرآمد نہیں کرتیں یا وکیل ان کی مخالفت کرتے ہیں تاہم ’موجودہ صورتحال میں ان پر عمل سے جیل میں موجود قیدیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو رہا کیا جا سکتا ہے۔‘
قتل کے قیدی کو کب ضمانت مل سکتی ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وکیل اسد جمال نے بتایا کہ سزائے موت کے ملزم کا بھی حق ہے کہ اسے ضمانت پر اس صورت میں رہا کر دیا جائے جب اس کی خلاف مقدمہ دو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے التوا کا شکار ہو اور اس کا فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس بحران کا شکار ہے اور ان کا حق ہے کہ انھیں بغیر کسی تاخیر کے ضمانت پر رہا کیا جائے۔‘
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں ایسے قیدیوں کی رہائی کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے جو دو برس سے زیادہ عرصے سے قید میں ہیں اور ان کے خلاف یا تو نہ مقدمات چلائے جا سکے ہیں یا مقدمات التوا کا شکار ہیں۔
وکیل اسد جمال نے لاہور ہی کی کیمپ جیل میں قید ایسے ہی دو قیدیوں کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں اس مقدمہ میں شریک بننے کی درخواست دے رکھی تھی۔ تاہم جمعہ کے روز سماعت کے بعد عدالت نے بنیادی درخواست کو نمٹاتے ہوئے فیصلہ دیا کہ وہ پہلے ہی قیدیوں کی رہائی کی حوالے سے حکم دے چکے ہیں۔