یہ اطلاع ان دنوں بار بار دی جاتی ہے کہ ساٹھ سے ستر سال تک کے افراد کے کورونا وائرس سے انفیکٹ ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہیں بلکہ یہ بات اتنے تواتر اور اتنا زور دے کر کی جاتی ہے کہ بتانے والا اس کے ساتھ صرف یہ جملہ نہیں کہتا کہ اگر اس عمر کے افراد کو کورونا نہ ہو تو اس کا نام بدل دیا جائے۔ مجھے ایک بار پھر امان اللہ مرحوم یاد آرہا ہے، وہ ایک ڈرامے میں کہتا ہے کہ بابوں کو ہر وقت اپنی موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب موت کا فرشتہ آیا کہ اب آیا، چنانچہ رات کو سوتے وقت اس یقین کے ساتھ سوتے ہیں کہ کل ان کی تدفین اور پرسوں قل ہوں گے لیکن جب اگلی صبح ان کی آنکھ کھلتی ہے تو خوشی کی وجہ سے مرنے والے ہو جاتے ہیں، بار بار اپنے بدن کو چھوتے ہیں اور کہتے ہیں میں آج پھر بچ گیا۔
دس بارہ دن پہلے تک میں روزانہ صبح (ظاہر ہے زندہ سلامت) تیار ہو کر دفتر کیلئے نکلتا تھا، وہاں بیٹھ کر کالم لکھتا تھا، دوست احباب سے ملاقات کرتا تھا مگر لاک ڈائون کے بعد میرے اہلخانہ نے مجھے گھر میں نظر بند کر دیا ہے، ڈرائیور کو چھٹی دے دی ہے تاکہ میں اسے بہلا پھسلا کر باہر نہ نکل جائوں، اب میں ہوں اور گھر کے در و دیوار ہیں جو مجھے گھور گھور کر دیکھتے ہیں کہ یہ کیا تم ہر وقت ہمیں گھورتے رہتے ہو۔اور ہاں! معاملہ یہیں تک محدود نہیں، میرے وٹس ایپ پر سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز موجود ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں گھبرانا نہیں! مگر اس کے ساتھ وہ ایک نسخہ بھیجتے ہیں کہ اس کے استعمال سے کورونا آپ کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتا۔ ان کے یقین سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں دو تین دفعہ کورونا ہو چکا ہے اور اس نسخے کے استعمال سے ان کی جان بچی۔ ایسا نہیں کہ یہ کوئی ان پڑھ لوگ ہیں، کم سے کم دس جماعتیں پاس ہیں، کئی ایک تو ایم اے اردو بھی ہیں، ان میں سے کچھ روحانی علاج بھی بتاتے ہیں۔ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں مگر اس شعبے کے ماہرین کو کون سمجھائے جنہوں نے زندگی عذاب میں ڈالی ہوئی ہے۔ ان کے احکامات کے مطابق دن میں بیس پچیس بار صابن سے کم از کم بیس سیکنڈ تک ہاتھ مل مل کر دھونے ہیں، کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کے بعد سینی ٹائزر کا استعمال کرنا ہے، گھر کے تمام دروازوں کی کنڈیاں، ہینڈل، بجلی کے سوئچ، بٹن، موبائل فون اور اس کے علاوہ ہر چیز جسے بھی ٹچ کرنا پڑتا ہے، ڈیٹول سے صاف کرتے رہنا ہے۔ صرف یہی نہیں، آپ باہر سے جو سبزی، پھل وغیرہ لے کر آئیں تو پہلے اپنے ہاتھوں کی صفائی ستھرائی کے سارے عمل سے گزریں اور اس کے بعد سودا سلف کو بارہ گھنٹے تک ہاتھ نہیں لگانا، کیونکہ کسی ’’کورونا یافتہ‘‘ دکاندار کا ہاتھ لگنے کی صورت میں اس کے جراثیم بارہ گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں اور شاید حسرت بھری نظروں سے دیکھتے بھی ہوں کہ کوئی ان پر اپنا ’’دستِ شفقت‘‘ رکھے۔ روزانہ جو ہدایات موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق جوتوں کے ساتھ لگے جراثیم تین دن تک ان کے ساتھ زندہ رہتے ہیں لہٰذا اب ہر گھر میں دو جوتے باہر دروازے پر دھرے ہونے چاہئیں، ایک آپ پہن کر باہر جائیں اور دوسرا پہن کر گھر کے اندر آئیں۔میں تو خود نہیں چاہتا کہ اس درد بھری داستان کو طول دوں مگر کیا کروں مجھے تو دن میں کئی بار بتایا جاتا ہے کہ تمہاری عمر کے لوگ کورونا کا آسان ترین ٹارگٹ ہیں اور اگر ہم لوگ بچے ہوئے ہیں تو یہ کورونا کی مہربانی ہے یا اس کے کسی منصوبے کا حصہ ہے۔ بہرحال مجھے کالم کے آخر میں اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور پیغامات بھیجنے والے خدائی فوجداروں سے صرف یہی گزارش کرنا ہے کہ بابوں کو ڈرانا بند کریں، ان بابوں نے آپ کے درمیان ہی رہنا ہے جب تک یہ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ ان مسیحائوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ اگر کسی جنگل میں ان کا سامنا کسی شیر سے ہو جائے تو اس کے بعد جو بھی کرنا ہے شیر ہی نے کرنا ہے۔ اور ہاں! حکومت بھی جان لے کہ یہ لاک ڈائون، یہ کرفیو ان کے کسی کام نہیں آئے گا جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہ بابوں کو ڈرانے اور کورونے سے خوفزدہ ہونے کے بجائے خود سینہ تان کر میدانِ عمل میں نہ آئیں اور قومی خزانہ اللوں تللوں میں برباد کرنے کے بجائے اسے کورونا کو برباد کرنے پر خرچ نہ کریں۔