Site icon DUNYA PAKISTAN

پولٹری کے ممکنہ بحران کا بھی ادراک کریں

Share

بار ہا اس کالم میں عرض کرتا رہا ہوں کہ اخبار کا مطلب چھپے ہوئے وہ صفحات ہی نہیں ہوتے جو زیادہ تر لوگوں کو صبح اپنے گھر کے دروازے پر رکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’اخبار‘‘ کے لئے ’’خبر‘‘ اور اس کے علاوہ کالم اور تجزیہ نویسی کے لئے مخصوص اندازو ہنر بھی درکار ہے۔فرض کیا کہ ’’نوائے وقت‘‘ خود کو پرنٹ کی صورت برقرار رکھنے کے بجائے مکمل طورپر ویب پر منتقل ہوجائے تب بھی فقط ویب پرمیسر ’’اخبار‘‘ کے لئے بھی خبر یا کالم وغیرہ لکھنے کے لئے وہی اندازو ہنر استعمال کرنا ہوگا جو کاغذ پر چھپے اخبار کے لئے اپنایا جاتا ہے۔انگریزی زبان میں اس اندازوہنر کو Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔بے تحاشہ حقائق اور روزمرہّ مسائل کے کئی اہم پہلو فقط اس انداز وہنر کے ذریعے ہی لوگوں کے سامنے لائے جاسکتے ہیں۔میڈیم یعنی ابلاغ کے لئے اپنائے ذریعہ ہی کو Messageیعنی پیغام کہا جاتا ہے۔کوئی پسند کرے یا نہیں ’’اخبار‘‘ کے لئے اختیار ہوا انداز وہنر ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔اس کے ذریعے دئیے پیغام کا اثردیرپا ہوتا ہے اور اس کی ساکھ بھی دیگر ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔انٹرنیٹ البتہ آپ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا مؤثر ترین پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔

فیس بک ،ٹویٹر،ٹک ٹاک اور انسٹاگرام وغیرہ کی ایجاد وفروغ کے بعد دُنیا بھر میں پرنٹ صحافت کو متروک قرار دینے کی روایت چل نکلی۔اشرافیہ نے بالخصوص اسے حقارت سے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔لوگوں کے دلوں میں اُبلتے غصے کے کائیاں ’’ترجمان‘‘ بنے ٹرمپ جیسے افراد نے پرنٹ میڈیا کو Fake Newsکا منبع ٹھہرایا۔ ٹرمپ آج بھی اپنی نفرت کے اظہار کے لئے ٹی وی کے حوالے سے صرف CNNکا نام لیتا ہے۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے مگر نام لے کر انہیں مسلسل ’’عوام دشمن‘‘ پکارتا رہتا ہے۔’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’نیویارک ٹائمز‘‘ سے ٹرمپ کی نفرت درحقیقت پرنٹ میڈیا کے لئے اپنائے اندازوہنر کی بھرپور قوت کا اعتراف بھی ہے۔عمران حکومت بھی لیکن اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرنٹ میڈیا کی افادیت پر سوال اٹھاتی رہتی ہے۔اس کے ’’بزنس ماڈل‘‘ کو فرسودہ شمار کرتی ہے۔اخبارات کے لئے اپنائی حکومتی پالیسی کی وجہ سے ہمارے بہت سے تاریخی اداروں کو اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔

پرنٹ صحافت کے لئے اپنائے انداز وہنر کی اہمیت حال ہی میں بھرپور انداز میں اجاگر ہوئی ہے۔فیس بک وغیرہ کو Dataکی بدولت لوگوں کے ذہنوں میں موجود تعصبات کو جھوٹی ’’خبروں‘‘ کے ذریعے بھڑکانے کا رحجان چلا تو یہ ادارے اپنی Appsپر کئی فلٹر لگانے کو مجبور ہوگئے۔ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئے مواد کی نگرانی کے لئے ایک Gate Keeperیعنی ایڈیٹر کی ضرورت ہے۔

پرنٹ صحافت کے لئے ضروری تصور ہوتے انداز وہنر کی ساکھ کا اندازہ کورونا کے باعث اُٹھے بحران کے دوران مزید نمایاں ہورہا ہے۔بے شمار پڑھے لکھے لوگوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ وباء کے موسم میں فیس بک وغیرہ پر ’’سنسنی خیز‘‘ اور بسااوقات جعلی خبروں کا سیلاب اُمڈ آئے گا۔لوگ اس کی وجہ سے مزید خوف میں مبتلا ہوجائیں گے۔

حال ہی میں لیکن اس ضمن میں تحقیق ہوئی تو دریافت ہوا کہ فیس بک پر میسر کورونا وائرس سے متعلق ’’نیویارک ٹائمز‘‘ یا ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں چھپی خبروں اور مضامین کو بہت غور سے پڑھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔فیس بک پر ان اخباروں کی دی خبر ان کے پرنٹ ایڈیشن میں شائع ہونے کے بعد سوشل میڈیاپر پوسٹ ہوتواکثر قاری ان کے Linksکو Clickکرنے کو مجبور ہوئے۔ان دونوں اخباروں کے انٹرنیٹ کی بدولت قارئین کی تعداد میں کورونا بحران کے دنوں میں 150سے 180فی صد تک کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔مقبولیت کے نئے ریکارڈ بناتی یہ تعداد درحقیقت اس اندازوہنر کی اہمیت کا اظہار ہے جو Long Form Journalism کے لئے درکار ہوتا ہے۔

خکورونا وائرس کی مدافعت کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کو بھی لاک ڈائون کا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ہمارے سوشل میڈیا کاسرسری جائزہ لیں تو ہمارے ہاں 2011سے نازل ہوئی اندھی نفرت وعقیدت وباء کے موسم میں شدید تر ہوتی نظر آرہی ہے۔ ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘ گردانے ’’لبرلز‘‘ کو کورونا کے حوالے سے ’’خوف‘‘ پھیلانے کا مرتکب گردانا جارہا ہے۔ ’’ایمان کی طاقت‘‘ سے اپنے تئیں مالا مال افراد جبکہ اصرار کررہے ہیں کہ کورونا عمومی نزلہ وزکام ہی کی ایک قسم ہے۔اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔اس کے علاوہ سازشی کہانیوں کا انبار بھی ہے۔میں ان کی تفصیلات میں اُلجھ کر اپنا اور آپ کا وقت برباد کرنا نہیں چاہتا۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ وباء کی پھیلائی اداسی کے دنوں میں بھی چسکہ فروشی پر مامور افراد لاک ڈائون کی وجہ سے روزمرہّ زندگی کے تناظر میں اُٹھے بے تحاشہ معاملات کو نظرانداز کررہے ہیں۔گزشتہ اتوار کے روز محض آدھے گھنٹے کے لئے کئی دنوں کے بعد اپنے گھر سے نکلاتھا۔ مقصد نان یا روٹی خریدنا تھا۔نان یا روٹی ڈھونڈتے ہوئے پرنٹ صحافت کے تربیت یافتہ رپورٹر نے مگر آٹے کے بحران کو محسوس کرلیا۔پنجاب حکومت کی جانب سے اب اخبارات میں لوگوں کو آٹے کے ضمن میں تسلی دینے کے لئے اشتہارات دئیے جارہے ہیں۔ایک حوالے سے گویا اعتراف کرلیا گیا ہے کہ گندم اور آٹے کی فراہمی میں مشکلات نمودار ہورہی ہیں۔

گھروں میں نظربند ہوئے افراد کے لئے موبائل فونز بھی بہت زیادہ اہم ہوگئے ہیں۔ان کے Prepaidکارڈزمگر دوکانوں میں میسر نہیں۔نقد رقم دے کر آپ کے فون میں موجود Balanceکو بڑھانے کے لئے ٹیلی کام کمپنیوں کی Franchiseسے رجوع کرنا ہوتا ہے۔موبائل فونز کے کاروبار سے منسلک دوکانیں مگر حکومت کی نظر میں ’’بنیادی یا لازمی‘‘ سہولت شمار نہیں ہوتیں۔لاک ڈائون کی معیاد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو بے شمار افراد اپنے فونز میں Balanceنہ ہونے کی وجہ سے خود کو دُنیا اور اپنے عزیزوں سے کٹا ہوا محسوس کریں گے۔ان کی اداسی شدید تر ہوجائے گی۔یہ اداسی بالآخر غصے میں بد ل سکتی ہے جو لوگوں کو لاک ڈائون کی جارحانہ مزاحمت کی جانب دھکیل سکتی ہے۔

آٹے اور گندم کے علاوہ سنگین ترین بحران پولٹری کی صنعت میں بھی نمایاں ہورہا ہے۔اس کاروبار سے منسلک نسبتاََ چھوٹے درجے کے بیوپاری ان دنوں سخت پریشان ہیں۔ان کی اکثریت ریستورانوں کو مرغ کا گوشت فراہم کرتی تھی۔ملک بھر میں ریستوران مگر ان دنوں بند ہیں۔چکن کی طلب میں لہذا بحران کو چھوتی کمی نمودار ہوئی ہے۔اس وقت چکن کا گوشت بازار میں اس پر ہوئے خرچے سے آدھی قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔مرغ کے گوشت کو توانا بنانے کے لئے جو فیڈ تیار ہوتی ہے سویابین اس کا کلیدی عنصر ہوتا ہے۔سویابین ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوتا۔ہم اسے درآمد کرتے ہیں۔پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر گرنے کے بعد چکن فیڈ کی قیمت میں گرانقدر اضافہ ہوا۔پولٹری کے دھندے سے وابستہ چھوٹے درجے کے بیوپاری ان دنوں اس فیڈ کی قیمت بھی روزانہ فروخت کے ذریعے حاصل نہیں کرپارہے۔ اس کے علاوہ جو اخراجات ہیں انہیں پلے سے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ چکن کی طلب کا یہی عالم رہا تو ہزاروں گھرانے جو اس کاروبار سے منسلک ہیں یقینا دیوالیہ ہوجائیں گے۔ یہ دھندا ٹھپ ہوگیا تو اسے بحال کرنے میں طویل عرصہ درکار ہوگا۔

معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے عمران حکومت جو حکمت عملی اختیار کررہی ہے اس میں پولٹری سے منسلک بحران کا ادراک نظر نہیں آرہا۔معاشی امور کے فیصلہ سازوں کی پوری توجہ صرف اس کاروبار تک محدود ہے جو برآمدات سے متعلق ہے۔مقامی ضرورتوں کے لئے لازمی انڈسٹری پر توجہ نہیں دی جارہی۔

Exit mobile version