Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس : مشکل صورتحال میں کرکٹرز فٹ رہنے میں مصروف

Share

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا اسوقت انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے جس کا اثر ظاہر ہے کرکٹ پر بھی پڑا ہے۔

اس مشکل صورتحال میں پاکستانی کرکٹرز اپنی فٹنس اور ذہنی طور پر خود کو مضبوط رکھنے پر کام کررہے ہیں تاکہ جب بین الاقوامی کرکٹ کی سرگرمیاں بحال ہوں تو وہ اس میں حصہ لینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔

مصباح الحق نے منگل کے روز وڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کرکٹ کے لیے مشکل وقت ہے کھلاڑی گھروں میں ہیں لیکن انہوں نے خود کو فٹنس کے اعتبار سے مصروف رکھا ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کوچنگ سٹاف اور ٹرینر ان تمام کھلاڑیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں پلان بھیجے جارہے ہیں۔ اگرچہ یہ آئیڈیل سچویشن نہیں ہے کہ جس میں جمنازیم یا اکیڈمی میں ٹریننگ کی سہولت موجود ہو لیکن اس کے باوجود تمام کھلاڑی اپنی فٹنس کے بارے میں سنجیدہ ہیں انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو چیلنج دے کر اپنی فٹنس کو بہتر رکھنے کا عمل شروع کررکھا ہے۔‘

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں کھلاڑیوں کے لیے پریکٹس ممکن نہیں ہے لیکن وہ اس وقت کا اس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں کہ اپنا ہوم ورک مکمل کرلیں۔

’پاکستانی ٹیم کی اگلی سیریز انگلینڈ میں ہوگی لہذا کھلاڑیوں کو چاہیے کہ انگلش کنڈیشنز کے بارے میں خود کو باخبر رکھیں اور ایشیز اور انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم کی پچھلی دو سیریز کی وڈیوز دیکھیں تاکہ جب وہ میدان میں اتریں تو ان کی تیاری مکمل ہونی چاہیے۔‘

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کو چاہیے کہ حالات نارمل ہونے کے بعد جب ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ دوبارہ شروع ہو تو اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس کے میچوں کے شیڈول کو دوبارہ ترتیب دیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر ٹیم کو کھیلنے کے یکساں مواقع میسر آئیں کسی کے کم اور کسی کے زیادہ میچز نہ ہوں۔

پاکستانی ٹیم درست سمت میں

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اچھا آغاز لے لیا تھا اور اس کی کارکردگی میں بتدریج بہتری آرہی تھی کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے تسلسل ٹوٹا۔

وہ کہتے ہیں کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جن میں نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی قابل ذکر ہیں۔ بیٹنگ میں بابراعظم نے پریشر کو اچھی طرح ہینڈل کیا۔ شان مسعود اور عابدعلی نے اوپنر کی حیثیت سے اچھی کارکردگی دکھائی ۔وہ ٹیم کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

حفیظ اور شعیب ملک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں

شعیب ملک کے کریئر میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب سنہ 2010 میں آسٹریلوی دورے سے واپسی پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم میں ٹوٹ پھوٹ اور مایوس کن کارکردگی کی تحقیقات کرتے ہوئے کچھ کرکٹرز کو اپنے نشانے پر لیا، ان میں شعیب ملک بھی شامل تھے۔ ان پر ایک سال کی پابندی عائد کی گئی جو بعد میں ختم کردی گئی۔

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ چونکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ابھی کافی وقت ہے لہذا انہوں نے پچھلے چند میچوں میں متعدد کامبی نیشن آزمائے اور نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا لیکن محمد حفیظ اور شعیب ملک کو سری لنکا کے خلاف نہ کھلانے کا مقصد قطعاً یہ نہیں تھا کہ انہیں نظرانداز کردیا گیا ہے یا بورڈ ان کے خلاف تھا۔ یہ دونوں کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پلان کا حصہ ہیں۔ اب ہمارے پاس زیادہ کھلاڑیوں کا پول ہے اور ہم بہتر کامبی نیشن کے ساتھ ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں۔

کرپٹ کھلاڑیوں کے بارے میں قانون سازی

مصباح الحق سے جب محمد حفیظ کے اس ٹوئٹ کے بارے میں پوچھا گیا جو انہوں نے سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ کرکٹر شرجیل خان کی پاکستانی ٹیم میں ممکنہ واپسی کے بارے میں کیا تھا جس پر کرکٹ بورڈ نے ان کی سرزنش بھی کی تو مصباح الحق کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو غور کرنا ہوگا اور اگر اپنے قوانین میں کرپٹ کرکٹرز کی واپسی روکنے کے بارے میں کوئی شق رکھنی ہے تو اس بارے میں کافی سوچ بچار کے بعد فیصلے کی ضرورت ہے۔

مصباح الحق نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ زیادہ تر معاملہ مشکوک پیشکش کی رپورٹ نہ کرنے کا ہے جیسا کہ عمراکمل نے کیا۔ بعض اوقات کھلاڑی اس بات کو سمجھ نہیں پاتے اور بعض اوقات وہ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیتے اور مشکل میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

شرجیل خان کی واپسی

شرجیل خان نے ایک ٹیسٹ، 25 ون ڈے اور 15 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے

مصباح الحق اوپنر شرجیل خان کی فٹنس سے مطمئن نہیں ہیں جو سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی پاداش میں ڈھائی سالہ پابندی ختم ہونے کے بعد پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی طرف سے کھیلے۔

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ جب کرکٹ سے دور ہو تو اپنی فٹنس کے بارے میں وہ کتنا سنجیدہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شرجیل خان جتنا عرصہ کرکٹ سے باہر رہے وہ اپنی فٹنس کو مطلوبہ معیار پر لانے کے لیے محنت کرسکتے تھے۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اگر انہیں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں آنا ہے تو انہیں کچھ خاص کرنا ہے۔ اگر وہ اپنی موجودہ شکل میں واپس آتے ہیں تو یہ دوسرے کرکٹرز کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

’شرجیل خان کو اب دوبارہ وقت ملا ہے کہ وہ وہ اپنی فٹنس پرسنجیدگی سے کام کریں۔‘

Exit mobile version