Site icon DUNYA PAKISTAN

ایک اور آلس سے بھرادن

Share

جی!ہمیں معلوم ہے کہ اہلِ زباں۔۔۔ کو سب سے پہلے اسی لفظ ” آلس”پر اعتراض ہو گااور وہ دردِ قولنج سے کہہ اُٹھیں گے کہ بے وقوف آلس نہیں “آلکس”ہوتا ہے مگر جناب آپ کے ہاں وہ آلکس ہی ہوتا ہو گامگر ہمارا آلس ہمارا آلس ہی ہے۔ویسے بھی ہم اہلِ زباں تھوڑی ہیں ہم تو محلے زباں ہیں۔۔۔اور اس پر شرم ہمیں پھر نہیں آتی۔

تو جناب ہر ایک کی طرح آج کل ہم لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں اور اپنے گھر اپنے وطن میں پائے جاتے ہیں۔یورپ کی سیاحت تو دور کی بات اب یورپ کا خبرنامہ بھی ڈر ڈر کر کھولتے ہیں اور پھر جلدی سے بند کر دیتے ہیں کہ خدا نخواستہ کرونا وائرس ای میل سے منسلک ہو کر نہ آ جائے۔ کہتے ہیں اس مردِ نامعقول کے گرد بھی ایک لفافہ ہوتا ہے مگر اندر سے نامہء دلبر کی بجائے حضرت عزرائیل کا پیغام ہوتا ہے۔اب کھولنے والے پر منحصر ہے کہ جاں بر ہو جائے یا جاں سے رخصت ہو جائے۔

خیر تذکرہ ہم اپنے دن کا کررہے تھے توجناب کوئی ساڑھے بارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی کہ ابھی رات ڈھائی بجے تک ترکش ڈرامے کی کوئی 19قسطیں دیکھ کر سوئے تھے خود سوئے تھے کہ آنکھیں خود بخود شٹ ڈاؤن ہوگئیں تھیں۔۔۔یہ اب یاد نہیں۔بہرحال آنکھ کھلتے ہی اس شیطانی آلے کی طرف ہاتھ گیا جسے موبائل کہتے ہیں۔پیغامات چیک کیے گئے کسی حسینہ ء عالم نے ہمارے لیے کوئی پیغامِ دلبراں نہیں چھوڑا تھا۔ہاں مختلف لوگوں کی طرف سے قسم ِقسمِ کے ڈراؤنے پیغامات آچکے تھے مثلاََ کرونا کا علاج کس جڑی بوٹی سے ممکن ہے،کرونا کس کافر کی شرارت ہے یا کہ فلاں شہر سے کرونا کے مریض فرار ہو گئے اور ابھی تک نہیں ملے۔۔۔شبہ ہے کہ آپ کی طرف ہی کھانستے آ رہے ہیں۔۔۔لہذا اس خود کش حملے میں محفوظ رہیں وغیرہ وغیرہ۔۔اللہ اللہ۔ کیا زمانہ آ گیا ہے؟ پچھلے زمانے میں کوئی بم ہوتے تھے کوئی خود کش جیکٹ ہوتی تھی۔۔۔ اب توحضرت انسان کا منہ شریف ہی مشین گن بن گیا ہے۔منہ کا ایسا خطرناک استعمال کبھی سُنا نہ تھا۔۔اب تو واٹس ایپ پیغامات سے حسب مقدور “یرکنے” کے بعدٹویٹر کا رُخ کیا گیاوہاں بھی قیامت صغریٰ کا منظر تھاکرونا کی علا مات کو دوبارہ پڑھا گیا حتی کہ لگا کہ کچھ کھانسی ہمیں بھی آ رہی ہے۔۔۔دل کو تسلی دی۔۔۔اس قدر کھانسی تو صبح صبح ہر ایک کو آ جاتی ہے۔اپنے قبلہ رانا صاحب کو ہی دیکھیں صبح صبح حلق صاف کرتے ہیں تو گویا پورے محلے کو جگاتے ہیں۔۔۔ہماری کھانسی تو اس اونٹ کے منہ کے آگے زیرہ ہے۔۔اگر رانا صاحب اب تک گرفتار نہیں ہوئے تو ہم کیا چیز ہیں۔

بہر طور ہاتھ منہ دھونے اور ناشتے کے بعد ابھی لان میں بیٹھے چمکیلی دھوپ اور بادِ صبا کو سراہنے میں مصروف تھے کہ خیال آیا کہ ان کاموں کی فہرست بالاخر ہمیں بنا لینی چاہیے جو میں ان تعطیلات میں کرنے ہیں اور جن کی مدد سے اپنی زندگی میں ہم بس انقلاب لایا ہی چاہتے ہیں۔ابھی دھوپ سینکتے ہوئے انہی خیالات میں غلطاں تھے کہ اکاؤنٹینٹ حاضر صاحب کے آنے کی خبر ملی۔ فوراََ ہم الرٹ ہو گئے جیسے کوئی دشمن آیا ہو۔۔۔ملازم فرزند کو ہدایت کی اس سے 4میٹر دور رہے اور چائے پوچھنے کی تو بالکل ضرورت نہیں۔۔۔حاضر کو حکم کیا گیا کہ وہ لان میں کوئی3میٹر دور بیٹھے اور بہتر ہے منہ موڑ کر بیٹھے جیسے پرانی فلموں میں ہیرو منہ موڑ لیا کرتے تھے۔اور وہیں سے بتائے کہ کون سا چیک کیوں بنایا گیا ہے؟ حاضر حسین ایک پنسل بھی ساتھ لایا تھا جسے فورا دشمن کا میزائل سمجھا گیااور اپنی پنسل سے ہی چار پانچ دستخط فرمائے یہ اور بات ہے کہ دستخط کرتے وقت پچھتاتے رہے کہ آخر کیا ضرورت ہے اس قدر ہائی رسک کام کرنے کی۔۔۔کیا پتہ کروناوائرس ان کاغذ کے ٹکڑوں پر موجود ہو۔۔۔دستخط کرتے ہی ذاتی باڈی گارڈ یعنی سینٹی ٹائزر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ہاتھوں کو صاف کرتے کرتے میز کا کچھ حصہ بھی صاف کر دیاپھر خیال آیا کہ وائرس” اگروادی” بن کر میز کے باقی حصوں کی طرف نہ فرار ہو گیا ہو؟ یہ خیال آتے ہی میز بھی صاف کر ڈالی کہ تاکہ اس نامعقول کا مکو ٹھپ دیا جائے۔یہ دو چار”جھریٹے “مارنے کے بعد احساس ہواکہ آج تو بہت کا م کر لیا۔بہتر ہے کہ آرام کر لیاجائے آخر سائنس دان بھی تو یہی تلقین کر رہے ہیں۔وٹامن ڈی تو ہم دھوپ میں بنا ہی چکے تھے یہ اور بات ہے کہ اس چکر میں “لال ولال”ہو چکے تھے۔

دوبارہ جب آنکھ کھلی تو سہ پہر اور شام کے درمیان کا وقت تھاسوچا کہ دوست و احباب سفر نامہ لکھنے کی تحریک دیا کرتے ہیں۔ چلو ایک شاندار سفر نامہ ہی لکھ ماراجائے۔ کام تو یہ بہت آسا ن تھا کہ سفر نامہ میں جھوٹ بولنے کی لامحدود آزادی ہوا کرتی ہے۔۔۔مثلاََ آپ جہاز کی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور ساتھ بیٹھی ہوئی ہوش ربا گوری آپ کے کندھے پر سر رکھ کر سو سکتی ہے۔مثلا آپ شا م کو کلب گئے اور سب سے خوبصورت حسینہ جو کمال کی رقص باز ہے آپ کو دیکھتے ہی فریفتہ ہو گئی۔اور آپ کے ساتھ ہی رات گذانے پر بضد ہو گئی۔اب آگے آپ پر ہے کہ آپ فرید پراچہ صاحب والا نیک پاک معصوم سفر نامہ لکھنا چاہتے ہیں (افسوس کے ساتھ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اس صورت میں آپ کو یہ پیشکش غیرتِ ایمانی کے ساتھ ٹھکرانی ہو گی)یا مشہور سفرنامہ نگاروں کی طرح مزے مزے سےFantaciesبیچنا چاہتے ہیں ہرقسم کا آڈینیس الحمدللہ موجود ہے۔اسی اثنا ء میں ایک شاندار آئیڈیا سوجھا کہ کیوں ایک ڈرامہ لکھا جائے اور اس کا نام”میرے پاس تم نہیں ہو”رکھا جائے۔۔۔یا میرے پاس میں ہی نہیں ہوں۔پھر یا د آیا ایک بار جناب علی قاسمی صاحب کو ہم نے اپنی مجوزہ فلمی کہانی سنائی تھی ہم نے کہا تھا کہ ہیرو پاکستانی اورتُرکش ہیروئن ہے۔ہیرواستنبول جاتا ہے تو اسے وہاں ہیروئن مل جاتی ہے۔حضرت قاسمی صاحب نے پوچھا “پھر آگے کیا ہوتا ہے” ہم نے کہا بس یہی کہانی ہے پھر آگے کچھ موڑ آئیں گے جو فی الحال ہم نے نہیں سوچے۔ کہنے لگے کہ قبلہ یہ تو دو کردار اور ایک لوکیشن ہے۔آپ کا پلاٹ کہاں ہے؟تو ہم نے جواب دیا کہ پلاٹ لینے کے تو ابھی ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اورڈی ایچ اے والو ں کا تو ویسے بھی مہنگا ہوتا ہے پھر معلوم نہیں کیوں وہ ہنستے چلے گئے اور ہنستے ہی چلے گئے حتی کہ جناب کی لمبی داڑھی بھی تو خوب قہقہے لگا رہی تھی۔

اتنے میں خیال آیا کہ اچھا لٹریچر لکھنے کے لئے اچھا پڑھنا بھی ضروری ہے لہذا بہتر ہے کہ ان پڑھی کتابوں کی فہرست بنائی جائے۔ کتابوں کا جائزہ لیا گیا تو یہ جان کر ازحد مسرت ہوئی کہ اکثر ابھی تک پلاسٹک کے جامے میں بند تھیں اور کسی نے انہیں اپنے ہاتھوں سے آلودہ نہیں کیا تھا۔پطرس بخاری صاحب کا مضمون “ہاسٹل میں پڑھنا”یادا ٓیا اور سنت پر عمل کرتے ہوئے کتابوں کو ویسے ہی واپس رکھ دیا گیا۔یہودیوں کی سازشNETFLIXکو آن کیا گیا کمبخت سیدھا وہاں لے گیا جہاں ڈرامہ دیکھنا چھوڑا تھا۔دو چار قسطیں دیکھیں کہ ضمیر صاحب جھنجھوڑنے لگے۔۔۔آج کا دن بھی بے کار و ناکام گذر رہا ہے تم نکمے ہو چکے ہو۔۔۔لہذا ہم نے اسے سبق سکھانے کے لئے دو چار قسطیں اور دیکھنے کا تہیہ کر ڈالا۔

ڈرامہ دیکھتے دیکھتے ہی رات کے کھانے سے انصاف کیا گیا نہاری کی آخری پلیٹ یوں کھا لی گئی کہ پلیٹ کو دوبارہ صاف کرنے کی ضررورت باقی نہ رہی تھی۔۔۔پانچ سات سماعت شکن ڈکار مارے گئے ممکن تھا کہ اور ڈکار مارتے مگر بچوں کو ہنستا ہوا دیکھ کریہ ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔۔۔پھر میٹھی ڈش کی باری آئی۔۔یوں ہی سرسری سا خیا ل آیا۔۔پہلے ہی توند نکلی ہوئی ہے۔۔۔آج بھی سیر کرنے نہیں گئے۔۔ورزش کے تو الحمدللہ ہم کبھی قائل ہی نہیں رہے۔ضمیر کو تسلی دی کہ کل ضرور سیر کرنے جائیں گے اور آج کی کسر بھی پوری کر ڈالیں گے۔ دوبارہ جب حواس بحال ہوئے تو دن کے ایک بج چکے تھے دانت برش کرتے ہوئے آئینے پر نظر گئی تو کسی مفلوک الحال قیدی کا چہرہ نظر آیاشیو بڑی ہوئی تھی بال نیپال کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔یقین نہیں آیا کہ اہم اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں کہ اپنے وطن کا؟ کیونکہ اتنا بُرا چہرہ ہمارا تو نہیں ہو سکتا۔۔یہی وقت تھا کہ ہم نے تہیہ کیا کہ کل سے ہم ہر چیز درست کر دیں گے۔دل کو تسلی دی قصور ہمارا نہیں حالات ہی اتنے خراب ہیں۔اس وبا ء کے زمانے میں زندہ بچ جانا ہی بہت بڑا کام ہے۔۔۔جو ہم کامیابی سے کیے جاتے ہیں۔اب ہم سے مزید کسی کام کی امید نا انصافی ہو گی۔حالا ت کی خرابی کا جواز پکا کرنے کیلئے پنجابی نظم نکالی اور پڑھنے لگے جو ہمیں واٹس آپ پر موصول ہوئی تھی اور جس کے شاعر نامعلو م ہیں۔۔۔مگر ہمیں براہ راست فون کر کے کافی وا ہ واہ کے ساتھ ایک عدد ماسک بھی وصول کر سکتے ہیں۔

اوہ وی خوب دیہاڑے سن
کھنگ آؤندی سی کھنگ لیندے ساں
نچھ آؤندی سی نچھ لیندے ساں
اپنے سجن متراں تائیں
گل نال لگ کے مل لیندے ساں
پھر منحوس کرونا آیا
مونہہ تے چھِکّو جہے چڑھا کے
اندرو اندری وڑ بیٹھے آں
دل وچ لَے کے ڈر بیٹھے آں

ایہ وی خوب دیہاڑے ہے نیں
کھنگ آؤندی اے کھنگ نئیں سکدے
نچھ آؤندی اے نچھ نئیں سکدے
اندر رہیے ساہ پئے گھُٹّن
باہر جائیے پُلساں کُٹّن

سخت تناواں وَڈھ نئیں سکدے
ہور تراہ وی کڈھ نئیں سکدے

Exit mobile version