اِن دنوں کسی نئے مصنف کیلئے اپنی پہلی کتاب کی اشاعت شادی کی رسومات جتنی مہنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ کتاب کا مسودہ جس کی نظر سے بھی گزرتا ہے، وہ اَش اَش کر اٹھتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر نوبیل پرائز کے منصفین نے ڈنڈی نہ ماری تو اس سال یہ ایوارڈ اس کتاب کے مصنف کو ملے گا۔ ان اَش اَش کرنے والوں میں مصنف کے والد، والدہ، بہنیں اور بھائی شامل ہوتے ہیں جنہوں نے اسکول اور کالج کے زمانے میں اپنی درسی کتابیں بھی کڑوی گولی کی طرح نگلی ہوتی ہیں، چنانچہ اس ہلہ شیری کے نتیجے میں مصنف کسی پبلشر کے پاس جاتا ہے اور بڑے طنطنے سے مسودہ اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہتا ہے، میں آپ کیلئے یہ تحفہ لیکر آیا ہوں، قبول فرمائیں، پبلشر مسودہ پر نظر ڈالتا ہے، دو چار ورق الٹتا پلٹتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ آپ یہ سب کچھ چھپوانا چاہتے ہیں؟ مصنف قدرے ناراضی سے کہتا ہے ’’تو کیا میں آپ سے اس پر دم کروانے کیلئے لایا ہوں‘‘ پبلشر خوش دلی سے مسکرا کہ کہتا ہے مسودہ کتابی صورت میں تین ماہ کے اندر آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ مصنف اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے بڑی تمکنت سے پوچھتا ہے ’’ٹھیک ہے، مگر پہلے رائلٹی طے کر لیں‘‘۔ پبلشر اسے بتاتا ہے ’’ہم آپ سے بازار کی نسبت بہت کم یعنی سوا لاکھ روپے وصول کریں گے، پانچ سو کتابیں شائع ہوں گی، ان میں سے پچاس کتابیں آپ کو بطور رائلٹی دی جائیں گی‘‘۔
اب اصل موضوع شیرازی صاحب کی طرف آتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ پاکستان میں دو شخصیتیں ایسی ہیں جن کے ادب آداب اور تکلفات وکٹورین دور کے مہذب انگریزوں جیسے ہیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر ایوب بلوچ ہیں جو کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ اُن کا لباس، اُٹھنا بیٹھنا، ملنا ملانا اس قدر ادب آداب اور تکلفات کا امین ہوتا ہے کہ مخاطب اس درجہ عزت سے دل میں شرمسار ہونے لگتا ہے۔ دوسرے اپنے حسین شیرازی، مجھے نہیں علم کہ شیراز میں ان جیسے لوگ پائے جاتے ہیں جو نسل در نسل حسین شیرازی ہی کی طرح ہر وقت سوٹ اور ٹائی میں ملبوس دکھائی دیتے ہوں اور ٹائم کے اتنے پابند کہ اگر انہوں نے کسی دوست کی طرف دو بجے آنا طے کیا تھا تو ٹھیک دو بجے دروازہ کھلے گا اور شیرازی صاحب اپنی ہمہ وقت خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ آپ کے ساتھ ہوں گے۔ جب کسی کی طرف جاتے ہیں تو خالی ہاتھ نہیں جاتے، حسین شیرازی کسٹم کے محکمے میں ایک بڑے عہدے پر فائز رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن اچانک انہیں جانے کیا سوجھی کہ ایک کتاب لکھنے بیٹھ گئے اور چھ سات سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا نام انہوں نے ’’بابو نگری‘‘ رکھا۔ یہ مسودہ لیکر سنگِ میل کے افضال (خوش اطوار) کے پاس پہنچے جو نیاز احمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور جنہوں نے سنگِ میل کو ایک اعلیٰ درجے کے برانڈ کی شکل دے رکھی ہے۔ اپنے مرحوم والد کی طرح افضال بھی کتابوں کا جوہری ہے، اس نے مسودہ رکھ لیا اور چند دن بعد مطلع کیا کہ جناب ہم آپ کی یہ عمدہ کتاب شائع کر رہے ہیں اور اس کی اتنی رائلٹی باقاعدہ ادا کریں گے، یہ کتاب ہٹ ہوئی اور اس کے تین ایڈیشن بہت کم مدت میں شائع ہو چکے ہیں۔بس اس کے بعد تو حسین شیرازی کے سارے ’’جھاکے‘‘ اُتر گئے اور وہ اپنی دوسری کتاب ’’دعوتِ شیراز‘‘ کے ساتھ میدانِ ادب میں پوری آن بان کے ساتھ آ کودے۔ اب دو دنوں سے میں دعوتِ شیراز کے ساتھ ہوں۔ ہر صفحے پر دلچسپ واقعات، ایک سے بڑھ کر ایک کردار سے جگہ جگہ ملاقات ہوتی ہے اور اس کی مضحکہ منظر کشی دامنِ دل کھینچ کھینچ لیتی ہے۔ اور ہاں! مجھے یہ کہنے دیں کہ شیرازی صاحب کو کردار نگاری پر ملکہ حاصل ہے اور مجھے لگتا ہے یہ حقیقی کردار ہیں جو شیرازی کے دوست ہیں یا ان کے کولیگ اور شیرازی صاحب انہیں نمک مرچ لگا کر دعوتِ شیراز کو زیادہ لذیذ بنا دیتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ شیرازی صاحب اردو شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے ہیں، انہیں بلامبالغہ ہزاروں شعر یاد ہیں جن کے برمحل استعمال سے بھی وہ پوری طرح واقف ہیں۔ میں نے ’’دعوتِ شیراز‘‘ کے فلیپ میں ایک جملہ لکھا ہے کہ حسین شیرازی کی تحریر آپ کو قہقہہ تو دیتی ہے مگر بہت کم۔ البتہ چہرے کی مسکراہٹ اور سوچ کی لہروں میں کمی نہیں آنے دیتی۔ مثلاً اپنے ایک کردار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ پاگل خانے کے دفترمعلومات کیلئے گئے اور کہا کہ کیا یہاں کسی شخص کو اپنی تشخیص پر بھی داخلہ مل سکتا ہے۔ اس سوال کا پسِ منظر پوچھے جانے پر بولے کہ آج میں نے اپنے پرانے محبت نامے دیکھے ہیں جو جوانی میں تحریر کیے گئے تھے، تاخیر کی معذرت، مجھے یہاں داخل کر لیجئے۔ شیرازی صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ شکوری صاحب (ان کے ایک کردار) کیلئے شادی ایک مارشل آرٹ ہے اور ان کے چہرے پر مختلف نشانات اسی آرٹ کا نتیجہ ہیں۔
’’دعوتِ شیراز‘‘ کی تقریب رونمائی طے ہو گئی تھی، ’’دُلہا میاں‘‘ نے باراتیوں کو شرکت کی دعوت بھی دے ڈالی تھی، مگر کورونا ادب دشمن بھی ثابت ہوا، چنانچہ تقریب کا دفتر لپیٹ دیا گیا۔ اب کورونا کے خاتمے کا اگر سب سے زیادہ کسی کو انتظار ہے تو وہ حسین شیرازی صاحب ہیں۔ اللہ ان کے دل کی مرادیں جلد بر لائے، سب مل کر کہیں آمین!