حاجی بینا صاحب میرے محلے دار اور قریبی دوست ہیں۔ حاجی صاحب نے انتہائی نفیس اور بے حد محتاط شخصیت پائی ہے۔ یہ کرونا وائریس منحوس تو ابھی آیا ہے حاجی صاحب نے اس کی تیاری پچھلے کوئی بیس سال سے کر رکھی ہے۔ یہ مصافحہ معانقہ سے پرہیز، لوگوں سے دو چار گز کے فاصلے پر ملاقات کرنا، اور سارا دن ہاتھ دھوتے رہنا۔۔۔ جو بھی احتیاطیں آجکل بتائی جا رہی ہیں یہ سب تو قبلہ حاجی صاحب بچپن سے کرتے آ رہے ہیں۔آجکل جو پرہیز اور احتیاطیں بڑے تردّد اور اہتمام سے کی جارہی ہیں وہ حاجی صاحب کے لیے ایک روٹین ہیں۔ حاجی صاحب کی حد درجہ نفاست اور ا حتیاط کو دیکھ کر لوگ اُن پر ہنسا کرتے تھے۔ آجکل جب سبھی لوگ یہی کچھ کر رہے ہیں اور بے طرح کر رہے ہیں تو حاجی صاحب اُن پر ہنستے ہیں۔ لیکن آپ اندازہ لگائیں کہ جو انسان عام حالات میں ایک انتہائی محتاط زندگی گزار رہا ہو وہ موجودہ حالات میں کیسے Behave کر رہا ہو گا۔ چنانچہ آجکل حاجی صاحب کی احتیاط اور اہتمام نفاست اپنی تمام حدیں عبور کر گیا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ چین میں جب کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا تو حاجی صاحب نے ماسک پہن لیا اور تادمِ تحریر انہوں نے ماسک پہن رکھا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا تو حاجی صاحب نے تمام اندرونی بیرونی ملازموں کی چھٹی کروا دی اور انہیں گھر آنے سے سختی سے منع کر دیا۔اس حوالے سے گھر والوں کا خیال تھا کہ اتنے ملازموں کو چھٹی کروانے کی بجائے اگر خود قبلہ حاجی صاحب ہی کہیں باہر شفٹ ہو جائیں تو کرونا کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں لیکن اس خواہش کا اظہار بوجوہ نہیں کیا جاسکا۔ بیگم کے شدید اصرار پر صرف ایک لڑکی کو گھر میں صفائی وغیرہ کے لیے رہنے دیا گیا ہے اور اسے گھر سے باہر جانے کے لیے سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔حاجی صاحب تو اس بچی کو بھی رکھنے کے سخت مخالف تھے لیکن دوسری طرف بیگم نے کہہ دیا کہ اگر اس بچی کو بھیجا گیا تو وہ خود بھی اس گھر میں نہیں رہیں گی۔ اگرچہ حاجی صاحب کو اس ”آپشن“ پر بھی کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن جب باقی گھر والوں نے اس معاملے میں بھی حسبِ معمول بیگم صاحبہ کی کھلی حمایت کی تو حاجی صاحب کو مجبوراً ماننا پڑا۔ اب وہ اس بچی سے مسلسل بچتے پھرتے ہیں اور اسے دیکھ کر اُن کی حالت ویسی ہوتی ہے جیسے سزائے موت کے قیدی کی جلاد کو دیکھ کر ہوتی ہے۔
حاجی صاحب نے اپنے گھر میں ایک ”کرونا روم“ بنایا ہوا ہے۔اس کمرے میں کرونا کے خلاف جنگ کے لیے تقریباً تمام سامان موجود رکھنے کی کمال کوشش کی گئی ہے۔ ان کی حد درجہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ وقت اس کمرے میں ہی گزاریں اور اُن کی اس کوشش میں گھر والوں کی خواہش بھی شامل ہے۔ اُن کا اس الگ کمرے میں رہنا بیک وقت اُن کے لیے اور گھر والوں کے لیے احساسِ تحفظ کا باعث ہے۔ کمرے میں سپرٹ ، ڈیٹول، ماسک، دستانوں، سینیٹائزر اور وٹامن سی وغیرہ کا اچھا خاصا سٹاک موجود تھا۔ دکانداروں کی ذخیرہ اندوزی کا تو پتہ نہیں لیکن اگر اس ضمن میں کسی گاہک پر گرفت ہو سکتی ہے تو حاجی صاحب اس حوالے سے سرِ فہرست ہو ں گے۔
اگر کسی نے حفظانِ صحت کے اُصولوں کی روح کو سمجھنا ہو تو اسے حاجی صاحب کے پاس بیٹھنا چاہیئے۔ اس حوالے سے حاجی صاحب ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں وہ جس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں وہ ہاتھ دھونا ہے۔کرونا وائریس سے پہلے بھی حاجی صاحب کا معمول تھا کہ یہ کوئی دو اڈھائی سو مرتبہ روزانہ ہاتھ دھوتے تھے۔اب جب سے یہ وباء آئی ہے تو یہ تعداد ڈھائی تین ہزار روزانہ تک پہنچ گئی ہے آجکل ان کی بڑی مصروفیت ہاتھ دھونا ہی ہے۔ ان کے قریب رہنے والے بتاتے ہیں کہ کئی دفعہ یہ ہاتھ دھونے کے بعد سب سے پہلا جو کام کرتے ہیں وہ یہ کہ دوبارہ ہاتھ دھونے جارہے ہیں۔اس قدر بار بار ہاتھ دھونے پر تو بعض اوقات لگتا ہے کہ کہیں یہ اپنے ہاتھوں سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ان دنوں گھر کا سب سے زیادہ خرچ صابن خریدنے پر ہو رہا ہے۔ایک بات کی بالکل سمجھ نہیں آتی کہ ہاتھوں کی اس قدر صفائی وغیرہ کے باوجود وہ کسی کام کے لیے ان ہاتھوں کا استعمال نہیں کرتے۔ آجکل انہوں نے جو بھی کرنا ہوتا ہے اس کے لیے اپنی کہنیوں، گھٹنوں اور غصّے سے کام لیتے ہیں۔ کہنیوں، لاتوں اور گھٹنوں کے استعمال میں یہ اس قدر مشّاق ہو گئے ہیں کہ یہ اپنی چوبیس گھنٹے کی زندگی کے معمولات کو بڑی آسانی سے سنبھال لیتے ہیں ۔یعنی ان حالات میں اُن کے ہاتھ تقریباً اضافی ہوکر رہ گئے ہیں۔اس حوالے سے ہاتھوں کی اتنی دھلائی سمجھ سے ماورا ہے۔
حاجی صاحب موبائل فون کا استعمال بھی بڑے عجیب اور خوفناک انداز میں کرتے ہیں۔کال کرتے ہوئے وہ ماسک اور گلوز کا اہتمام ضروری سمجھتے ہیں۔انہیں کئی دفعہ بتایا گیاہے کہ کال کے دوران وائریس کے منتقل ہونے کا چانس تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن اُن کی تسلی نہیں ہوتی۔چنانچہ وہ ہر کال کے بعد موبائل فون کو سینیٹائزر کے چھوٹے ٹب میں پھینکنے کے بعد خود نہانے چلے جاتے ہیں۔موجودہ حالات میں وہ کال کرنے یا سننے سے عموماً گریز کرتے ہیں لیکن اگر مجبوراً کرنی پڑے تو بے حد احتیاط کے ساتھ۔گاؤں میں سیدو ان کا پرانا ملازم اور مضارع ہے۔ اس سے کبھی کبھار فون پر مختصر سی بات کرتے ہیں۔آج صبح اسے کچھ انتہائی ضروری اور ناگزیر ہدایات دینے کے لیے فون کیا۔ کال سے پہلے انہوں نے حسبِ معمول ماسک پہنا، گلوز چڑھائے اور فون کو ٹشو پیپرسے پکڑ کر کال ملائی۔ حاجی صاحب کے حفظانِ صحت کے معیار کو پہنچنے کی سکت تو بڑے بڑوں میں نہیں اور سیدو جیسا گنوار دیہاتی تو اس معیار کی ہوا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔اس حوالے سے وہ بے چارا تو ان سے کوئی 180 ڈگری پر دوسری طرف کھڑا ہے۔ اب ہوا یہ کہ اس سے ایک سنگین اور انتہائی بھیانک غلطی ہوگئی اور وہ یہ کہ اُس نے دورانِ کال چھینک مار دی۔ زوردار چھینک کی آواز سُن کر حاجی صاحب پر موت کا سکتہ طاری ہو گیا۔ انہیں لگا کہ ان کا پورا وجود Droplets میں نہا گیا ہے اور انہیں اپنا سارا قرنطینہ ہوا میں اُڑتا محسوس ہوا۔۔ انہوں نے فون دور پھینکا اور نیم بے ہوش ہو کر نیچے گر پڑے۔ رات گئے جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے سیدو کے قتل کی پوری پلاننگ کر لی۔ لیکن اس ”معمولی“ سے کام میں ایک بڑی رکاوٹ یہ آ رہی تھی کہ گاؤں میں یہ کام کسی کو سونپنے کے لیے بہر طور اُسے کال کرنی پڑے گی۔