جب انسان کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو ہم اور آپ اسے ایک آزمائش یا اسے اس کے گناہ کا سبب بتاتے ہیں۔ بچپن سے میں نے یہ بات اپنے گھر یا محلّے میں لوگوں سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب کسی کی بیماری تشخیص نہیں ہو پاتی یا کسی کی موت ایک معمہ بن جاتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہمارا معاشرہ اس کی خامی، اس کا گناہ یا اللہ کے عذاب سے جوڑ دیتا ہے۔ لوگ سچائی کو جاننا نہیں چاہتے اور سماج میں انہیں کافی حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ یوں بھی ہمارا معاشرہ سنی سنائی باتوں پر کافی یقین رکھتا ہے۔ آئے دن لوگوں کی زبانی ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں، جس سے ایک ذی شعور انسان کا جینا دو بھر ہوجائے۔ اور اگر بات حاجی ببن خان نے کہی ہو تو پھر کیا کہنے،وہ تو سچ ہوگا ہی کیونکہ حاجی صاحب جھوٹ کیسے بول سکتے ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے کا عقیدہ اندھاہے جس سے ہم اور آپ انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم روایتی باتوں اور خاندانی اصولوں پراس قدر فخر کرتے ہیں گویا ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اورجس کی وجہ سے ہماری آنکھوں کے سامنے ایسا اندھیرا چھا جاتا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز مٹ جاتی ہے، ہم دیکھنے کے بجائے صرف سننا شروع کر دیتے ہیں اور سن کر دماغ کے دروازے ایسے بند کرتے ہیں کہ ہر سنی سنائی باتوں پر یقین اور عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ایسا ہی آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا دو قسم کے لوگوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طبقہ اپنی سائنسی اور تہذیبی وقار کی بنا پر اس میں لگا ہوا ہے کہ کیسے اس مرض کو مزید پھیلنے سے روکا جائے تو وہیں دوسرا طبقہ مذہبی عقیدے اور الجھن میں اس بیماری کو اللہ کا قہر بتا رہا ہے۔ میں اس سے بہت حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں کہ کورونا وائرس کا قہر کوئی معمولی نہیں ہے۔ اور دنیا کا نظام جس طرح سے درہم برہم ہوا ہے اس سے تو اس پر یقین کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہورہی کہ ایسا ہونا واقعی اللہ کا قہر ہے کہ کورونا وائرس ایسی بیماری میں مبتلا کر دے رہا ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے اور اس بیماری کی وجہ سے انسان فوری طور پر موت کی آغوش میں چلا جا رہا ہے۔اب تو کورونا وائرس کے اثرات نے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ کوئی بیماری ہے یا واقعی اللہ کا قہر ہے۔
اگر آپ تاریخ عالم کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چل جائے گا کہ اس سے قبل قوموں کے زوال کاایک ہی سبب تھا یعنی اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجانا اور اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلانا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو اچانک ہلاک نہیں کیا بلکہ ان کے پاس اپنے بندوں کو بھیجا تاکہ وہ اُس قوم کی اصلاح کر سکیں اور انہیں نصیحت کر سکیں۔ لیکن جب لوگوں نے اُن کی نصیحت کو ٹھکرایا اور اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے لگے تو اللہ نے قومِ نوح، قومِ لوط، قومِ عاد، قوم سبا، اور قوم شعیب کو مختلف طریقوں سے ہلاک کیا۔ جن قوموں نے من مانی کی ان پہ عذاب آکے رہا اور اسے ہلاک ہونے سے کوئی نہیں بچا سکالیکن ایک قومِ یونس تھی جنہوں نے عذاب کے آثار کو دیکھ کر کثرت سے توبہ استغفار کی اور اللہ نے ان پر آنے والے عذاب کو ٹال دیا۔
’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا‘۔(الا نفطار:6) قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس کا علم ہوتا ہے کہ اللہ نے اس سے قبل بھی کئی قوموں کو سزا دی ہے اور تباہ و برباد بھی کیا ہے۔اللہ جب انسانوں کی نافرمانیوں پر نظر کرتا ہے، جب انسان زندگی کے شعبے میں ظلم و زیادتی کرتاہے، جب انسان اللہ کے حرام کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے، جب انسان اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے، جب انسان اپنی بد کرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے، جب انسان معاشرے کے غریب اور کمزور وں کا مال ہڑپ کرکے اسے اذیت پہنچاتا ہے، جب ایمان کی قدریں کمزوراور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں اور جب عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے، تو اللہ کا غضب قدرتی آفات اور وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔اس روشنی میں موجودہ کورونا وائرس کا پوری دنیا میں پھیلنا اللہ کی ناراضگی کی ایک سچّی مثال معلوم ہوتی ہے۔ورنہ کل تک خود سُپرپاور کہنے والے، پوری دنیا پر حکومت کرنے والے ممالک آج بے بس ہو کر گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ سبھوں کو اپنی جان بچانے کی فکر ہے اور لوگوں میں عجیب سی اضطرابی کیفیت پائی جارہی ہے، پوری دنیا میں نفسی نفسی کا عالم ہے۔
’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تا کہ تم(ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘۔ (النور:31) اللہ رحیم اور کریم ہے اور اس نے توبہ کا دروازہ سب کے لیے ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔ اس آیت کریمہ نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ کے غضب اور عذاب سے بچنے کا واحد طریقہ توبہ استغفار ہے۔ جسے ہم اور آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اللہ سے جتنی جلدی توبہ اور استغفارکرتے ہیں اتنی ہی جلدی ہم دوبارہ گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کوئی جھجھک نہیں کہ آج مسلمان کی پستی اور ذلالت کی ایک وجہ ہماری منافقت اور ریا کاری بھی ہے۔ ہماری نجی زندگی سے لے کر کاروبار، نوکری اور دیگر کاموں میں ہمارے اندر ذرہ بھر بھی ایماندری نہیں ہے۔ ہم زندگی بھر جھوٹ اور دغا سے کام لیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ حج کی ادائیگی سے اللہ ہمارے سارے گناہ معاف کر دے گا۔جو کہ خود سے ایک بہت بڑا فریب ہے۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو صرف عبادت پر قائم نہیں ہے۔ اسلام نے عبادت کو انسان کی زندگی سے ایسے منسلک کیاہے کہ انسان برائی، جھوٹ، مکاری، ظلم، بدکرداری، بے حیائی، وغیرہ سے محفوظ رہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم عبادت کرکے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فر ما دے گا اور پھردوسرے لمحے ہی ہم دنیا کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جس کا احساس ہمیں قدرتی آفات اور وبائی امراض میں مبتلا ہونے کے بعد ہوتا ہے اور پھر ہم اللہ کو شدت سے یاد کرنے لگتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی کے لیے ان کے حضور گڑگڑاتے ہیں۔
1960میں پہلی بار کورونا وائرس کا علم ہوا پھر اس کے بعد کورونا وائرس گروپ کا علم وقفے وقفے سے پوری دنیا کو ہوا۔ اسی کورونا گروپ کے کووِیڈ 19 کی شروعات جنوری 2020 میں چین سے ہوئی۔ہزاروں انسانوں کی جانیں چلی گئیں اور دنیا کے ماہرین، سائنس داں اور سوپر پاور بے بس نظر آرہے ہیں اور انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔دنیا کے بڑے بڑے لیڈر جنہیں اپنی طاقت پر بڑا ناز تھا اور جن کی باتوں سیدنیا کے بیشتر ممالک کو خوف اور دہشت ہوتی تھی وہ آج کورونا کے خوف سے اپنے گھر کے کسی کمرے میں بند ہوگئے ہیں۔گویا ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر ہے۔وہیں کورونا وائرس ایک سازش بھی بتائی جارہی ہے۔ ممکن ہے جس طرح سے کورونا وائرس کی شروعات چین سے ہوئی اور اب یورپ اور امریکہ اس کی زدمیں آگئے ہیں اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور جسے دوبارہ اپنی پہلی سی صورت اختیارکرنے میں ایک عرصہ لگ سکتا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں ہمیں اللہ پر پورا یقین اور ایمان رکھنا چاہیے۔ ممکن ہے اللہ ہمارا امتحان لے رہا ہو۔ اس خوف زدہ ماحول میں ہمیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں اپنے گھروں اور محلّوں میں ان لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے جو ضعیف اور بے سہارا ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے طور پر ہر ممکن لوگوں کو امداد پہنچانی چاہیے۔ ہمیں طبی امداد پہنچانے والے تمام لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کی عزت اوران کا احترام کرنا چاہیے۔گھبراہٹ اور الجھن سے گریز کرنا چاہیے۔ہمیں کھانے پینے کی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اسلام میں ہر سال روزہ رکھنا ایک اہم فریضہ ہے۔ ایسے موقع پر اگرہم ایک وقت کم کھائیں گے تو اس سے ہمارے ایمان کی مضبوطی کا ثبوت ملے گا۔ تاہم ہمیں کچھ اناج بھی آنے والے دنوں کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے۔ معذور وں اور ضعیفوں کا ہمیں خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ سماج میں ان کی دیکھ بھال کرنا ہم سب کا اولین فرض ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے ہمیشہ پریشانیوں اور مصیبتوں میں اللہ سے دعا مانگی، جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ موجودہ وقت میں ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ سے دعا مانگنی چاہیے۔ حضرت محمد ﷺ جب مریض کے پاس عیادت کے لیے جاتے تو اس کے سرہانے بیٹھتے اور سات بار یہ دعا پڑھتے۔ (میں، عظمت والے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے، سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا دے)۔
آج کو رونا وائرس کے قہر سے دنیا کا بیشتر انسان متاثر ہے۔ کسی کی روزی روٹی تو کسی کاجانی و مالی نقصان ہورہاہے۔ پوری دنیا میں افراتفری کا ماحول ہے اورہم اپنے گھروں میں بند ہونے کے لیے بے بس ہو چکے ہیں۔پھر بھی ہمیں اللہ پر پورا بھروسہ ہے۔ کیونکہ اللہ ہی اس مرض سے ہمیں محفوظ رکھ سکتا ہے۔میری اللہ سے دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں معاف کر دے اور ہمارے توبہ کو قبول فرما کرہم سب کو اس وبا ئی مرض سے بچا لے۔ آمین۔