در پیش چیلنجز
26 اور27نومبر کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے کے قریب مفتی کفایت اللہ اسلام آباد سے اپنی گاڑی پر واپس اپنے آبائی شہر مانسہرہ داخل ہوئے ہی تھے کہ انہیں چار مختلف گاڑیوں نے گھیر لیا۔
ان گاڑیوں سے کچھ نامعلوم مسلح افراد برآمد ہوئے اور مفتی کفایت اللہ سمیت ان کی گاڑی میں موجود ان کے بیٹوں شبیر مفتی، حسین مفتی اور قریبی دوست جان محمد کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
مفتی کفایت اللہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما، سابق رکن صوبائی اسمبلی اور کچھ عرصہ سے مختلف ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کی زینت بننے والی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ حملہ آور تشدد کے دوران مفتی صاحب کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے باہر کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
اس دوران ان کے بائیں بازو پر راڈ بھی برسائے جاتے رہے۔کنگ عبداللہ اسپتال مانسہرہ کے آرتھو پیڈک وارڈ کے بستر پر بیٹھے مفتی کفایت اللہ بتارہے تھے کہ حملہ آوروں نے ان کے بائیں بازو پر اکیاون وار کیے۔ ’’وہ وار کیے جارہے تھے اور میں گن رہا تھا، حملے کے دوران ایک حملہ آور ہٹا تو دوسرا آگیا اور اس نے بھی اپنے وار جاری رکھے، میں نے اسے بتایا کہ تم سے مزہ نہیں آرہا تم سے پہلے والا بہترتھا‘‘ 54سالہ مفتی کفایت اللہ کے اس جملے نے محفل میں موجودہم سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلا دی۔
مفتی کفایت اللہ کچھ عرصے سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ براہِ راست ٹاک شوز کے دوران بعض اوقات غیر محتاط ہو جاتے ہیں جس سے کئی لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ افواہیں ہیں کہ شاید اسی لیے انہیں اکتوبر میں گرفتار بھی کیا گیا وہ باز نہ آئے تو شاید اسی لئے انہیں سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
حالیہ برسوں میں واحد راستہ حد سے بڑھی ہوئی احتیاط پسندی ہے۔ آپ آزاد خیال لبرل ہوں یا قدامت پسند مذہبی سوچ کے حامل فرد، جہاں کسی نے احتیاط کا دامن چھوڑا وہیں اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
آپ ہمارے ایک ہم عصر انگریزی روزنامہ ڈان کی مثال ہی لیجیے۔ ڈان اکتوبر 2016سے ایک ایسی خبر کی اشاعت کے بعد مسلسل عتاب کا شکار ہے جس کے لفظوں کو تاریخ میں جھٹلانا مشکل ہے جسے میڈیا میں اسکینڈل بنا کر ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔
حال ہی میں برطانیہ کے شہر لندن کے ایک پل پر ایک برطانوی شہری عثمان خان نے دو دیگر برطانوی شہریوں کو قتل کردیا۔ اس پر برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑا شور وغوغا ہوا۔ پولیس، انٹیلی جنس، صحافی سب عثمان خان کا اتا پتا کرتے نظر آئے۔ کسی نے خبر نکالی کہ عثمان خان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر سے تھا۔
ظاہر ہے عثمان خان کے حوالے سے یہ خبر پاکستانی اخباروں کی زینت بھی بنی اور اس انگریزی اخبار نے ایسی ہی شہ سرخی بھی لگائی جو کچھ لوگوں کو پسند نہ آئی۔ فوری طور پر اس اخبار کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے جسے کسی نے بھی نہ روکا۔
جس شام میں مانسہرہ میں مفتی کفایت اللہ کی عیادت کو جارہا تھا تو اسی وقت انگریزی روزنامہ کے خلاف اسلام آباد میں مظاہرہ ہورہا تھا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا کہ جب لندن پل کے مبینہ حملہ آور عثمان خان کی لاش پاکستان منتقل کر کے اسکی آخری رسومات آزاد کشمیر میں ادا کی جارہی تھیں۔
آپ المیہ دیکھیں کہ اس مظاہرے کے جواب میں میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے مذکورہ اخبار کے حق میں جو مظاہرہ کیا گیا تو اس میں کچھ ایسے چہرے بھی موجود تھے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد پریس کلب کے دروازے بعض سیاستدانوں اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کیلئے بند کیے تھے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اب وہی لوگ یہاں بھی موجود تھے۔
قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر اور نام کے ساتھ شائع ہونے والے اس اخبار کے ساتھ بالکل ویسا ہی رویہ اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسا قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے دوران اپنایا گیا تھا.
اس اخبار کو غدار قراردیا جارہا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا پر اگر اسی طرح پابندیاں لگتی رہیں تو اظہارِ رائے کی آزادی اور اختلافِ رائے کے حق کا کیا بنے گا۔
حال ہی میں ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کو سچ کی جنگ لڑنے پر بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
ڈان اور مفتی صاحب کےساتھ پیش آنے والےمذکورہ واقعات میں کچھ اہم اسباق پوشیدہ ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہمیں آزاد خیال لبرل اور رجعت پسند مذہبی کی تقسیم سے نکل کر آئین وقانون کے بنیادی اصولوں پراکٹھا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر سچائی اور قانون کا دامن اس مشکل وقت میں بھی نہیں چھوڑنا ہوگا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہالت کی حامی قوتیں اور جمہوریت مخالف عناصر یہ نہیں دیکھتے کہ آپ آزاد خیال لبرل ہیں یا رجعت پسند مُلا۔