دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
اب تک ملک میں 23 سو سے زیادہ کیسز کی تصدیق ہوچکے ہیں اور پنجاب 914 کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ سندھ میں 743، خیبرپختونخوا میں 276، بلوچستان میں 164، اسلام آباد میں 62، گلگت بلتستان میں 187 اور آزاد کشمیر میں 9 کیسز سامنے آئے۔
اس وائرس کے نتیجے میں 32 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ اسے شکست دیکر صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 107 تک پہنچ چکی ہے۔
یقیناً پاکستان چین، امریکا یا دیگر یورپی ممالک جتنے وسائل نہیں رکھتا مگر کم وسائل کے باوجود وائرس کی روک تھام کے لیے بہت کچھ کیا جارہا ہے۔
درحقیقت پنجاب میں تو چین کے شہر ووہان کی طرح ایک عارضی ہسپتال محض 9 دن کی ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا ہے۔
یقیناً اس کے لیے ووہان کی طرح دن رات ایک خالی پلاٹ پر تعمیر تو نہیں ہوئی مگر پھر بھی 9 دن میں ایک ہزار بستروں کے ہسپتال کا قیام حیران کن ہے۔
لاہور کے ایکسپو سینٹر میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل فیلڈ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں آئی سی یو سمیت دیگر تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
پنجاب حکومت کے مطابق ایکسپو سینٹر شہری آبادی سے دور ہے اور کورونا وائرس کے مریضوں کو یہاں لایا جائے گا۔
میو ہسپتال لاہور کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خان کو ایکسپو سینٹر ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہے اور انہوں نے چند دن پہلے بتایا تھا کہ اس ہسپتال کو مریضوں کے لیے 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کے پہلے اور دوسرے حصے میں وائرس سے کم متاثر ہونے والے افراد جبکہ تیسرے میں زیادہ متاثر ہونے والے مریضوں کا رکھا جائے گا۔
اس ہسپتال کے قیام کا مقصد مریضوں کو الگ تھلگ رکھ کر محفوظ ماحول میں ان کے علاج کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 50 بستروں پر مشتمل یونٹ کو وینٹی لیٹرز کے ساتھ مکمل طور پر فعال بنایا گیا ہے۔
یکم اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس فیلڈ ہسپتال کو آپریشنل کیا اور اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں تمام سہولیات موجود ہیں جبکہ مریضوں کو 3 وقت کھانا بھی فراہم کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ووہان میں 23 جنوری سے 2 فروری کے دوران ایک ہزارا بستروں کے ہسپتال ہوشینشان ہاسپٹل کی تعمیر کرکے دنیا کو حیران کیا گیا تھا۔
یہ ہسپتال 25 ہزار اسکوائر میٹر پر تعمیر ہوا تھا اور اس کے علاوہ بھی 16 سو بستروں کے ایک ہسپتال کی تعمیر 15 دن میں مکمل کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ لاتعداد عارضی طبی مراکز قائم کیے گئے تھے مگر چین میں وائرس کی روک تھام کے بعد ان تمام ہسپتالوں اور مراکز کو بند کردیا گیا۔
تجرباتی علاج کی آزمائش
حکومت پنجاب نے ہی کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کلوروکوئن اور ہائیڈروآکسی کلوروکوئئن سے علاج کی منظوری دی تھی۔
اس مقصد کے لیے دونوں ادویات کی ہزاروں گولیاں بھی خریدی گئیں اور میو ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے، جس کے ابتدائی نتائج بھی حوصلہ افزا قرار دیئے گئے تھے۔
میو ہسپتال لاہور کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خان نے تصدیق کی تھی کہ ابتدائی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے کلوروکوئن اور ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کے ذریعے وائرس کے مریضوں کے علاج معالجے کی تجویز کررہے ہیں جبکہ مذکورہ ادویات حکومت پنجاب نے کافی مقدار میں مہیا کردی ہیں۔
واضح رہے کہ ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی اس دوا سے کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے حوالے سے دنیا بھر میں ملی جلی رائے سامنے آرہی ہے اور متعدد ممالک میں اس کی آزمائش بھی ہورہی ہے۔
یہ دوا دنیا کی نظر میں اس وقت اہمیت اختیار کرگئی جب فرانس میں ایک تحقیق کے دوران ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس دوا کے ساتھ مریضوں کے علاج میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اس تحقیق میں شامل 36 میں سے 20 مریضوں کو یہ دوا استعمال کرائی اور 6 دن بعد کلوروکوئن استعمال کرنے والے 70 فیصد مریض صحت یاب ہوگئے کیونکہ وائرس ان کے خون نمونوں سے غائب ہوگیا۔
مشتبہ کیسز کے لیے زیادہ ٹیسٹ
دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تشخیص کے لیے ہونے والے ٹیسٹوں کی تعداد بہت کم ہے اور پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔
تاہم دیگر صوبوں کے مقابلے میں اب پنجاب میں ٹیسٹوں پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ وہاں مریضوں کی تعداد بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
پنجاب میں کورونا وائرس کے تقریباً 15 ہزار ٹیسٹ کیے گئے ہیں جبکہ سندھ جہاں مریضوں کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے وہاں تقریباً 7 ہزار ٹیسٹ کیے گئے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹیسٹ کے اعداد و شمار کی تعداد سندھ اور پنجاب سے بہت کم ہے۔
جیسا آپ نیچے انفوگراف میں ہر صوبے میں مصدقہ کیسز کی تعداد اور 31 مارچ تک کیے گئے ٹیسٹوں کے اعدادوشمار دیکھ سکتے ہیں جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اور متعلقہ صوبائی محکموں کی جاری کردہ ہیں۔