سائنسہفتہ بھر کی مقبول ترین

گوگل نے وائرس کی روک تھام کیلئے لوکیشن ڈیٹا جاری کردیا

Share

ایلفا بیٹ انک کی ویب سائٹ گوگل نے ایسے چارٹس شائع کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس نے کس بری طرح اٹلی کو نشانہ بنا کر وہاں زندگی پر جمود طاری کردیا۔

 رپورٹ کے مطابق گوگل صارفین کے فون کے لوکیشن ڈیٹا کا تجزیہ اب تک سب سے بڑا دستیاب عوامی ڈیٹا ہے جس کا مقصد حکام کی یہ جائزہ لینے میں مدد کرنا ہے کہ عوام گھروں تک محدود رہنے اور وائرس سے بچاؤ کے دیگر اقدامات پر عمل پیرا ہیں کہ نہیں۔

کمپنی نے 131 ممالک میں 5 ہفتے یعنی 16 فروری سے 29 مارچ تک خریدو فروخت اور تفریحی سرگرمیوں، ٹرینوں اور بس اڈوں، گھریلو اشیا کی دکانوں اور کام کی جگہوں پر ٹریفک کے حوالے سے رپورٹ جاری کی جس میں چارٹس بھی شامل ہیں۔

گوگل کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس تشویش سے بچنے کے لیے کہ حکام کو کیا مواد فراہم کیا جارہا ہے یہ رپورٹ پبلش کی، تاہم اس سے لوکیشن کی ٹریکنگ کے سلسلے میں مستقبل میں وبا کی روک تھام کی ضرورت کے ساتھ پرائیویسی کو متوازن رکھنے کی عالمی بحث شروع ہوگئی ہے۔

اٹلی اور اسپین وہ 2 ممالک ہیں جنہیں وائرس نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے دونوں ممالک میں دکانوں اور تفریحی مقامات مثلاً ریسٹورنٹس اور سینما گھروں میں لوگوں کی آمد میں 94 فیصد کمی ہوئی ہے۔

دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور فلپائن میں یہ کمی 80 فیصد رہی اسی طرح بھارت میں 25 مارچ کو اچانک 21 روز کا لاک ڈاؤن لگنے سے یہ شرح 77 فیصد کم رہی۔

امریکا اور آسٹریلیا میں سماجی فاصلے کے اقدامات کی بدولت اس قسم کے مقامات پر لوگوں کی آمد میں 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔

اس کے برعکس سویڈن اور جاپان جہاں حکام نے سخت پابندیاں عائد نہیں کی، دکانوں اور تفریحی مقامات پر آمدو رفت میں صرف ایک چوتھائی کمی آئی۔

اسی طرح جنوبی کوریا جس نے جارحانہ ٹیسٹنگ اور وائرس کے رابطوں کی تلاش کر کے کامیابی سے وبا کو قابو کرلیا ہے وہاں یہ کمی صرف 19 فیصد دیکھی گئی۔

اس ڈیٹا میں ان چیلنجز کا بھی ذکر ہے جن کا عوام کو دور رکھنے کے لیے حکام کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب سنگاپور، برطانیہ اور دیگر مقامات پر گھریلو اشیا کی دکانوں پر لوگوں کی آمد میں اضافہ دیکھا گیا جہاں اب سفر پر پابندی عائد ہونے والی ہے۔

ادھرکیلیفورنیا میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران سان فرانسسکو کے بے ایریا کی کچھ کاؤنٹیز میں پارکس میں لوگوں کی آمد میں اضافہ دیکھا گیا۔

پرائیویسی کا توازن

گوگل کی رپورٹ میں شامل کردہ ڈیٹا موبائل فون میں گوگل کی ’لوکیشن ہسٹری‘ کے فیچر کی مدد سے حاصل کیا گیا۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اس نے تکنیکی اقدامات اس بات کو یقینی بنا کر اٹھائے کہ کسی شخص کو ان رپورٹ کی مدد سے شناخت نہ کیا جاسکے۔

گوگل کے چیف ہیلتھ افسر ڈاکٹر کیرن ڈی سالوو کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ رازداری کے پروٹوکولز اور پالیسز کو مدِ نطر رکھتے ہوئے اس طرح بنائی گئی ہے کہ مددگار ثابت ہو‘۔

متعدی بیماریوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ مختلف عمر کے افراد کے سفر، آمدن اور دیگر اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے سے عوام کے لیے اعلانات کرنے میں مدد ملتی ہے۔