انسان کے ہاتھوں معدوم ہونے والے وہ 8 جانور جنھیں ہم کبھی نہیں دیکھ سکیں گے
شاید ہم کسی نوع کے معدوم ہونے کو اچانک مگر کبھی کبھار ہونے والا کوئی واقعہ تصور کریں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ معدومیت تشویشناک حد تک معمول سے ہوتی ہے۔
درحقیقت جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ہر سال تقریباً 10 ہزار انواع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہیں۔
مگر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد حتمی طور پر نہیں معلوم کی جا سکتی کیونکہ ہمیں اب تک یہ ہی نہیں معلوم کہ دنیا بھر میں کتنی انواع پائی جاتی ہیں۔
اب جب ہم 30 نومبر کو ’معدوم ہوجانے والی انواع کی یاد‘ کا دن منائیں گے تو آئیں ان چند جانوروں پر نظر ڈالتے ہیں جو کبھی اس کرہ ارض پر بھرپور طور پر پائے جاتے تھے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ ان میں سے کون سی نوع حیران کن اور غیر متوقع انداز میں واپس آئی۔
1: مِس والڈرن کا ریڈ کولوبس (گھانا اور آئیوری کوسٹ)
حال ہی میں معدوم ہوجانے والے اس درمیانے سائز اور سرخ بالوں والے بندر کو 2000 کی دہائی کے اوائل سے معدوم تصور کیا جاتا ہے۔
گھانا اور آئیوری کوسٹ کی سرحد پر رہنے والا مِس والڈرن کا ریڈ کولوبس سب سے حیرت انگیز جانوروں میں سے تھا کیونکہ اس کے انگوٹھے نہیں ہوا کرتے تھے۔
بڑے گروہوں کی صورت میں اونچے درختوں کے اوپر حصوں میں رہنے والا یہ نرم مزاج جانور انسانوں کی جانب سے جنگلات کی کٹائی کے سبب اپنا طرزِ زندگی تبدیل کرنے پر مجبور ہوا۔
جب جنگلات سکڑنے لگے تو ریڈ کولوبس کے گروہ بھی چھوٹے ہوتے گئے جس سے ان کے لیے شکاری جانوروں کا خطرہ بھی بڑھا اور آپس میں افزائشِ نسل کے سبب جینیاتی کمزوریاں بھی فروغ پانے لگیں۔
2: یینگتسی ریور ڈولفن (چین)
سنہ 2006 میں معدوم قرار دی جانے والی یینگتسی ریور ڈولفن ایک پھیکے خاکستری رنگ والی ممالیہ تھی جو سمندر میں تیرتے اپنے کزنز کے مقابلے میں نسبتاً کم پروقار دکھائی دیتی۔
اس کے سادہ جسم کے نیچے انتہائی ارتقا یافتہ ایکو لوکیشن سسٹم موجود تھا جو کہ دیگر ڈولفنز کے مقابلے میں کہیں زیادہ برتر تھا۔ اس کا یہ نظام اتنا باریکی سے کام کر پاتا کہ یہ اکلوتی مچھلی تک کی لوکیشن معلوم کر سکتی تھی۔
مگر اس کی یہی حساسیت اس کے لیے اس وقت خطرہ بنی جب دریا مچھیروں کی کشتیوں، کنٹینر بردار جہازوں، ٹرالروں اور انسان کی پھیلائی گئی آلودگی سے بھر گیا۔
اس شدید مصروف ٹریفک سے گھبراہٹ کی شکار ہوجانے والی یینگتسی ریور ڈولفن کے پاس بقا کے لیے کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔
3: کیریبیئن مونک سیل (جمیکا اور نکاراگوا کے درمیان سیرانیلا کنارا)
خطہءِ کیریبیئن کا یہ مقامی دریائی بچھڑا کسی زمانے میں وسطی امریکہ کے مشرقی کنارے، جنوبی امریکہ کے شمالی ساحلوں اور خلیجِ میکسیکو میں پایا جاتا تھا۔
مگر ان کی چربی میں پائے جانے والے تیل کے حصول کے لیے ان کا بے رحمانہ انداز میں شکار کیا گیا جبکہ ان کی غذا بننے والی مچھلیوں کے بے تحاشہ شکار کی وجہ سے بچ جانے والے دریائی بچھڑوں کے لیے خوراک کی کمی ہوگئی۔
انھیں آخری مرتبہ 1952 میں جمیکا اور نکاراگوا کے درمیان سیرانیلا کنارے کے قریب دیکھا گیا تھا۔
4: ایلابامہ پِگٹو (امریکہ)
یہ معصوم سا نظر آنے والا سیپ 2006 تک امریکی ریاست ایلابامہ کے دریائے موبائل میں پایا جاتا۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ سور کے پیر جیسا دکھائی دیتا مگر یہ آلودہ دریا کا پانی فلٹر کیا کرتا۔ مگر آلودگی پھر اتنی زیادہ ہوگئی کہ پگٹو اسے مزید نہ جھیل پایا۔
اس ننھی سی مخلوق کے خاتمے نے پانی کے بارے میں کئی تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا، جو فیکٹریوں کے زہریلے مادوں سے آلودہ ہو رہا تھا اور دریا کے ساتھ رہنے والے افریقی امریکی برادری میں ہلاکت انگیز بیماریوں کا سبب بن رہا تھا۔
5: ڈوڈو (ماریشیس)
سب سے مشہور مگر معدوم پرندہ ہونا شاید ایک عجیب سا اعزاز ہو مگر ڈائنوسارز کے علاوہ ڈوڈو ایک طویل عرصے سے معدوم ہو چکی ایسی نسل ہے جسے سبھی جانتے ہیں۔
کارٹون کردار ڈیفی ڈک جیسے دکھائی دینے والا یہ پرندہ کسی زمانے میں جزیرہ ماریشیس پر رہا کرتا۔ اڑ نہ سکنے والے اس پرندے کے فطرت میں کوئی شکاری نہیں پائے جاتے تھے۔
جب انسان ماریشیس تک پہنچے تو اپنے ساتھ دیگر جانور اور گوشت کے لیے اپنی بھوک بھی اپنے ہمراہ لے کر آئے۔ ان کے سامنے ڈوڈو زیادہ عرصے تک باقی نہ رہ سکے۔
آخری ڈوڈو 18 ویں صدی کے اوائل میں ہلاک ہوا تھا۔
6: سٹیلرز سی کاؤ (الاسکا اور روس کے درمیان بحیرہ بیرنگ)
یہ سمندری گائے میناٹی اور ڈوگونگ کی طرح ہی نظر آتی مگر یہ ان سے کہیں زیادہ بڑی ہوا کرتیں۔ سٹیلر کی سمندری گائے کا سائز نو میٹر تک بھی ہو سکتا تھا۔
اس کی شاندار وضع قطع، کھال اور قیمتی چربی کی وجہ سے یہ شکاریوں کا ہدف بنا رہا۔ بظاہر اس کا ذائقہ بادام کے تیل میں بھگوئے ہوئے بیف کے جیسا تھا۔
مانا جاتا ہے کہ ان کا خاتمہ شکار اور ان کے غذائی ماحول میں تبدیلیوں کی وجہ سے ڈوڈو کے معدوم ہونے کے کچھ ہی عرصے کے بعد ہوا۔
7: کواگا (جنوبی افریقہ)
بیچارے کواگا کی غیر معمولی خوبصورتی ہی اس کی معدومیت کی وجہ بنی۔ اس دلآویز افریقی جانور کا سامنے کا آدھا حصہ زیبرا کی طرح دھاری دار تھا مگر یہ دھاریاں پیچھے کی جانب مٹتی مٹتی ختم ہوجاتیں اور پچھلا حصہ گھوڑے کی طرح سادہ اور بھورا ہوتا۔
اس کی حیران کُن وضع کی وجہ سے اس کا اس قدر غیر قانونی شکار کیا گیا کہ یہ معدوم ہوگئے۔ ان میں سے آخری 1880 کی دہائی میں قید میں ہلاک ہوا۔
8: آئرش ایلک (آئرلینڈ)
ختم ہوجانے والی زبردست انواع میں سے زیادہ تر ان جانوروں سے قریب تر تھیں جنھیں ہم آج جانتے ہیں مگر بس تھوڑی سی عجیب و غریب ہوا کرتیں۔
مثال کے طور پر میموتھ کو دیکھیں جو بالوں سے ڈھکے ہوئے کسی عظیم الجثہ ہاتھی ہی کی طرح تھے۔
اسی طرح آئرش ایلک یا آئرش ہرن آج موجود ہرن جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دو میٹر تک بلند ہوسکتے جبکہ ان کے سینگوں کا پھیلاؤ 3.65 میٹر تک ہوتا۔
ان کا خاتمہ تقریباً 7700 سال پہلے ہوا اور ممکنہ طور پر اس کی وجہ شکار اور تبدیل ہوتا ہوا موسم بنا۔
9: وائٹ ٹیل ایگل (برطانیہ)
آئیں اختتام ایک خوشگوار کہانی پر کرتے ہیں۔ سفید دُم والے عقابوں کو 20 ویں صدی کے اوائل میں برطانیہ میں تقریباً معدومیت تک پہنچا دیا گیا تھا مگر زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔
تقریباً دو میٹر تک پروں کا پھیلاؤ رکھنے والے اس شاندار پرندے کا برطانیہ میں کئی سالوں تک بے رحمانہ انداز میں شکار کیا گیا۔ درحقیقت اسے مارنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔
جب تک پرندوں کا قتل غیر قانونی قرار پایا، تب تک معدومیت کو روکنے کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔
مگر خوش قسمتی سے سفید دُم والے عقاب یورپ میں دیگر جگہوں پر بستے تھے اور انھیں برطانیہ میں دوبارہ متعارف کروانا ممکن ہو سکا۔
مگر تمام جانور اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے۔