“حافظہ مریم خان”
کرونا ایک ایسی بیماری ہے جسکا ہونے نا ہونے کا کچھ واضح طور پر نہیں پتا مگر اسکا خوف اور ذکر ہر جگہ موجود ہے۔ اخبارات کی سرخیوں سے لے کر ٹی وی چینلز تک اور ریڈیو کے اشتہارات موباٸل کالر ٹون اور نمبر پر بھی پیغامات بھیجے جا رہے ہیں احتیاط بتاٸ جا رہی ہے اور تو اور سوشل میڈیا کو توبس کوٸ ٹاپک چاہیے ہوتا ہے جو کہ آجکل واٹس ایپ اور کتابی چہرہ (Facebook) پر تو رونق لگی ہوٸ ہے کوٸ احتیاطی تدابیر کیساتھ دعاٸیں پڑھنے کیلیے بتارہا ہے تو کوٸ اس بیماری کا مزاق بنا کر اپنا غیر سنجیدہ رویہ کا اظہار کر رہا ہے۔
ایک محترم لکھتے ہیں کہ :
خدا کی قدرت کو مان کر پھر
رکوع میں انساں جھکا ہوا ہے
نظام فطرت تو چل رہا ہے
نظام دنیا رکا ہوا ہے
(شاہدمسرور)
اس خوفناک واٸرس نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ کٸ ممالک کے چلتے ہوۓ ترقی کے پہیّے کو روک رکھا ہے۔ اس مرض نے تو سپر پاور کیساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنے شکنجے میں سمویا ہوا ہے۔ کہاں گٸ وہ سپر پاور ؟ کہاں گیا وہ غرور ؟ ایک چھوٹے سے جراثیم نے انسان کے سارے ہتھیاروں کو شکست دےدی اور سارے ذہینوں کو مات کردیا، ساری معیشت کی اڑان کو پلٹ کر رکھ دیا آج کا انسان اپنے ترقی یافتہ ہتھیاروں کے ساتھ کہاں کھڑا ہے؟ سب کے سب نڈھال ہیں اور اس موذی بیماری کی لپیٹ میں آکر اپنے اللّٰہ (GOD) کے آگے گھٹنے ٹیکے بیٹھے ہوۓ ہیں۔ حقیقت عیاں ہے مگر پھر بھی لوگ باز نہیں آرہے اس مرض کو سنجیدہ لینے کو تیار ہی نہیں جبکہ سب جانتے بوجھتے ہوۓ بھی کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس بیماری میں مبتلہ ہوچکے ہیں کتنے لوگ اس مرض سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کٸ لوگ اس کا شکار ہوکر زندگی موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ عوام اس حقیقت کو قبول کرلے اور بتاٸ گٸ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوۓ قرنطینہ کو اپناۓ۔۔مگر یہاں روڈ دیکھو تو اس پر اتنا ٹریفک، مارٹ کی طرف رُخ کرو تو وہاں اتنی بھیڑ، اسکے علاوہ عام دکانوں پر ہے تو وہاں لوگوں کا ہجوم۔۔۔ کیا بند ہے کیا نہیں، کیا چل رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کوٸ غریبوں کو راشن دیتے ہوۓ تصاویر کیساتھ انکی عزت نفس کو مجروح کر رہا ہے تو کوٸ لاک ڈاٶن کا فاٸدہ اٹھاتے ہوۓ ناجاٸزمنافع کماکر اپنی حوس مٹا رہا ہے کوٸ آذانیں دیکر اس وبا سے چھٹکارہ پانے کی امید سے ہے تو کوٸ آیت کریمہ اور دیگر وضاٸف کا ورد کر کے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کر رہا ہے تو کوٸ شاعری سے لوگوں کو سنجھا رہا ہے تو کوٸ اپنی ویڈیوز بنا کر اس جنگ میں لڑنے والوں کے حوصلے بلند کر رہا ہے۔
ایک عزیز لکھتے ہیں کہ :
ہم زندہ قوم ہیں، اِک بار دنیا کو پھر دکھانا ہے
سب کو ایک بنکر اس موذی کرونا کوہرانا ہے
سیلابوں زلزلوں میں ہم نے یکجان ہوکر دکھایا تھا
آج پھر اسی جذبے کو ہم نے اِک بار پھر جگانا ہے
عزم کریں نا امیدی کو ختم کر کے ہی دم لیں گے
اپنے پریشان حال لوگوں کا ہمیں حوصلہ بڑھانا ہے
کچھ زیادہ مشکل تو نہیں ان دو باتوں پر عمل کرنا
نہ بھیڑ بھاڑ میں گُھسنا ہے، نہ ہاتھوں کوملانا ہے
گر اپنے پیاروں سے واقعی ہم پیار کرتے ہیں
تو نہ کسی کو بلانا ہے، نہ گھر سے باہر جانا ہے
فرصت کے ان لمحوں کا گر صحیح استعمال کرنا ہے
خدا سے اپنے تعلق کو اور مضبوط بنانا ہے
خود پر بھروسہ رکھنا ہے، یہ جنگ خود ہی لڑنی ہے
وصفی گھر میں دشمن آن گھسا ہے اس کو مار بھگانا ہے
(سلمان صدیقی)
یاد رکھیں اس وقت کرونا کا واحد علاج صرف احتیاط ہے لہذا خود بھی احتیاط کریں اور گھر والوں کو بھی بچاٸیں کیونکہ گھر میں ایک فرد بھی کرونا متاثر ہوگا تو اس سے پورا گھر متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں.
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:
اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو۔
کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو استعمال کرلیں، اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔
کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو۔ ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری تو فوری طبی مدد حاصل کریں۔ طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔
احتیاط احتیاط اور صرف احتیاط کریں
گھر سے ہرگز مت نکلیں
چکھنے اور سونگھنے کی حس کو چیک کرتے رہیں.
دن میں ٢ دفعہ بھانپ لیں
*پانی اور گرم پانی کا استعمال زیادہ کریں *
*واٸٹامن سی کا استعمال کریں *
*کسی ضرورت کے تحت باہر جاٸیں تو واپس آکر اپنے کپڑوں کو گرم پانی میں ڈال دیں اگر پانی میں نا سہی تو دھوپ میں ڈال دیں *
کوٸ بھی کھانا بناٸیں تو اس میں کلونجی کے چار سے پانچ دانے ضرور ڈال دیں کیونکہ کلونجی میں ہر مرض کی شفا ہے
فی الحال قرنطینہ کو اپناٸیں
جسطرح اس ‘کرونا’ نامی بیماری سے بچنےکیلیے اور اسکی روک تھام کیلیے احتیاطی تدابیر اور تجاویز پیش کی جا رہی ہیں ان میں قرنطینہ سب سے اہم ہے۔قرنطینہ کیا ہے؟ دراصل ساٸنسی زبان میں کسی متعددی بیماری کے پھیلاٶ سے بچنے اور اسکو روکنے کیلیے کسی کو کچھ وقت کیلیے الگ رکھنا قرنطینہ کہلاتا ہے۔
ایک استاد لکھتے ہیں کہ :
کیسی یہ زمانے میں وبا عام ہوئی ہے
ہر سانس یہاں منبع آلام ہوئی ہے
ملنے پہ بھی پابندی ہے اک دوسرے سے اب
ہر جان قرنطینہ کے ہی نام ہوئی ہے
(ڈاکٹر رٸیس صمدانی)
آخر میں بس اتنا کہ یاد رکھیں کرونا اللّٰہ تعالیٰ سے بڑا نہیں ہے. اللّٰہ کے حکم کے بغیر یہ نہیں لگ سکتا اور جسے متاثر کرنے کا اللّٰہ فیصلہ فرماچکا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت کرونا سے نہیں بچاسکتی ڈرنے سے خوف سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ قوت مدافعت میں کمزوری پیدا ہوگی جو یہ واٸرس کیا کسی بھی بیماری کی جنگ میں کمزور پڑنا نقصاندہ ہوتا ہے لہذہ اللّٰہ پر توکل رکھیں اور پرامن زندگی گزارتے رہیں احتیاط کیساتھ.
اللّٰہ پاک سب کو اس مرض سے محفوظ رکھےاور جلد اس وبا کا خاتمہ کرے۔۔۔۔آمین