سنتیاگوائیرپورٹ پرایک اہلکار نے دوستانہ انداز میں استفسارکیاکہ آپ اس وقت جاپان کیوں جارہے ہیں؟وہ توکرونا وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔چلی کے عالمی ہوائی اڈے پریہ پہلاموقع تھا جب میں نے کرونانام سنا،میں نے اس کی بات کواس لئے درخوراعتنانہ سمجھاچونکہ لاطینی امریکہ کے تمام ممالک میں چپٹی ناک اورنیم باز آنکھوں والے تمام افراد کو ہی ”چینو“یعنی چائینزکہاجاتا ہے۔بات کہنے کی حد تک ہو پھربھی زیادہ فرق نہیں پڑتا،ستم ظریفی یہ ہے کہ چھوٹی موٹی ناک اور نیم باز آنکھیں رکھنے والے تمام ممالک کے افراد کو چینی سمجھاجاتا ہے۔اس لئے جب ائیرپورٹ پرمقامی اہلکارنے دوستانہ وارننگ دی تو میں نے یہی سمجھ کر نظراندازکر دیا کہ اس بے چارے کوچین اور جاپان کا فرق ہی معلوم نہیں ہے۔یہ جنوری کا آخری ہفتہ تھاجب میں میکسیکوشہر میں گھوم پھررہاتھااوریہاں پردوردورتک کروناکانام ونشان تک نہ تھا،سینمامیں فلم دیکھنے کے لئے ہال کھچاکھچ بھرے ہوئے تھے۔میکسیکوکی زندگی کاایک اہم جز اسٹیج ڈرامے بھی ہیں۔شہرکے عین وسط میں ڈراموں کی بھرماراورکھوے سے کھواچھلنے کے محاورے کے مصداق لوگو ں کی بھیڑتھی۔کھانے،پینے کارواج وہاں ایسے ہی ہے جیسے اندرون شہر لاہوراورگردونواح میں،یعنی اوپن ائیر۔چھوٹے چھوٹے ر یستوران بھی ہیں جن میں چٹ پٹے میکسیکن کھانے لائن میں لگ کرلینے پڑتے ہیں۔
ٹوکیوکے عالمی ہوائی اڈے پرروٹین کی رونق اوربھیڑتھی۔حالانکہ کروناوائرس کاآغازدسمبرکے وسط میں ہوچکاتھامگرابتدامیں تمام دنیانے اسے چینی مسئلہ خیال کرتے ہوئے دھیان تک نہ دیا۔امریکہ اور یورپی ممالک نے چین کی مددکرنے کی بجائے اس وبا سے بچنے کے لئے جن اقدامات کے بارے سوچاوہ یہ تھے کہ ناکہ بندی کردی جائے یا چین سے سامان نہ منگوایاجائے۔ان ابتدائی دنوں میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم توباقاعدہ اس وبائی مرض کا مذاق اڑاتے ہوئے نظرآئے۔صدر ٹرمپ تو اسے چینی وائرس کا نام دیتے تھے۔جاپان میں فروری کا مہینہ کام،کام اور کام کے فرمان قائد کا عملی نمونہ نظرآیا۔وجہ اس کی یہ تھی کہ اولمپک 2020کا میزبان ملک ہونے کے ناطے اسے تمام کھیلوں کے مقابلوں کے میدانوں اور انتظامات کو حتمی شکل دینے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا۔مارچ کے ابتدائی دو ہفتے پوری دنیا کو یہ باورکروانے میں بالآخرکامیاب ثابت ہوئے کہ کرونا وائرس فقط چین کا مسئلہ نہیں ہے۔اس کا پھیلاؤ ہمسایہ ممالک تک پہنچ گیا ہے۔ووہان شہر سے پوری دنیامیں پھیلنے والے اس وائرس کے بارے میں پہلی مرتبہ وزارت خارجہ کے ایک چینی ذمہ دار نے امریکہ پر الزام لگایاتھا کہ اس کی افواج جوچین میں پہنچی تھیں،اس وباکے پھیلاؤ میں ملوث ہیں۔
چین کے بعد سب سے بری طرح اس وبا سے متاثرہونے والاملک ایران تھا۔تہران سے تعلق رکھنے والامیرا دوست علی مرتضیٰ گویا بتا رہا تھاکہ اگر دس لوگ ایران میں کروناوائرس سے ہلاک ہوتے ہیں توحکومت ایک بتا رہی ہے۔مارچ کے دوسرے ہفتے میں یہ ایرانی دوست کہہ رہا تھاکہ جانتے،بوجھتے بھی ہماری حکومت اسے نہیں روک پائی چونکہ باقی تمام دنیانے ہم پر ویسے ہی پابندیاں لگارکھی ہیں۔ہماراواحدکھلاراستہ چین کے ساتھ ہے جس پرنارمل کاروبار ہورہا ہے۔اس لئے ہماری مجبوری تھی کہ کوروناوائرس کی تصدیق کے باوجود اس راستے کو کھلا رکھیں۔کل المیہ یہی نہیں،مرنے والوں کے جنازے اورتدفین میں اہل خانہ کو بھی شرکت کی اجازت نہیں دی جارہی،غسل میت تک بندکردیا گیا ہے۔حکومتی اہلکار ہی کفن اور تدفین کرتے ہیں۔
مارچ کے تیسرے ہفتے میں بھی جاپان میں تمام زندگی روٹین کے مطابق چل رہی تھی۔گرچہ یہ مرض یہاں پہنچ چکا تھااورپھیل بھی رہاتھامگرحکومت کا رویہ یہ تھاکہ بس احتیاط کریں۔فکرکی کوئی بات نہیں۔اس طرز عمل کی وجہ شائداولمپک 2020کاانعقاد بھی تھا۔اسی سبب سے مجھ سمیت تمام آبادی اس بارے میں کوئی زیادہ متفکرنہیں تھی اور لوگ اسے بیرونی دنیا کے متعلق کوئی وباسمجھ رہے تھے۔تیسرے ہفتے تک حکومت کایہ واضح عظم تھاکہ جولائی کے مہینے میں ٹوکیواولمپک 2020منعقد ہوں گے۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں مارچ کے تیسرے ہفتے تک اس بارے میں بالکل بھی فکرمندنہیں تھا۔جاہلانہ حدتک لاعلم تھا۔ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اس بارے دھیان ہی نہیں گیا۔دوسری جانب حکومت کی بھی یہی کوشش تھی کہ ہرچیز کونارمل ظاہر کرے تاکہ اولمپک مقابلے ملتوی نہ ہوجائیں،چونکہ التواء کی صورت میں پانچ سے چھ ارب ڈالرکانقصان متوقع تھا۔پہلی بار میں نے اس کروناوائرس کوسنجیدگی کے ساتھ اس وقت لیا۔جب میں اگلے روزپروازکے لئے ٹوکیوائیرپورٹ سے ملحقہ ہوٹل میں قیام شب کے لئے رکا۔اس رات جب میں نے انگریزی اخبار کھولاتوبلا مبالغہ کروناکے علاوہ اس میں کوئی بھی اس میں خبر نہیں تھی۔ٹی وی پرCNNاورBBCدیکھا تووہاں پر بھی یہی واحد خبرتھی۔اگلی صبح ائیرپورٹ پر بنکاک کی پروازکے لئے جہاز کے زمینی عملے سے بورڈنگ کروائی تو وہاں انتہائی کم لوگ تھے۔امیگریشن کے کاؤنٹر پر عمومی دنوں کی نسبت آدھے لوگ تھے۔تھائی لینڈ جانے کے لئے جس جہاز میں بیٹھا۔اس میں آدھی سے زیادہ نشستیں خالی پڑی تھیں۔بنکاک ائیرپورٹ پر سراسیمگی کا عالم تھا۔بزنس لاؤنج صرف ایک کھلاتھا،باقی بند کر دئیے گئے تھے۔ائیرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس کھلی ہوئی تھیں مگرگاہک خال خال ہی نظر آرہے تھے۔،حالانکہ شام چھ،سات بجے کا وقت کام کے اعتبار سے دن کامصروف ترین وقت ہوتا ہے۔بنکاک سے لاہور کی فلائیٹ بھری ہوئی تھی مگربہت سارے چہروں پر ماسک نظرآرہے تھے،اکثریت بشمول میرے ماسک اوردستانوں سے بے نیاز تھی۔لاہور ائیرپورٹ پرتھرمل گن سے ہمارے ماتھے کا درجہ حرارت چیک کیا گیا،گھرپہنچ کربھی گفتگوکایہ بنیادی موضوع نہیں تھا۔ضمنی موضوع تھا۔شادی ہالوں کی بندش کے سبب خاندان اور دوستوں کے ہاں ہونے والی شادیوں پرواویلا تھامگرمرض سے خوف کی فضاہرگزبھی نظرنہیں آرہی تھی۔اسی بے فکری میں اگے چند روز گزرے۔
کروناوائرس کا چین نے بڑی ہمت،پامردی اورذہانت کے ساتھ مقابلہ کیا۔خداکاکرنا ہواکہ مارچ کے آخری عشرے میں اس مرض نے یورپ میں شدت اختیارکرناشروع کردی۔اٹلی،سپین سب سے بری طرح اس مرض کے شکنجے میں آگئے۔فرانس،انگلستان اور جرمنی سمیت پورایورپ اس کی لپیٹ میں آگیا۔روس میں تادم تحریراس مرض نے وہ شدت اختیارنہیں کی جس کے سبب بہت سے سازشی نظریات نے بھی جنم لیاہے۔کروناکا ڈرامائی انداز میں نیا مرکزامریکہ بن گیا۔کسی بھی ملک سے زیادہ وہاں کرونا سے متاثرہ مریض اور اموات کی تعدادسے دنیا نے اس مرض کوزیادہ سنجیدگی سے لیناشروع کردیا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوناشروع ہوگیا۔فارمیسی اور کریانہ کے علاوہ تمام دکانیں،تمام فلائیٹس کینسل۔تمام دنیا فارغ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئی ہے۔یہ مرض اس کرہ ارض پر بسنے والے ساڑھے سات ارب انسانوں کے لئے بالکل نیااورناقابل یقین لگتا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں بنی نوع انسان کواتنا بے بس نہیں دیکھا۔دس لاکھ سے زیادہ مریض اورپچاس ہزارافراد لقمہ اجل بن چکے ہیں مگرتام دم تحریرکوئی دوااس مرض کا علاج نہیں کرسکتی۔بس احتیاط ہی ہو سکتی ہے،احتیاط کیجئے اوررحمت کی دعا کیجئے۔