ٹی وی چینلز اور دوسرے پبلسٹی اشتہاروں میں کورونا وائرس کی جو تصویر دکھائی جاتی ہے وہ سرخ رنگ کے انتہائی خوبصورت پھول ایسی ہوتی ہے۔ جس سے کسی کو ڈر کیا لگنا ہے یہ تصویر اُلٹا نظروں کو اچھی لگتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ اس کی ہولناک اور ننگِ انسانیت حرکات کا ذکر نہ کیا جائے تو امکان غالب ہے کہ خوبصورت پھولوں کے رسیا کچھ لوگ پھولوں کی دکانوں پر اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔ اور معاملہ صرف کورونا کی خوش رنگی کا نہیں، ہمارے اردگرد ایسے کتنے ہی کورونا ہیں، جن کا اعلیٰ درجے کا خوبصورت لائف اسٹائل دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ کاش ان جیسا ہوا جائے مگر جب ان کی ہولناکیوں پر نظر پڑتی ہے تو ان سے خوف آنے لگتا ہے۔ ان کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی کاریں ہیں، ان کے گھر دیکھیں تو مولانا طارق جمیل کی زبانی سنے اور پڑھے ہوئے وہ محل یاد آ جاتے ہیں جو جنتیوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں ملیں گے۔ ان کے بچوں کی شادیوں پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیل پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ دلہن کا جوڑا جو صرف ایک رات کے لئے ہوتا ہے، اس کی قیمت سے بیسیوں غریب بچیوں کی شادی ہو سکتی ہے۔ لاکھوں روپے شادی کے ایک ایک نظر کی متحرک تصویروں پر خرچ کر دیے جاتے ہیں صرف یہی نہیں، شادی کی تقریبات کم از کم ایک ہفتے تک جاری رہتی ہیں، میں ان پر اٹھنے والے اخراجات اور ان تقریبات کی رنگینیوں کی تفصیل کیا بیان کروں مگر ان شہنشاہوں میں سے کتنے شہنشاہ ہیں جن کی کمائی حلال کی ہے۔ یہ کالا پیسہ ہے رشوت کا۔ ذخیرہ اندوزی کا، بلیک مارکیٹنگ کا۔ کھربوں روپوں کے سودوں سے ملنے والی کمیشن کا۔ قومی خزانے میں ہونے والی خورد برد کا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد لوٹ مار، حرام کاری، ضمیر فروشی اور بہت سارے طبقوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں وہ ’’کورونا‘‘ سامنے آتا ہے جو دیکھنے میں دلکش ہے مگر کروڑوں زندگیوں کو ایک طویل عرصے سے چاٹتا چلا آ رہا ہے مگر ان کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ اس کورونا سے ڈرنا نہیں، اس سے لڑنا ہے۔ یہ تو اپنے طبقے کے خلاف اکسانے والی بات ہو گی چنانچہ یہ صرف اس کورونا سے لڑنے کی بات کرتے ہیں جن سے خود ان کی اپنی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ کورونا وائرس نے اس دانشمندی سے ان انسانی شکل والے کورونائوں کو اس بری طرح گھیرے میں لیا ہے کہ اب یہ پاکستان سے بھاگ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے کیونکہ کورونا پوری دنیا میں اپنا پہاڑ سا منہ کھولے ان کا منتظر ہے۔
اور ہاں کورونا کی خوبصورت شکل جیسی خوبصورت زندگی گزارنے والے آج سے نہیں، قیامِ پاکستان کے چند برسوں بعد ہی سامنے آ گئے تھے مگر طاقت وروں نے صرف کمزوروں کو اپنی انسان دشمنی کا نشانہ بنایا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ محمود و ایاز دونوں ان کی زد میں ہیں مگر اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ غریبوں کو کورونا وائرس سے بچانے والے فنڈز سے کچھ نئے ’’کورونا‘‘ وجود میں آئیں گے۔ لٹیروں کی لالچ اور لٹنے والوں کی جہالت انہیں سمجھاتی ہے کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ آنی ہی آنی ہے، لہٰذا بےفکر رہو! کمال بےخوفی کا یہ عالم ہے کہ جو لٹیرے اپنی ڈیوٹی پر ہیں، وہ تو جب تک پکڑے نہیں جاتے اس وقت تک ان کے نام اور کرتوتیں سامنے نہیں آئیں گی، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کاروباری لوگ ہیں یا ہم سرکاری نوکری کر رہے ہیں۔ ہمارا جو کروفر نظر آ رہا ہے وہ صرف نظر کا دھوکا ہے ورنہ ہمارا تو گزارا بھی مشکل ہے، لیکن دلیری پر وہ لوگ پرائڈ آف پرفارمنس کے مستحق ہیں، جو ریٹائر ہو چکے ہیں اور اپنی محنت مزدوری کے دنوں میں خود کو نیک، پرہیز گار اور ایماندار ثابت کرنے کے لئے سب کے لتے لیتے رہے ہیں۔ وہ اپنی دولت کا مظاہرہ بےخوف و خطر کرنے لگے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان کی طرف انگلی کا اشارہ بھی کر سکے۔ یہ ایمان دار والدین کی اولاد ہیں اور ان کی آنے والی سات پشتیں بھی دولت کے انباروں سے کھیلتی رہیں گی کیونکہ رزقِ حلال میں بہت برکت ہوتی ہے۔
لیکن سچ پوچھیں تو ’’کورونا‘‘ ایسی خوبصورتی خود پر لکھنے والوں میں بھی موجود ہیں۔ ہم ان لوگوں کے سامنے کلمۂ حق کہتے ہیں جو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں جو ہماری دم پر اپنا ہلکا سا پائوں بھی رکھ دیں تو ہماری جان نکل جاتی ہے۔ پاکستان آج ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف رواں ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لکھنے والے جابر نہیں صابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہتے رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کتنے بڑے بڑے سیاسی اور غیرسیاسی حادثوں سے دوچار ہوا، ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس موقع پر کلمۂ حق کہا۔ سچے کو سچا اور برے کو برا کہا، جنہوں نے اس ضمن میں اپنے جان و مال کی پروا کئے بغیر اپنا فرض نبھایا ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان سانحہ خود میری آنکھوں کے سامنے ہوا، انتخابات کے بعد حکومت کا حق مشرقی پاکستان کے لوگوں کا تھا، مگر ہم نے ان کا حق غصب کیا اور میرے سمیت میرے بیشتر صحافی بھی اپنے قلم اپنی ’’خفیہ کمین گاہوں‘‘ میں لئے بیٹھے رہے۔ کاش اس وقت ہم سب یک زبان ہو کر کہتے کہ بنگالیوں کا حق غصب کرنے والا یحییٰ خان ہے اور ہمیں اس ’’کورونا‘‘ سے ڈرنا نہیں اس سے لڑنا ہے۔