جولائی 2018کے انتخابات سے چند ماہ قبل اور ان کے نتائج آجانے کے بعد والے ہفتوں میں جہانگیر ترین اور ان کا نجی طیارہ ٹی وی سکرینوں پر ڈرامائی انداز میں مشہور ہوئے۔ انتخابات سے قبل ’’اپنے حلقوں‘‘ میں Electableتصور ہوتے افراد اس میں سوار ہوکر اسلام آباد آتے۔بنی گالہ پہنچ کر عمران خان صاحب کے آگے سرنگوں کرتے۔گلے میں پی ٹی آئی کے پرچم والے رنگوں کا پٹہ پہنتے اور قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں اپنی نشست کو تقریباََ یقینی بنالیتے۔
انتخابی نتائج نے مگر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت نہیں دی تھی۔ عمران خان صاحب کو وزیر اعظم منتخب کروانے کے لئے ضروری تھا کہ چودھریوں کی قاف لیگ،پاکستان کی ’’ازسرنووفادار‘‘ ہوئی ایم کیو ایم اور اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے علاوہ ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہوئے اراکین کی حمایت بھی حاصل کی جائے۔جہانگیر ترین اور ان کے طیارے نے اس ضمن میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طاقت ورترین ’’کنگ میکر‘‘ شمار ہونا شروع ہوگئے۔
بادشاہ مگر بادشاہ ہوتا ہے۔انگریزی میں کہتے ہیں کہ Kingshipیعنی بادشاہوں کے Kinshipیعنی رشتے دار نہیں ہوتے۔جلال الدین اکبر ایک اَن پڑھ نوجوان تھا۔ ہمایوں کی موت کے بعد کم عمری میں یتیم ہوا تو بیرم خان جیسے زیرک شخص کی سرپرستی میں ’’ظل الٰہی‘‘ کے مقام تک پہنچا۔ اس کے دربار میں بالآخر ایک نہیں کئی ’’نورتن‘‘ جمع ہوگئے۔بیرم خان کی ذہانت وفراست اسے درکارنہ رہی۔اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے بیرم خان قبل از وقت ریٹائرہوگیا۔حج کا ارادہ باندھا۔ابھی سفر میں تھا کہ ’’نامعلوم‘‘ کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ربّ کریم جہانگیر ترین کو طویل عمر عطا فرمائے۔ عالم ان کا اگرچہ اب دورِ حاضر کے بیرم خان جیسا ہوچکا ہے۔
کئی ہفتوں کی تحقیق کے بعد پاکستان کے چند ریاستی اداروں نے باہم مل کر گندم اور چینی کے بحران کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔وزیر اعظم صاحب نے اسے Publicکرنے کا حکم دیا۔کورونا کے خوف سے گھروں میں دبکے لوگوں کو اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد دل بہلانے کا موقعہ مل گیا۔عمران خان صاحب کے شیدائی ریگولر اور سوشل میڈیا پر سینہ تان کر بہت فخر سے لوگوں کو یاد دلارہے ہیں کہ چینی کے بحران کے حوالے سے تیار ہوئی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے فیصلے کے ذ ریعے وزیر اعظم نے کرپشن کے خلاف اپنی نفرت کو سچاثابت کردیا ہے۔وہ روایتی سیاست دانوں کی طرح بڑھک بازی کے عادی نہیں ۔ جوکہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔وہ خوب جانتے تھے کہ چینی کے بحران کے بارے میں تیار ہوئی رپورٹ جہانگیر ترین ہی کو نہیں عمران حکومت میں شامل کئی تگڑے افراد کوبھی رسوا کرے گی۔اس رپورٹ کو انہوں نے مگر منظر عام پر لانے کا حکم دیا۔ثابت کردیا کہ کرپشن کے معاملے میں وہ اپنے عزیزوقریب ترین ساتھیوں کو بھی معاف نہیں کریں گے۔ ان کے ہاتھ صاف ہیں۔انہیں بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی جرأت آج تک پاکستان کے کسی وزیر اعظم نے نہیں دکھائی۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ایک اور ورژن بھی ہے۔جھلاہٹ میں یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ جہانگیر ترین کی خیرہ کن دولت کے حقیقی ذرائع کا ’’سراغ‘‘ لگانے کے لئے وزیر اعظم کو ہفتے کے روز منظرعام پر آئی رپورٹ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟۔ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے کے لئے جہانگیر ترین کے وسائل کو بے دریغ انداز میں استعمال کرنے کے بعد وہ اب میکیاولی کے بیان کردہ ’’پرنس‘‘ ہوچکے ہیں۔وہ بادشاہ جس کا کوئی عزیز یا لاڈلا نہیں ہوتا۔
آ ئندہ چند روز ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں ہذیانی جذبات سے مغلوب ہوئے عمران خان صاحب کے شیدائی اور ان کے مخالفین اپنے اپنے ’’دلائل‘‘ ہمارے دلوں کوکوروناکا خوف بھلانے کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔اس تماشے کا ابتدائی رائونڈ اگرچہ وزیر اعظم نے جیت لیا ہے۔کرپشن کے خلاف ان کی نفرت واضح انداز میں نمایاں ہوگئی۔ اس حوالے سے کسی رحم کی گنجائش ان کے دل میں نظر نہیں آئی۔
اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوئے اذہان چند اہم ترین سوالوں کو چسکہ فروشی کے خمار میں لیکن بھلادیں گے۔ جورپورٹ برسرِعام آئی ہے اسے غور سے پڑھیں تو بآسانی دریافت ہوجاتا ہے کہ چینی پیدا کرنے والے دھندے کے وطنِ عزیز میں مٹھی بھراجارہ دارہیں۔ اس دھندے پر اجارہ داری کو مضبوط تر بنانے کے لئے ان میں سے کئی لوگوں نے براہِ راست سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیا۔اقتدار میں آئے تو ریاست پاکستان کی معیشت کے حوالے سے پالیسی سازی کے عمل پر بھی اپنا اجارہ قائم کرلیا۔حکومتیں ’’جمہوری‘‘ ہوں یا نیم جمہوری معاشی فیصلہ سازی ہمیشہ اجارہ داروں کی ترجیحات کی غلام رہی۔انگریزی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے Elite Capture۔سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بہت ہی مال دار صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے ریاستی فیصلہ سازی کے نظام پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔اس قبضے سے نجات کی راہیں ہم چسکہ فروشی کے خمار میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کریں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے دل وجان سے حامی بہت رعونت سے ہم عامیوں کو بتاتے ہیں کہ اس نظام میں حتمی فیصلہ ساز مارکیٹ یعنی منڈی ہوا کرتی ہے۔ منڈی بہت بے رحمی سے فقط طلب اور رسد کی منطق پر عمل کرتی ہے۔طلب اور رسد کی منطق اگرچہ جنگل کے قانون کی طرح ہوتی ہے جہاں اس کو بھرپور انداز میں سمجھنے والے ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ میرے اور آپ جیسے پیدائشی ’’فقرے‘‘ اس منطق کو بھلاتے ہوئے ’’کامیاب‘‘ کاروباری افراد کے حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
میں ذاتی طورپر وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہرگز حامی نہیں ہوں۔ اپنے خیالات نظرانداز کرتے ہوئے بھی یہ سوال اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان میں چینی پیدا کرنے والے ہماری اجتماعی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا کرنا شروع ہوگئے تھے تو بازار میں اس جنس کی قیمت طلب اور رسد کی منطق کے مطابق کم سے کم تر ہونا چا ہیے تھی۔فرض کیا کہ اجتماعی ضرورت سے زیادہ پیداوار ہونے کی وجہ سے بازار میں چینی کی قیمت بالآخر اسے پیدا کرنے کی لاگت سے بھی کم ہوجاتی تو اس دھندے سے متعلق کئی سیٹھوں کا دیوالیہ ہوجاتا۔وہ دوسرے کاروبار اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے۔
طلب اور رسد کی منطق کو نظرانداز کرتے ہوئے مگر چینی پیدا کرنے والوں کو یہ سہولت فراہم کی گئی کہ وہ اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہوئی چینی کو بیرون ملک فروخت کریں۔عالمی منڈی میں لیکن انہیں مناسب Ratesنہیں مل رہے تھے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے ان ’’بے چاروں‘‘ پر رحم کھاتے ہوئے انہیں سرکاری خزانہ سے ’’امدادی رقوم‘‘ فراہم کرنا شروع کردیں۔ سرکار کی فراہم کردہ ’’امدادی رقوم‘‘ کی بدولت سیٹھوں کے گودام خالی ہونا شروع ہوئے تو پاکستان کے بازاروں میں چینی ناپید ہونا شروع ہوگئی۔ اسی بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیٹھوں نے چینی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے منافع کمانا شروع کردیا۔
بنیادی حقیقت یہ رہی کہ ’’بحران‘‘ کبھی موجود ہی نہیں تھا۔چینی پیدا کرنے والے اجارہ دار ہماری اجتماعی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا کررہے تھے۔گوداموں میں ذخیرہ ہوئی چینی کو بالآخر ’’امدادی رقوم‘‘ کی مدد سے بیرون ملک بیچا۔ گودام خالی ہونے کے ساتھ مقامی طلب میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔اسے مزید منافع کمانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ’’چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو‘‘کا سفاکانہ اظہار۔ اس پورے عمل میں ہمیں سرکاری ’’ریگولیٹر‘‘ کہیں نظر نہیں آئے۔ ریاست نے میرے اور آپ جیسے صارفین کا تحفظ نہیں کیا۔ طلب اور ر سد کی منطق کو مکاری سے بھلادیا۔اجارہ داروں کی غلام ہوئی ان کے نخرے اٹھاتی رہی۔
عمران خان صاحب کی جرأت کو سراہنے یا جھلاہٹ سے اسے جھٹلانے سے فرصت ملے تو حکومتی پالیسی سازی پر اجارہ داروں کے مستحکم ہوئے قبضے کی بابت خلوص نیت سے غور کرنا ضروری ہے۔یہ غور ہی اجارہ داری کا توڑ فراہم کرسکتا ہے۔اس توڑ کو ڈھونڈنے اور اس کا اطلاق کئے بغیر ہم ہر سال مختلف دھندوں سے جڑے اجارہ داروں کے رحم وکرم پر ہی زندگی گزارتے رہیں گے۔