بھٹو کیس کے جج‘ کچھ دلچسپ حقائق
نواب محمد احمد خاں قتل کیس میں‘ بھٹو صاحب کیلئے سزائے موت کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کی طرف سے اس کی توثیق پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔ ہم قانونی حوالے سے اس کے میرٹس اور ڈی میرٹس کی بجائے‘ کچھ اور ”دلچسپ‘‘ حقائق کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ تب مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور انہی کی سربراہی میں (5ارکان پر مشتمل) فل بنچ نے بھٹو صاحب کیلئے سزائے موت کا متفقہ فیصلہ سنایا۔ ایک دور میں بھٹو مولوی صاحب کے ممدوح رہے تھے کہ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خاں (اور ان کی حکومت) کے تمام تر دباؤ کے باوجود ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بھٹو صاحب کے خلاف تمام مقدمات میں ”بلینکٹ بیل‘‘ کا حکم جاری کر دیا تھا جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب کو ساہیوال (تب منٹگمری) جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ کراچی کے بزرگ دانشور/ اخبار نویس نصیر سلیمی کو تویہ بھی یاد ہے کہ سیاسی مقدمات کے علاوہ‘ لاڑکانہ میں نصرت بھٹو زرعی فارم پر سرکاری مشینری کے استعمال کا ایک مقدمہ بھی بھٹو صاحب کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو مولوی صاحب کا یہ ”احسان‘‘ یاد تھا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ”نئے پاکستان‘‘ کے صدر مملکت (اور سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر) کے طور پر‘ وہ لاہور کے اصحابِ علم و دانش اور اربابِ صحافت و وکالت سے خطاب کیلئے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے آڈیٹوریم تشریف لائے۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین بھی اگلی صف میں تشریف فرما تھے۔ سٹیج کی طرف بڑھتے ہوئے بھٹو صاحب کی نظر پڑی تو رُکے اور سندھی روایت کے مطابق ان کے گھٹنے کو چھو کر تکریم کی۔
اسی میٹنگ میں بھٹو صاحب کی اپنے دوست‘ ترقی پسند اخبار نویس حسین نقی سے لفظی جھڑپ بھی ہوئی۔ بعد میں نقی صاحب‘ قریشی برادران اور شامی صاحب کے ساتھ کوٹ لکھپت جیل میں قید بھی رہے)۔
جناب جسٹس شیخ انوار الحق پروموٹ ہو کر سپریم کورٹ چلے گئے تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب کیلئے مولوی صاحب بھی سینیارٹی کی بنیاد پر ”امیدوار‘‘ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خود بھٹو صاحب بھی ”احسان‘‘ کا بدلہ چکانا چاہتے تھے‘ لیکن سمجھانے والوں نے سمجھایا کہ جو شخص فیلڈ مارشل کے دباؤ میں نہیں آتا تھا‘ آپ کی کہاں سنے گا؟ چنانچہ بھٹو صاحب نے جسٹس سردار اقبال کو چیف جسٹس بنا دیا۔ یہ الگ بات کہ سردار اقبال بھی ان کی توقعات پر پورا نہ اترے اور ان سے نجات کیلئے‘ آئین میں ترمیم کر کے چیف جسٹس کی ”مدت‘‘ چار سال مقرر کر دی گئی۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صفدر شاہ بھی اس ترمیم کی زد میں آ گئے۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت زیر عتاب سیاسی کارکنوں کو پشاور ہائی کورٹ سے ملنے والے ریلیف پر بھٹو صاحب چیف جسٹس صفدر شاہ سے بھی خوش نہیں تھے۔ (یہ وہی صفدر شاہ تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر‘ بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کیا )۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھٹو صاحب سپریم کورٹ میں اپیل میں چلے گئے۔ جہاں چیف جسٹس شیخ انوار الحق کی سربراہی میں 18مئی 1978ء کو سماعت کا آغاز ہوا۔ 9ارکان پر مشتمل اس فل کوٹ میں جسٹس قیصر خاں بھی تھے۔ 2ماہ بعد جولائی میں ان کی ریٹائرمنٹ تھی اور ان کی خواہش تھی کہ انہیں بنچ میں شامل نہ کیا جائے لیکن چیف جسٹس نے اسے مناسب نہ سمجھا کہ سپریم کورٹ کے باقی تمام جج صاحبان تو بنچ میں موجود ہوں اور جناب قیصر خاں اپنے چیمبر میں بیٹھ کر ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے رہیں۔ جناب قیصر خاں اپنی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے۔ بنچ کے ایک اور رکن جسٹس وحید الدین فالج کے شدید حملے میں معذور ہو گئے۔ وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے؛ چنانچہ وہ بھی بنچ سے الگ ہو گئے۔ (جسٹس وحید الدین کے صاحبزادے جسٹس وجیہہ الدین سپریم کورٹ کے ان 6ججوں میں شامل تھے جنہوں نے جنرل مشرف کے پہلے پی سی او (2000ء) کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری والی موومنٹ میں بھی وہ بہت ایکٹو تھے۔ کچھ عرصہ وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی میں بھی رہے)۔
سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران‘ بھٹو صاحب کا خطاب (مختلف ایام میں) تقریباً 12گھنٹوں پر محیط تھا‘ جس میں انہوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس میں 1973ء کا آئین بھی تھا اور اس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی ترمیم بھی شامل تھی‘امت ِمسلمہ کیلئے ان کی خدمات کے ضمن میں 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا حوالہ بھی تھا۔ فل بنچ نے بھٹو صاحب کے خطاب کے دوران کسی لمحے مداخلت نہ کی‘ صرف ایک بار جناب چیف جسٹس نے یاد دہانی کرائی کہ آپ جو کچھ فرما رہے ہیں یہ سب دلچسپ ہے لیکن آپ موضوع زیر بحث کی طرف توجہ دینا بھی پسند کریں گے؟ اس پر بھٹو صاحب کا جواب تھا ” یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے‘ گھناؤنے پلاٹ والا ایک ناول ہے‘ ایک من گھڑت داستان ہے‘ میں نے کسی کے قتل کی کوئی سازش نہیں کی تھی۔ یہ ایک مریض ذہن کی یاوہ گوئی اور مکروہ خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔
سپریم کورٹ نے 2فروری 1979ء کو فیصلہ سنا دیا۔ کثرتِ رائے کے ساتھ اس فیصلے میں‘ بھٹو صاحب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا (سزائے موت کا) فیصلہ برقرار رکھا گیا تھا۔ 825صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ خود چیف جسٹس صاحب نے تحریر کیا تھا۔ جسٹس محمد اکرم‘ جسٹس کرم الٰہی چوہان اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے فیصلے سے اتفاق‘ جبکہ جسٹس محمد حلیم‘ جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس دراب پٹیل نے اختلاف کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست فل کورٹ نے اتفاق رائے کے ساتھ مسترد کر دی۔لیکن ابھی ”عشق کے کچھ اور امتحاں‘‘ باقی تھے۔ جسٹس صفدر شاہ کے بیرون ملک چلے جانے کی کہانی الگ ہے۔ ان کی جگہ فخر الدین جی ابراہیم آ گئے۔ سزائے موت سے اختلاف کرنے والے جسٹس محمد حلیم اور جسٹس دراب پٹیل پوری آن بان شان کے ساتھ سپریم کورٹ میں موجود رہے‘ یہاں تک کہ 23مارچ 1981ء کا پی سی او آ گیا۔ چیف جسٹس انوار الحق کا نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ‘ حکومت کی گلے کی ہڈی بن گیا تھا‘ جس میں 1973ئ کے آئین کو ملک کے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل تھی اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر (اور ماتحت مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز) کے کسی بھی حکم‘ کسی بھی اقدام کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا تھااور عدالتیں انہیں کالعدم بھی قرار دے دیتی تھیں۔ مارشل لا کے قیدی بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اصل مارشل لا والے اسے ” جوڈیشل مارشل‘‘ لا قرار دینے لگے‘ جس میں ان کی کوئی شنوائی نہیں تھی؛ چنانچہ ”گلشن کا کاروبار‘‘ چلانے کیلئے 1973ء کے آئین کی جگہ پی سی او لانا ضروری ہوگیا۔ چیف جسٹس انوار الحق کیلئے یہ صورتحال ناقابلِ قبول تھی۔ وہ اسے نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار دے رہے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اس کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر کے گھر کی راہ لی۔ (حالانکہ ابھی چیف جسٹس کے طور پر ان کا ڈیڑھ سال باقی تھا۔ جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے بھی اپنے چیف جسٹس کی پیروی کی۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین کو حلف اٹھانے کی دعوت ہی نہ دی گئی۔
بھٹو صاحب کی سزائے موت سے اختلاف کرنے والے جسٹس محمد حلیم پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس ہو گئے اور ضیا الحق کے باقی ماندہ پورے عرصے سمیت 31دسمبر 1989ء تک اس منصب پر فائز رہے۔