اِن اور آؤٹ
یادش بخیر ہفت روزہ دھنک کے دورِ عروج میں مالک ایڈیٹر سرور سکھیرا ’’اِن اور آئوٹ‘‘ کے عنوان سے نامی گرامی لوگوں کی سرگرمیاں، اقتدار کی گردشوں میں عروج و زوال اور تازہ حالات کی مختصر کہانیاں لکھا کرتے تھے۔
سرور سکھیرا بہت بارسوخ اور بااثر تھے، اُنہیں اندر کی بہت سی باتوں کا علم ہوتا تھا جبکہ یہ عامی صحافی اپنا کام اندازوں سے چلاتا ہے بہرحال کوشش کرنے میں ہرج کیا ہے؟
ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی اسکینڈل طشت ازبام ہوتا ہے تو اس کی دو پرتیں ہوتی ہیں۔ ایک پرت تو وہ جو ظاہری طور پر نظر آ رہی ہوتی ہے اور ایک دوسری پرت جو بظاہر نظر تو نہیں آتی مگر آنے والے دنوں میں اسکے سیاسی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ آٹا اور چینی اسکینڈل بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے جس کے سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔
80کی دہائی میں کوآپریٹو اسکینڈل آیا تو شریف اور چوہدری خاندان زد میں آ گئے، سرے پیلس، سوئس اکائونٹس، پارک لین ہائوس اور پھر پاناما اسکینڈل، ہر ایک کے ظاہری اور خفیہ سیاسی پہلو تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسکینڈل اور کمیشن رپورٹس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
چینی اسکینڈل کے بارے میں کمیشن بہت بااختیار اور طاقتور تھا، جناب واجد ضیا جنہوں نے پاناما کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ بنائی تھی وہی اس کمیشن کے سربراہ بھی تھے۔ اس کمیشن کے پیچھے اصل میں کون سے عوامل ہیں، یہ آنے والے دنوں میں ہی پتا چل سکے گا۔
ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ خانِ اعظم نے کرپشن کے خاتمے کے لئے کمیشن کو فری ہینڈ دیا تاکہ وہ کسی خوف، لالچ یا دبائو سے آزاد ہو کر فیصلہ کرسکے، حتمی فرانزک فیصلہ تو 25اپریل کو آئے گا لیکن جو بڑے بڑے نام آئے ہیں اگر وہی برقرار رہے تو خانِ اعظم کیا انہیں وزارتوں میں رکھیں گے؟
ان کے خلاف کیا کارروائی کریں گے؟ نیا سیاسی کھیل انہی دو سوالوں کے جوابات سے شروع ہو گا کیونکہ اگر وہ وزارتوں میں رہے تو خانِ اعظم پر اخلاقی دبائو پڑے گا اور اگر وزارتوں سے نکالے گئے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو وہ گھر نہیں بیٹھیں گے، نئی سیاست کریں گے جو ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف ہو گی۔
اِن اور آئوٹ کی گیم میں اسد عمر آج کل پھر سے اِن ہو گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ شوگر اسکینڈل کو باہر لانے اور اعلیٰ ترین لودھروی کو فکس کرنے میں اعظم خان پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اور اسد عمر پیش پیش تھے۔ اُنہیں امید ہے کہ اس ماسٹر اسٹروک سے وہ دیرینہ حریف ترین لودھروی کو مکمل ’’آئوٹ‘‘ کر دیں گے۔
وزیراعظم کی ٹیم کا خیال ہے کہ 25اپریل کے بعد جب وزیراعظم ایکشن لیں گے تو وزیراعظم اخلاقی لحاظ سے بہت بلند سطح پر چلے جائیں گے جس کا بےشمار سیاسی فائدہ ہو گا، سب کا یہ تاثر پختہ ہو گا کہ وزیراعظم کرپشن کے حوالے سے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔
اس طرح سے ان کی گورننس کے بارے میں جو سوال اٹھ رہے تھے وہ سب دب جائیں گے اور عمران خان کے لئے تالیوں کا شور اور نعروں کی گونج اتنی بڑھ جائے گی کہ عمران کی عوامی مخالفت مشکل ہو جائے گی۔ اس اخلاقی برتری پر میڈیا بھی وزیراعظم کا ساتھ دے گا اور یوں پی ٹی آئی مزید طاقتور ہو گی۔
آیئے اب اس اسکینڈل کی دوسری پرت کو دیکھیں۔ فرض کریں وزیراعظم نے ترین لودھروی، مخدوم میانوالی قریشیاں، دریشک راجن پوری، چوہدری گجراتی اور ہمایوں اختر برادرز کے ناموں اور مفادات کو زک پہنچائی تو ہو سکتا ہے کہ وہ وقتی طور پر تو خاموش رہیں لیکن ان کی اگلی سیاست پھر وزیراعظم کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے خلاف ہو گی۔
سو اس اسکینڈل کا دوسرا خطرناک رُخ یہ ہے کہ وزیراعظم مقبول تو ہوں گے، اصول پرست مشہور ہوں گے مگر سیاسی طور پر اکیلے ہو جائیں گے، بہت سے ساتھیوں کو الگ کریں گے تو ان کی طاقت کم ہو گی۔ ماضی میں بھی وزیراعظموں سے اخلاقی برتری کے نام پر وزیروں، مشیروں کو نکلوایا گیا، وزیراعظم کو کمزور کیا گیا اور بعد ازاں یہی نکلے ہوئے وزیر اور مشیر آنے والے ادوار میں نوازے گئے۔
کورونا وائرس نے وزیراعلیٰ بزدار کو ایک بار پھر سے ’’اِن‘‘ کر دیا ہے۔ وزیراعظم تو ہمیشہ سے ہی ان کے معترف رہے ہیں اب وہ اپنے ساتھیوں کو بھی اس بات پر قائل کر رہے ہیں۔ دورئہ لاہور کے دوران انہوں نے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد جہلمی اور وزیراعلیٰ بزدار کی صلح صفائی کروائی۔
وزیراعلیٰ گزشتہ دنوں چوہدری فواد کو بتائے بغیر ہی جہلم کادورہ کر آئے جس پر فواد جہلمی نے سخت برا منایا مگر وزیراعظم نے معاملات کو خرابی سے بچاتے ہوئے مسائل کا حل نکالنے پر زور دیا اور فی الحال دونوں طرف سیز فائر کروا دیا ہے۔
سیاست کی دنیا میں کورونا کے خلاف لڑائی میں سرفہرست رہنے پر مراد علی شاہ پھر اِن ہو گئے ہیں مگر بنی نالہ اور اسلام آباد میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، لطائف سنائے جاتے ہیں، لاک ڈائون پر طنز و تشنیع کی جاتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ لاک ڈائون پر عمل بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ بلاول بھٹو اس دور میں پنجاب میں ’’اِن‘‘ ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ وقت اور موقع بہت مناسب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی کے لئے پنجاب میں خیر سگالی اور تعریف کے جذبات پیدا ہوئے ہیں کیا بلاول ان کو مزید مضبوط تقویت دے سکیں گے؟
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پاکستان میں تو ’’اِن‘‘ ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں فی الحال ’’اِن‘‘ ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی جرأت مندانہ وطن واپسی سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ انہیں آتے ہی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
ن لیگ کا خیال ہے کہ حالات جوں کے توں بھی رہے تو اگلے الیکشن میں وہ پنجاب میں مارجن سے جیت جائیں گے لیکن اصل بات یہ ہے کیا الیکشن تک حالات جوں کے توں رہیں گے یا بیچ میں بہت سے لوگ اِن اور آئوٹ ہوں گے۔ اس دوران حالات کون کونسی کروٹ لیں گے یہ بھی دیکھنا ہو گا۔
نون لیگ کو ایک طرف تو اپنے ووٹ بینک اور پارٹی بچانے کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف اندرونی بیانیے کا تضاد بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف دو متضاد بیانیوں کے درمیان سے اپنی پارٹی کو کیسے لے کر چلیں گے یہ ان کے لئے بڑا امتحان ہے۔
نون لیگ کی لیڈر شپ کی حکمت ِ عملی یہ لگتی ہے کہ بیانیے کے تضاد سے بچ کر سیاست کی جائے اور وقت گزارا جائے۔ جب مناسب وقت آئے اس وقت بیانیے کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اس حکمت ِ عملی میں مشکل یہ ہو گی اگر اچانک کوئی سیاسی مسئلہ آ گیا اور یہ تضادات موجود رہے تو پھر ’’ن‘‘ کے لئے سیاسی سوالات کے جواب دینا مشکل ہو گا۔
آخر میں سیاست سے ہٹ کر اصل بات یہ ہے کہ اس وقت تو صرف کورونا اِن ہے باقی سب کچھ آئوٹ ہے۔ کورونا آئوٹ ہو گا تو سیاست اور معمول کی زندگی ’’اِن‘‘ ہو گی۔