پاکستان

کورونا وائرس: بیرونِ ملک پاکستانیوں کو نکالنے والے پائلٹس ’حفاظتی انتظامات‘ سے ناخوش کیوں؟

Share

کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا کے مختلف ممالک کی سرحدیں بند ہونے اور فضائی سفر معطل ہونے کے باعث بڑی تعداد میں پاکستانی شہری مختلف ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔

دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستانی حکومت نے بھی اپنے شہریوں کو واپس لانے کے لیے حال ہی میں خصوصی پروازوں کا آغاز کیا تھا۔ یہ پروازیں ملک کے تین بڑے ہوائی اڈوں اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے چلائی جا رہی تھیں۔

تاہم پی آئی اے نے کراچی سے سروس معطل کر دی ہے اور پاکستان میں پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پاکستان ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے ملک بھر کے پائلٹس کو ’کورونا کی حالیہ صورتحال میں موزوں حفاظتی اقدامات کے بغیر جہاز نہ اڑانے کے تلقین کی ہے۔‘

یہ ہدایات اس وقت سامنے آئی ہیں جب حال ہی میں پی آئی اے کی ایک پرواز لاہور پہنچنے پر کچھ پائلٹس میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ عملے کے پانچ افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پی آئی اے کی یہ پرواز کینیڈا کے شہر ٹورونٹو سے پاکستانی شہریوں کو لے کر واپس پہنچی تھی۔

جہاز کے عملے اور مسافروں کی حفاظت کے انتظامات کو غیر موزوں قرار دیتے ہوئے پالپا نے حال ہی میں وفاقی وزیرِ ہوابازی کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے کئی بار پی آئی اے کی انتظامیہ کی توجہ ’ناقص حفاظتی اقدامات کی جانب مبذول کروائی ہے تاہم اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘

پالپا کے صدر کیپٹن چوہدری سلمان کی طرف سے لکھے خط میں کہا گیا ہے کہ ’جہاز کے عملے کے افراد کو انتہائی خطرناک صورتحال میں ڈالا جا رہا ہے جس سے ان کی اور ان کے خاندان والوں کی صحت پر دور رس اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر کی طرف سے اس معاملے پر مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے ’وہ پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون واپس لینے پر مجبور ہیں۔‘

پی آئی اے

پائلٹس کیسے متاثر ہوئے؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ تین پائلٹس میں تاحال کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے تاہم پالپا کے ترجمان محمد نوید کا کہنا تھا کہ متاثرہ پائلٹس کی تعداد چار ہو چکی ہے۔

تاہم پائلٹس کورونا کے شکار کیسے ہوئے اور اس کی وجہ سے پالپا کو تشویش کیوں ہے؟

پالپا کے ترجمان محمد نوید کے مطابق چاروں پائلٹ کینیڈا سے لاہور آئے تھے تاہم وہ جہاز اڑا نہیں رہے تھے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ پائلٹس لاک ڈاؤن کی وجہ سے گذشتہ 14 روز سے کینیڈا میں پھنسے ہوئے تھے اور لاہور کی پرواز پر مسافروں کے طور پر سفر کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام متاثرہ پائلٹس کو ایک نجی ہسپتال میں رکھا گیا تاہم عملے کے پانچ افراد جن کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں انھیں ایکسپو سنٹر لاہور میں قائم فیلڈ ہسپتال میں منتقل کیا گیا ہے۔

پالپا کو کن حفاظتی اقدامات کے نہ ہونے پر تشویش ہے؟

پالپا نے وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان کو جو خط لکھا ہے اس کے ساتھ پائلٹس کے جانب سے لکھے گئے ڈی بریف بھی لگائے ہیں جو انھوں نے مخلتف فلائٹس کے بعد ’ناقص انتظامات‘ کے حوالے سے تحریر کیے تھے۔

ان میں کہا گیا ہے کہ گلگت سے اسلام آباد آنے والی حالیہ پرواز میں جراثیم کش سپرے نہیں کیا گیا۔ کپتان کی طرف سے لکھے گئے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جب انجینیئرنگ کے عملے سے سپرے نہ کرنے کے وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جراثیم کش ادویات کی قلت ہے۔

پرواز کے پائلٹ نے لکھا کہ انھیں بتایا گیا کہ انجینیئرنگ کے عملے کو صرف ایک کنٹینر دیا گیا تھا۔ ’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پورے جہاز کو صاف کرنے کے لیے صرف ایک کنٹینر کیسے کافی ہو سکتا ہے۔‘

اسی طرح ایک اور ڈی بریف میں بتایا گیا کہ حال ہی میں کینیڈا جانے والی ایک پرواز میں 40 فیصد مسافروں کو ماسک فراہم نہیں کیا گیا۔ جہاز کے کپتان کی نشاندہی پر ماسک جہاز میں پہنچائے گئے جس کی وجہ سے پرواز میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہوئی جبکہ ’ایس او پی کے مطابق بغیر ماسک کے مسافر جہاز میں نہیں پہنچ سکتا۔ مسافروں کی سکریننگ کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔‘

’عملے کو ضروری سامان نہیں دیا گیا‘

اسی طرح اتوار کے روز فلائٹ نمبر 9702 کے کپتان نے اپنے ڈی بریف میں لکھا کہ جہاز کے کاک پٹ کے عملے اور فضائی میزبانوں کو فیس ماسک، دستانے اور سینیٹائزر فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ ’عملے کے کافی اصرار پر انھیں ماسک اور سینیٹائزر فراہم کیے گئے لیکن بتایا گیا کہ دستانے دستیاب نہیں ہیں۔‘

ترکی کے شہر استنبول سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی کے 782 کے کپتان نے لکھا کہ جہاز کے فضائی میزبانوں کو ضرورت کے مطابق فیس ماسک اور دستانے فراہم نہیں کیے گئے اور جو دیے گئے وہ تمام ایک ہی سائز کے تھے جس کی وجہ سے ان تمام کی افادیت ختم ہو گئی۔

پی آئی اے
پیر کو ازبکستان میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے قومی ائیر لائنز کا ائیر بس طیارہ پی کے 9812 استعمال کیا گیا جس کی مدد سے عملے سمیت 147 افراد واپس پاکستان لوٹنے میں کامیاب ہوئے

’کیونکہ جہاز کے عملے نے مسافروں کے بہت قریب رہ کر کام کرنا ہوتا ہے اور ان کا براہِ راست مسافروں سے رابطہ ہوتا ہے اس لیے ان کو تمام حفاظتی سامان کی فراہمی ضروری ہے۔ آئندہ اس قسم کے انتظامات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے۔‘

پی آئی اے کا کیا کہنا ہے؟

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’انتظامیہ پائلٹس کے تمام خدشات کا حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاز کے عملے اور مسافروں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات جنگی حالات کی نسبت تھے جس میں ’پی آئی اے اور اس کا تمام عملہ کسی پرواہ کے بغیر بیرونِ ملک میں پھنسے پاکستانی شہریوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ کمپنی کی طرف سے یہ یقینی بنایا جا رہا تھا کہ تمام جہازوں پر ہر پرواز سے قبل جراثیم کش سپرے کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عملے کو تمام تر ضروری حفاظتی سامان مہیا کیا جا رہا تھا۔

’پرواز کے دوران جو اخبارات دیے جاتے تھے وہ روک دیے گئے ہیں۔ اسی طرح پرواز کے دوران مسافروں کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ ایسے برتنوں میں دیا جا رہا ہے جو مسافر از خود تلف کر سکتے ہیں تاکہ عملے کے افراد کو انھیں چھونے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔‘

کراچی سے پروازیں کیوں روک دی گئیں؟

پی آئی اے نے پیر کے روز کراچی سے جاری خصوصی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے پس منظر میں وہ واقعہ تھا جس میں کراچی ایئر پورٹ پر موجود مقامی محکمہ صحت کے عملے نے لندن سے آنے والی پرواز کے عملے کو ’زبردستی قرنطینہ میں رکھا۔‘

پی آئی اے کے ترجمان عبدللہ حفیظ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایئرپورٹ پر موجود محکمہ صحت کے عملے کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ جہاز پر موجود عملے نے جہاز کو نہیں چھوڑا تھا اس لیے ان کو قرنطینہ میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

تاہم ان کی کراچی آمد پر صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کے حکام نے عملے کے چار افراد کو قرنطینہ میں رکھنے پر اصرار کیا۔ انھیں ایک مقامی ہوٹل میں رکھا گیا تاہم بعد ازاں ان کے ٹیسٹ آنے پر ان میں کورونا کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔

اس واقعے کے بعد پی آئی اے نے کراچی سے پروازیں اس وقت تک معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جب تک حکومت کے محکموں کے درمیان اس حوالے سے یکساں پالیسی سامنے نہیں آ جاتی۔