بہت عرصے تک مانعِ حمل کے صرف دو ایسے طریقے تھے جن کا تعلق راہِ راست مردوں سے تھا۔ وہ یا تو کونڈوم پہن سکتے تھے یا پھر ایک وسیکٹمی نامی سرجری کروا سکتے تھے جس میں ان نالیوں کو بند کر دیا جاتا ہے جن کے ذریعے سپرم عضوِ تناسل تک پہنچتا ہے۔ مردوں کے لیے مانعِ حمل گولی اور جِل اب تک تیار کیے جا رہے ہیں۔
تاہم انڈیا میں جلد ہی مردوں کے لیے ایک مانعِ حمل ٹیکہ متعارف کروایا جا رہا ہے۔ کیا یہ وہ مانعِ حمل طریقہ ہوگا جو مردوں کے لیے کامیاب رہے گا؟
دلی میں مقیم 78 سالہ بائیو میڈیکل انجنیئیر سوجوئے گاہا کا تیار کردہ یہ ٹیکہ ایک سنگل شاٹ ٹیکہ ہے جو کہ ان نالیوں میں لگایا جاتا ہے جو کہ سپرم کو عضوِ تناسل تک لے کر جاتی ہیں۔ لوکل انستھیزیا کے ساتھ لگایا جانے والا یہ ٹیکہ ہارمونل نہیں ہے اور محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ٹیکہ 13 سال تک موثر رہے گا۔
کئی سالوں تک انسانوں پر ٹیسٹ کیے جانے کے بعد ’ریزگ` نامی یہ دوا اب مارکیٹ میں متعارف کروائی جانے کے لیے تیار ہے۔ یہ ٹیکہ ایک جِل ہے جو کہ سپرم کو غیر موثر کر دیتا ہے۔ اس دوا کے اثرات قابلِ واپسی بھی ہیں۔ تاہم اس پروسیجر کا دوسرا حصہ جس کے تحت اس دوا کے اثرات کو واپس کیا جا سکے، ابھی تک انسانوں پر ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے، اگرچہ وہ جانوروں میں کامیاب رہا ہے۔
اور دوسرے طریقوں کی طرح مانع حمل انجیکشن بھی جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھ پائے گا۔
دلی میں واقع انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے تولیدی ماہر اور اس دوا کے مرکزی محقق ، آر ایس شرما کا کہنا ہے ’مردوں کے لیے بنایا گیا یہ مانع حمل انجیکشن عالمی معیار کا ہوگا۔ یہ محفوظ اور موثر ہے اور طویل عرصے تک کام کرے گا۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں اس کی پیداوار کے لیے اجازت مل جائے گی۔‘
لیکن کیا یہ واقعی قابلِ واپسی مانع حمل دوا ہے؟ اس حوالے سے کافی سوالات کیے جا رہے ہیں۔
کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’ریزگ‘ سرجیکل وسیکٹمی کا ایک ایسا متبادل ہے جس کی افادیت سے انڈین محققین پوری طرح انکار نہیں کرتے۔
واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے ایک تولیدی ماہر مائیکل سکننر نے مجھے بتایا ’قابلِ واپسی مانع حمل دوا کے طور پر اس کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ابھی تو یہ صرف نس بندی کا ایک طریقہ لگا رہا ہے۔ انجیکشن کو مانع حمل دوا کے طور پر قابلِ استعمال بنانے سے پہلے اس کے قابلِ واپسی ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔‘
ڈاکٹر گاہا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’ہم ابھی اس کے قابلِ واپسی ہونے کا دعویٰ نہیں کریں گے تاہم مجھے یقین ہے کہ انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کے بعد ہم ایسا کر سکیں گے۔ ابھی ہم اس دوا کو وسیکٹمی کا ایک بہتر حل کہہ رہے ہیں۔ یہ مردوں پر تکلیف دہ اثرات نہیں چھوڑے گا اور کوئی سرجری کا نشان بھی نہیں ہوگا۔‘
اسی سال ڈاکٹر شرما نے اس دوا کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج شائع کیے تھے۔ 41 سال سے کم عمر کے کم از کم دو بچوں والے 139 شادی شدہ مردوں کو یہ ٹیکہ لگایا گیا اور چھ ماہ تک ان کی نگرانی کی گئی۔ ان میں سے 133 مردوں کی بیویاں سیکس کے بعد حاملہ نہیں ہوئیں۔ جن چھ مردوں پر یہ دوا کام نہیں کی، ان کیسز میں ٹیکے کی سرنج سے یا پھر سپرم لے جانے والی نالیوں سے لیکج کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
تاہم واشنگٹن یونیورسٹی کی محقق ڈاکٹر سٹیفنی پیج کے لیے یہ بظاہر انتہائی کم ناکامی کی شرح بھی اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں ’یہ شرح اور اس دوا کے ممکنہ منفی اثرات شاید وسیکٹمی سے زیادہ مختلف نہ ہوں۔ اس حوالے سے اور ڈیٹا کی ضروت ہے۔‘
پروفیسر پیج کہتی ہیں کہ اگرچہ اب تک اس دوا پر کی جانے والی تحقیق مثبت ہے مگر ان کے خیال میں اس ٹرائل میں شریک ہونے والوں کی تعداد 139 قدرے کم ہے اور چھ ماہ کا عرصہ بھی ابھی ناکافی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’یہ دوا ایک اگلا قدم ضرور ہے لیکن اسے گیم چینجر نہیں کہا جا سکتا۔‘
انڈین محقیقین کا کہنا ہے کہ ریزگ نے انسانوں پر تجربات کے تین مراحل پاس کر لیے ہیں۔ اور سنہ 1990 سے ملک بھر میں بنائے گئے بہترین پروسیجرز کا استعمال کرتے ہوئے 500 سے زیادہ رضاکاروں پر یہ تجربات کیے گئے ہیں۔
حمل روکنے میں اس دوا کی افادیت واضح کرنے کے لیے تین دہائیوں میں دوائیوں سے متعلق دو درجن سے زیادہ تحقیقتات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ انجیکشن کم قیمت میں دستیاب ہو گا اور حمل روکنے کے لیے طویل عرصہ تک کارآمد ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رضاکاروں نے لبیڈو کے ضیاع یا کسی اور سائیڈ افیکٹ کی شکایت نہیں کی ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ انڈیا کے ڈرگ ریگولیٹر جلد ہی اس دوا کو پیداوار اور فروخت کے لیے گرین لائٹ دے دیں گے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ انڈین حکومت خود یہ کام کرے گی۔
یہی وقت ہے کہ مرد بھی موثر مانع حمل طریقے اختیار کریں۔ دہائیوں سے عورتیں ہی بغیر منصوبہ بندی والے حمل کا بوجھ اٹھاتی آ رہی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ چونکہ حمل اور پیدائش کے خطرات برقرار ہیں۔ لہذا خواتین کے لیے محفوظ اور موثر مانع حمل دوا تیار کرنے کی ضرورت مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ سائنسی اور معاشرتی کوششوں نے خواتین کے لیے مانع حمل طریقوں پر زیادہ توجہ دی ہے۔
امریکہ میں مانع حمل کی پہلی گولی دستیاب ہونے کے لگ بھگ 60 سال بعد آج خواتین بغیر منصوبہ بندی والے حمل کو روکنے کے لیے ایک درجن سے زائد طریقوں پر انحصار کرتی ہیں جن میں گولیاں، پیچز، انجیکشن، امپلانٹ، رنگز، اور کپ وغیرہ شامل ہیں۔
ریزگ میں بین الاقوامی دلچسپی بھی بہت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر گاہا نے اس دوا کا لائسنس امریکی شہر برکلی میں قائم ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم پارسیمس فاؤنڈیشن کو دیا ہے تاکہ وہ اسے امریکہ میں متعارف کروا سکیں اور اس سے منسلک ایک اور مانع حمل دوا ویسل جل بھی قبل از کلینکل ٹرائلز میں ہے۔ ساتھ ساتھ اس دوا کے کلینکل ٹرائلز یورپ کے چھ ممالک میں جاری ہیں۔ بل اور ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی ایک گرانٹ کی مدد سے ڈاکٹر گاہا عورتوں کے لیے بھی ایک ایسی ہی دوا تیار کر رہے ہیں جو کہ ایک ٹیکہ ہو اور حمل کو روک دے۔
تو کیا مرد اس عمل میں اب اپنا کردار ادا کریں گے؟
انڈیا جیسے مرد پرست معاشرے میں مردوں میں مانعِ حمل ادویات کا استعمال کم ہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد شادی شدہ جوڑے کونڈوم استعمال نہیں کرتے۔ مردوں کے وسیکٹمی کروانے کی شرح تو انتہائی کم ہے۔ آخر میں خواتین کی نس بندی ہی مانعِ حمل کا مقبول ترین طریقہ ہے۔
تاہم محققین کا ماننا ہے کہ دنیا بھر میں رویے تبدیل ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر پیج کہتی ہیں ’وقت اور رویے دنیا بھر میں بدل رہے ہیں۔ مردوں کے مانعِ حمل میں کردار کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ایسا کرنے کے راستے بہت کم ہیں۔ اس فیلڈ کا ہدف یہ ہے کہ مردوں کو اس سلسلے میں آپشنز دی جائیں۔ اس کے بعد ہی مرد اس کی ذمہ داری اپنی ساتھیوں سے ہٹا کر اپنے کندھوں پر لیں گے۔‘
اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ریزگ وہ کامیاب دوا بن پائے گی جس کی مردوں کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔