صحت

’سلیپ اپنیا‘: وہ لوگ جنھیں نیند کے دوران سانس رکنے کی بیماری ہوتی ہے

Share

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں مر رہا ہوں۔ دن کے وقت میں اتنا تھکا ہوا محسوس کرتا تھا کہ اکثر میرے گھٹنے اکڑ جاتے، ڈرائیونگ کرتے ہوئے مجھے نیند کا جھونکا آ جاتا اور پھر میں اپنے آپ سنبھالتا۔ میرے چہرے پر تھکاوٹ نمایاں رہتی تھی۔

رات کے وقت میں وقفے وقفے سے سوتا، ٹانگیں ہلتی رہتیں، اور پھر اچانک دم گھٹنے سے میری آنکھ کھل جاتی، دل تیزی سے دھڑک رہا ہوتا تھا۔

میرے ڈاکٹر پریشان تھے۔ انھوں نے خون اور پیشاب ٹیسٹ اور الیکٹرو گرام کروانے کا کہا۔ شاید انھیں لگا کہ یہ مسئلہ دل کی کسی بیماری کی وجہ سے ہے۔

نہیں میرا دل ٹھیک تھا۔ میرا خون ٹھیک تھا۔

انھوں نے کولونو سکوپی کا کہا۔ یہ سنہ 2008 کے آواخر کی بات ہے، میں اس وقت 47 سال کا تھا۔ چنانچہ میں نے چار لیٹر نلیٹیلی کو پیا تاکہ میری آنتیں صاف ہو جائیں اور گیسٹرو اینٹولوجسٹ ٹھیک طریقے سے ان کے اندر دیکھ سکے۔

جب مجھے ہوش آئی تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میری بڑی آنت بالکل ٹھیک تھی۔ کوئی کینسر نہیں تھا، رسولی نہیں تھی۔ تاہم ایک چیز غیر معمولی تھی۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ ’جب آپ نیند میں تھے تو آپ نے ایک مقام پر پہنچ کر سانس لینا بند کر دی تھی۔ آپ کو اسے چیک کر لینا چاہیے، اسے سانس کی عبوری بندش یا ’سلیپ اپنیا‘ کہتے ہیں۔‘

میں نے پہلے اس کے متعلق کبھی نہیں سنا تھا۔

نیند میں جسم میں متحرک تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ مختلف مراحل سے مل کر بنتی ہے اور جوں جوں آپ اس سے گزرتے ہیں آپ کی سانس، آپ کا بلڈ پریشر اور آپ کے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا اور کم ہوتا رہتا ہے۔ جب آپ اٹھ بھی جاتے ہیں تو آپ کے پٹھوں میں تناؤ اسی طرح رہتا ہے۔

یہ صرف آر ای ایم مرحلے کے دوران نہیں ہوتا جس میں آپ کی نیند کا ایک چوتھائی حصہ ہوتا ہے۔ اس دوران اکثر اہم پٹھے کافی حد تک آسان باش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے گلے کے پٹھے زیادہ آرام دہ ہو جائیں تو آپ کی سانس کی نالی کام کرنا بند کر دیتی ہے اور یہ بلاک ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ سانس کی عبوری بندش یا ’سلیپ اپنیا‘۔ سلیپ اپنیا یونانی لفظ ’اپونیا‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب پھولی ہوئی سانس ہے۔

’سلیپ اپنیا‘

’سلیپ اپنیا‘ میں آپ کی ہوا کی ترسیل میں متواتر مداخلت درپیش رہتی ہے، جس کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ ہلتے ہیں، ہانپتے ہیں اور سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ایک رات میں سینکڑوں مرتبہ ہو سکتا ہے اور اس کے بُرے اثرات بہت زیادہ اور شدید ہیں۔

پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں۔

’سلیپ اپنیا‘ کا برا اثر دل پر بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے خون پمپ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

آکسیجن لیول کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شریانوں میں مادہ جمع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اورفالج کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

90 کی دہائی کے وسط میں یو ایس نیشنل کمیشن آن سلیپ ڈس آرڈرز ریسرچ کے اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال تقریباً 38000 افراد دل کی اُن بیماریوں سے مر رہے تھے جو اپنیا کی وجہ سے مزید بگڑ گئی تھیں۔ اس بات کے بھی قوی شواہد ملے ہیں کہ یہ حالت گلوکوز میٹابولزم پر اثر انداز ہوتی ہے جو ٹائپ 2 ذیابیطس کی وجہ بنتا ہے اور اس سے وزن بھی بڑھتا ہے۔

اس کے بعد پوری رات ٹھیک طریقے سے نہ سونے کی تھکن بھی ہے، جس کا تعلق یادداشت میں خرابی، پریشانی اور ڈپریشن سے ہے۔ کم نیند آنے سے توجہ پر بھی اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کے حادثات ہوتے ہیں۔

سنہ 2015 میں سویڈن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ سے حادثات ڈھائی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ دفاتر سے غیر حاضری کا سبب بنتا ہے جس کا نتیجہ نوکریوں سے لوگوں کو نکالے جانے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو ’سلیپ اپنیا‘ ہوتا ہے ان کے 18 سال میں مرنے کے امکانات ان سے زیادہ ہوتے ہیں جنھیں یہ نہیں ہوتا۔

’سلیپ اپنیا‘

لیکن اس کے متعلق بھی سگریٹ نوشی کی طرح جب پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ یہ خطرناک ہے سنجیدگی نہیں دکھائی گئی اور لوگوں نے اسے ایک خطرہ نہیں سمجھا۔

امیریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ’وہ سلیپ اپنیا سے ہونے والی دوسری شدید بیماریوں سے اس کا تعلق جوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔‘ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 12 فیصد بالغ افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن 80 فیصد میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوتی۔ یہ پھیلاؤ عالمی طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔ سنہ 2019 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد ہلکے سے شدید ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہوتے ہیں۔

اب اس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ میڈیکل سائنس اس کا کوئی حل نکالنے کر سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں جو ایک ارب یا اس سے زیادہ لوگ ’سلیپ اپنیا‘ کا شکار ہیں انھیں شاید اس کے متعلق پتا بھی نہیں ہے، علاج کرانا تو دور کی بات ہے۔

مجھے اس کی ذہنی کیفیت کے متعلق پتا ہے اور وہ میں ہی ہوں۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میں ایک ایسے مسئلے کا شکار ہوں جس کے متعلق زیادہ تحقیق نہیں ہوئی لیکن یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے تو میری مرکزی تشویش یہی تھی کہ میں اس کو کس طرح ٹھیک کروں؟

اگرچہ ’سلیپ اپنیا‘ کی وجہ کئی مستقل خطرات ہیں جیسا کہ موٹاپا، موٹی گردن اور گلے کے بڑے غدود، چھوٹا جبڑا یا بوڑھا ہونا، لیکن یہ اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب انسان سو رہا ہوتا ہے۔ اس کی تشخیص کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ دوسرے انسان کی نیند کو مانیٹر کیا جائے۔

سو سنہ 2009 میں تھکاوٹ اور اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر میں نے نارتھبروک، الینوئے میں واقع نارتھ شور سلیپ میڈیسن سے وقت لیا۔

وہاں میری ملاقات سلیپ میڈیسن کی ماہر لیزا شائیوز سے ہوئی۔ انھوں نے میرا گلا دیکھا، اور اس کے بعد مشورہ دیا کہ مجھے پولی سومنوگرام کرانا چاہیے۔ یہ ایک سلیپ سٹڈی ہے جس میں میرا سانس لینا، خون میں آکسیجن کا لیول، دل کی دھڑکنوں کی شرح اور دماغ اور پٹھوں کی ایکٹیویٹی یا کام کرنے کا عمل ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

کچھ ہفتے بعد ایک جمعرات کو رات نو بجے اس کے لیے میں وہاں پہنچا۔

ایک ٹیکنیشن مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا جہاں ایک ڈبل بیڈ اور ایک بڑی الماری تھی۔ بیڈ کے پیچھے ایک کھڑکی تھی جس سے ایک لیبارٹری نما کمرہ نظر آ رہا تھا جس میں آلات بھرے ہوئے تھے۔ میں نے کپڑے بدلے اور ٹیکنیشن کو بلایا۔ اس نے میرے سینے اور سر پر الیکٹروڈز لگائے اور مجھے ایک جالی والی شرٹ پہننے کے لیے دی تاکہ تاریں جڑی رہیں۔

10 بجے کے قریب میں نے بتیاں بند کیں اور جلد ہی سو گیا۔

میں ساڑھے چار بچے صبح اٹھ گیا اور دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن ٹیکنیشن نے کہا کہ ان کے پاس چھ گھنٹے کا ڈیٹا آ گیا ہے اور میں اب گھر واپس جا سکتا ہوں۔ جب میں نے کپڑے پہن لیے تو اس نے مجھے بتایا کہ میرا اپنیا بہت شدید تھا اور وہ مجھے بعد میں تفصیل بتائیں گے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ میں کہیں جا کر زبردست ناشتہ کروں گا لیکن بعد میں میں نے سیدھا گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بھوک نہیں تھی، میں ڈرا ہوا تھا۔

کئی ہفتوں بعد میں دوبارہ نارتھ شور آیا، لیکن اس مرتبہ میں دن میں آیا تھا۔ شائوز نے مجھے ایک سکرین کے سامنے بٹھایا جو آڑھی ترچھی لائنوں اور نمبروں سے بھری پڑی تھی، جن کے پیچھے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو میں ایک کونے میں سوتا ہوا بھی نظر آ رہا تھا۔

وہ کافی پریشان کن تھا، جیسے کہ میں کسی کرائم سین میں اپنے آپ کو مرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ شائوز نے مجھے بتایا کہ میں نے 112 سیکنڈ، تقریباً دو منٹ تک سانس نہیں لیا تھا۔

پلس آکزیمیٹر کے مطابق خون میں آکسیجن کا نارمل لیول 95 سے 100 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو دائمی پلمونری آبسٹرکٹیو (سانس میں رکاوٹ) ہو ان کا یہ نمبر 80 سے ذرا اوپر آتا ہے۔ میرا کسی وقت 69 فیصد تک گر جاتا تھا۔

یہ کتنا برا ہے؟ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اگر کسی انسان کی خون میں آکسیجن کی مقدار 94 فیصد یا اس سے کم ہو جائے تو فوراً ان پر توجہ دینی چاہیے کہ کہیں ان کی کوئی سانس کی نالی تو بند نہیں ہے، پھیپھڑا تو کام کرنا نہیں بند کر گیا یا کہیں خون کی گردش میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔

شائوز نے کہا کہ ایک آپریشن کے ذریعے میرے گلے میں سانس کی نالی کو کھلا کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں کافی خون نکل سکتا ہے اور ٹھیک ہونے میں بڑا وقت بھی لگ سکتا ہے۔ دوسرا آپشن ماسک تھا۔

سلیپ اپنیا کی دریافت کے بعد پہلی دہائی میں تو صرف ایک آپشن تھا۔ آپ ٹریکیٹومی کروائیں جو کہ آپ کے گلے میں ایک سوراخ کرنا ہوتا ہے خراب ہوتی ہوئی سانس کی نالی کو بائی پاس کیا جا سکے۔ اس سے کام تو ہو جاتا لیکن ساتھ ساتھ اس میں بڑا رسک بھی تھا۔

بالٹی مور میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر آف میڈیسن ایلن شوارٹز کہتے ہیں کہ ’شروع کے دنوں میں ڈاکٹروں کو زیادہ علم نہیں تھا۔ 80 کی دہائی میں (تحقیق) شروع کی تو ہم برف کے بڑے تودے کا ایک سرا دیکھ رہے تھے، جن میں اپنیا کے شدید مریض بھی تھے۔ وہ اپنے جسم کے ٹشوز میں وافر مقدار میں آکسیجن نہ پہنچنے کی وجہ سے سر درد کے ساتھ نیند سے اٹھتے تھے۔ آپ سوچ ہیں کہ وہ کتنے تھکے ہوئے محسوس کرتے تھے۔ وہ انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے، ان کا موڈ بدلتا رہتا، اور بہت جلد غصہ آ جاتا۔‘

ان مسائل کے باوجود مریضوں کے ٹریکیٹومی سے گھبرانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ یہ سرجیکل عمل کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف انتہائی ہنگامی حالت میں۔

ہاٹ سپرنگ آرکنساس کی اینجیلا کیکلر کہتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے اونچے خراٹے لیتی تھی، اور آدھی رات کو ہانپتی ہوئی اٹھتی۔‘ انجیلا کو 2008 میں سلیپ اپنیا کا مرض تشخیص ہوا تھا، اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ یہ انھیں بہت چھوٹی عمر سے تھا۔

سنہ 2012 تک ان کو دل کی بیماری ہو چکی تھی۔

انجیلا کہتی ہیں کہ ’میں ایمرجنسی میں گئی کیونکہ میں بہت تھکی ہوئی اور بالکل اچھا محسوس نہیں کر رہی تھی۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ دل کا دورہ ہے۔ اگلی صبح انھوں نے بتایا کہ ہم ٹریکیٹومی کر رہے ہیں۔‘

تو کیا انھیں سات سال میں اس کی عادت پڑ گئی ہے؟

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک جنگ ہے۔ بہت ساری صفائی کرنی ہوتی ہے۔ بہت گندا کام ہے۔ آپ آسانی سے سانس نہیں لیتے۔ آپ کا قدرتی ہیومیڈیفائر (مرطوب گر) خراب ہو گیا۔ آپ کو اس کی مدد کرنی ہے۔ آپ کو انفیکشنز ہو سکتی ہیں۔‘

ان کے لیے اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ وہ سوئمنگ نہیں کر سکتیں اور یہ وہ چیز ہے جو وہ سب سے زیادہ انجوائے کرتی ہیں۔ جب لوگ ان کی طرف غور سے دیکھتے ہیں تو بھی انھیں اچھا محسوس نہیں ہوتا۔

لیکن اس عمل سے ان کا اپنیا ختم ہو گیا۔ ’میں خراٹے نہیں لیتی اور سانس لے سکتی ہوں اور بہتر سوتی ہوں۔‘

یونیورسٹی آف سڈنی کے پرافیسر آف میڈیسن کولن سلیون نے اس عمل سے بچنے کے لیے کونٹیووس پازیٹیو ایئرویے پریشر مشین (سی پی اے پی) ایجاد کی جو اس کے علاج کے لیے ایک نئی چیز ثابت ہو سکتی ہے۔

ستر کی دہائی کے آخر میں وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں ایک محقق کی مدد کر رہے تھے جو کتوں کے نیند کے دوران سانس کے کنٹرول پر کام کر رہے تھے۔ اس تحقیق میں ٹریکیسٹرومی کے ذریعے کتوں کو تجرباتی گیسیں فراہم کرنا تھا۔ آسٹریلیا واپس آ کر سلیون نے کتے کی ناک پر فٹ آنے والا ماسک بنایا تاکہ اس کے ذریعے گیسز جا سکیں۔

سلیون کہتے ہیں کہ ایک مریض نے جس کی ٹریکٹومی ہونے تھی لیکن وہ اس کا کوئی متبادل ڈھونڈ رہے تھے انہیں تحریک دی کہ کتے کے ماسک میں تبدیلیاں لا کر انسانوں کا ماسک بنائیں۔

انھوں نے اس مریض کے ناک کا پلاسٹر کا سانچہ لیا اور اس سے ایک فائبر گلاس کا ماسک بنایا جس کے ساتھ ٹیوبیں لگائی جا سکتی تھیں۔ ایک ویکیوم کلینر سے بلوئر لیا اور سائیکل پر پہننے والے ہیلمٹ سے سر کو سنبھالنے والی پٹی نکالی۔

انھوں نے 1981 میں لکھی گئی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح پانچ مریضوں کی ناک پر فٹ کرتے ہوئے سی پی اے پی نے مکمل طور پر اوپر کی ہوا کے راستے کی بندش روک دی تھی۔

سلیون نے اس آلے کو پیٹنٹ کرایا اور کچھ عرصہ بعد انھوں نے اس کا ایک ایسا ماڈل بنایا جو اپنیا کی بیماری میں مبتلا لوگوں کو لیبارٹری سے باہر دیا جا سکتا تھا۔ آج لاکھوں لوگ سی پی اے پی مشینیں استعمال کرتے ہیں۔

’سلیپ اپنیا‘

شوارٹز کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی کے آواخر میں ہم مریض کے ساتھ بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ ماسک کیسا چل رہا ہے؟

مریض اکثر جھوٹ ہی بولتا کہ ماسک زبردست ہے۔ ’جب ہم نے 90 کی دہائی کے آخر میں اس میں الیکٹرانک چپ لگانے شروع کیے تو ہمیں پتہ چلا کہ وہ اپنی مشینوں کو کتنا کم استعمال کر رہے تھے۔‘

نیو یاک ٹائمز کے ایک مضمون میں سنہ 2012 کو لکھا ہوا تھا کہ ’ماسک کچھ بری سائنس فکشن کی فلموں کی طرح ہے: بڑا، وزنی، اور رکاوٹ پیدا کرنے والا۔‘ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چوتھائی سے آدھے کے درمیان مریض پہلے سال کے اندر ہی مشین کو چھوڑ دیتے تھے۔

میں نے یقیناً یہی کیا۔

پہلی رات تو جب میں نے اسے پہنا تو سی پی اے پی نے مجھے بہتر محسوس کرایا۔ میں تروتازہ اٹھا، چاک و چوبند، ایسی توانائی محسوس کی جو سالوں میں نہیں کی تھی۔

لیکن پہلی اچھی رات کے بعد ماسک کے مثبت اثرات ختم ہوتے گئے۔ لیبارٹری کے باہر میں اس کے فوائد نہیں محسوس کر سکا۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ جب آپ سانس لیتے ہیں تو یہ سانس کو اندر دھکیلتا ہے، لیکن جب آپ سانس باہر کی طرف نکالتے ہیں تو یہ تب بھی اسے اندر کی طرف ہی دھکیلتا ہے۔ آپ اس کے مخالف کوشش کر رہے ہوتے ہیں، اور میں دم گھٹنے سے اٹھ بیٹھتا۔

اکثر راتوں کو میں اٹھتا اور ماسک کو چہرے سے الگ کر دیتا۔ صبح میں اعدادوشمار چیک کرتا کہ یہ کتنا کم کام کر رہا تھا۔ میں نارتھ شور واپس گیا، جہاں شائوز نے پریشر سیٹنگز کو کچھ کیا اور مجھے کہا کہ میں کوئی دوسرے ماسک ٹرائی کروں۔ میں کئی مرتبہ وہاں گیا۔ لیکن لگتا تھا کہ کچھ کام نہیں ہو رہا۔

آخر شائوز نے مجھے کہا کہ ’اگر میں 30 پاؤنڈ وزن کم کر دوں تو شاید مسئلہ ختم ہو جائے۔‘

اگرچہ یہ ممکن ہے کہ آپ دبلے پتلے بھی ہوں اور پھر بھی آپ کو سلیپ اپنیا ہو لیکن موٹاپا اس کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

میں پانچ فٹ نو انچ ہوں اور جب میں نے گریجویٹ کیا تھا تو میرا وزن 150 پاؤنڈ تھا۔ 2009 میں میرا وزن 210 پاؤنڈ ہو گیا تھا۔

سو 2010 میں میں نے وزن کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ شائوز نے 30 پاؤنڈ کے قریب کم کرنے کو کہا تھا۔ اور میں نے ایسا کر لیا۔ یکم جنوری کو 208 پاؤنڈ سے میں اسے 31 دسمبر تک 178 پاؤنڈز پر لے آیا۔ وزن کم کرنے نے کام کر دکھایا۔ اب مزید ماسک کی ضرورت نہیں ہو گی۔

لیکن پھر پتہ چلا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میرا وزن پھر بڑھنے لگا اور اس کے ساتھ ہی اپنیا بھی واپس آ گیا۔

سنہ 2017 کی جرمن تحقیق کے مطابق اگرچہ آبسٹرکٹیو سلیپ اپنیا 40 فیصد جرمن آبادی میں ہو سکتا ہے لیکن صرف ہسپتالوں کے اندر 1.8 فیصد مریضوں میں اس کی تشخیص ہوئی ہے جو کہ محققین کے مطابق مریضوں اور ہسپتال کے عملے میں ممکنہ طور پر اس کے متعلق کم آگہی کی وجہ سے ہو۔

’سلیپ اپنیا‘

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے ایک مضمون کے مطابق امریکہ کے سرجیکل مریضوں میں سلیپ اپنیا کی ویک ’وبا‘ ہے۔ الیکٹیو سرجری کے ہر چار مریضوں میں سے ایک میں یہ موجود ہے لیکن کئی گروہوں میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ مثلاً موٹاپے کا علاج کرانے والے 10 میں سے آٹھ مریضوں میں یہ موجود ہے جس کی وجہ کئی خطرے موجود ہیں۔

رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ’وہ مریض جو ہڈیوں کا آپریشن یا جنرل سرجری کرا رہے ہیں اگر انھیں سلیپ اپنیا ہے تو ان میں سانس کی تکلیف کی پیچیدگیوں کے بڑھنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور انھیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے جس سے ہیلتھ کیئر کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔‘

میری ریڑھ کی ہڈی کی سرجری جلدی سے ہو گئی تھی لیکن اس دوران بھی ہسپتال نے اصرار کیا کہ میں گھر پر سونے کی مشق کروں تاکہ میرے اپنیا کی شدت کا پتہ چل سکے۔ سلیپ سینٹر میں جانے کی بجائے میں کٹ ہی گھر لے آیا جس میں یہ درج تھا کہ میں نے اپنے سینے پر سینسر بینڈ کس طرح لگانے ہیں، انگلی پر نبض جانچنے کا آلہ کس طرح لگانا ہے اور ناک کے نیچے چپ تاکہ سانس لینے کے عمل کو مانیٹر کیا جا سکے۔

ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ مجھے معتدل اپنیا ہے، شاید یہ 10 پاؤنڈ وزن کم کرنے کا نتیجہ تھا۔

جان ہاپکنز سکول آف میڈیسن کے پروفیسر آف میڈیسن فلپ سمتھ کہتے ہیں کہ وزن کم کرنا خود ہی ایک علاج ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں کر سکتے۔‘

1990 کی دہائی کے وسط میں دندان سازی میں استمعال کیے جانے والے ایک آلے کو ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو ماسک برداشت نہیں کر سکتے۔

جنرل ڈینٹسٹ ڈیوڈ تروک کہتے ہیں کہ ’آبٹرکٹیو سلیپ اپنیا آپ کے منھ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر آپ کی زبان کے پاس منھ میں اتنی جگہ نہیں اور وہ آپ کی سانس کے راستے کی طرف دھکیلی جاتی ہے۔ سی پی اے پی زبان کو ہوا کو نچے دھکیلتے ہوئے زبان کو باہر نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک آلہ نچلے جبڑے کو سامنے لاتا ہے اور زبان اس کے ساتھ ہی آ جاتی ہے۔‘

’سلیپ اپنیا‘

اس کو ایک بریس کی طرح سمجھیں، جس میں اوپر والے دانتوں کو نچلے دانتوں کو دھکیلنے کے لیے اینکر بنایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ہی نچلا جبڑا آگے آتا ہے اور آپ کے گلے کے پچھلے حصے میں ہوا کا راستہ کھلا ہو جاتا ہے۔

لیکن سی پی اے پی کی طرح یہ اورل آلہ بھی ایک نامکمل حل ہے۔ یہ جبڑے کو ایک غیر فطری پوزیشن میں رکھتا ہے، جو کہ غیر تکلیف دہ ہو سکتا ہے اور اس کا لمبے عرصے تک استعمال آپ کے کھانے کے طریقے کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا دباؤ آپ کے دانتوں کی پوزیشن کو بھی بدل سکتا ہے۔

لیکن تروک کے زیادہ تر اپنیا کے مریض اس اورل آلے سے فیضیاب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر شدید بیمار نہیں تھے۔ ’جن کو شدید سلیپ اپنیا ہو تو ان کے لیے سی پی اے پی کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ میں کبھی نہیں کہتا کہ آپ کے پاس چوائس ہے۔ آپ کو سی پی اے پی کو پہلے ٹرائی کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ مریض جو اپنیا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سی پی اے پی اور نہ ہی اورل آلے سے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں اچھا طریقہ جبڑے کی ایڈوانسمنٹ کی سرجری ہے، جو کہ گلے کے سافٹ ٹِشوز کو چوڑا کرنے سے بہتر عمل ہے۔

تروک کہتے ہیں کہ ’صحتیابی آسان ہے کیونکہ یہ ٹِشو کی صحتمندی کی بجائے ہڈی کی بہتری ہے۔‘ تاہم اس سرجری کے بھی اپنے مسائل ہیں جن میں آپ کے نچلے جبڑے کو دو جگہوں سے توڑنا اور سرجری کے بعد آپ کے منھ کو تار کے ساتھ بند کرنا بھی شامل ہے۔

’سلیپ اپنیا‘

اس کے علاوہ ایک اور حکمتِ عملی اورل آلے کے الیکٹریکل ورژن ہائپوگلوسل نروو سٹیمولیشن (این ایچ ایس) میں ہے۔ جہاں ایک ہلکے سے کرنٹ سے زبان کھنچتی ہے اور نیند کے دوران پیچھے نہیں گرتی۔

باسٹن کے برگھم اینڈ ومنز ہاسپیٹل کے سلیپ ڈس آرڈرز سروس کے اسسٹنٹ میڈیکل ڈائریکٹر لارنس ایپسٹین جو کہ امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کے سابق صدر بھی ہیں کہتے ہیں کہ سی پی اے پی ’ایک تجویز شدہ فرسٹ لائن تھراپی ہے۔‘ لیکن علاج دراصل ’سبھی آپشنز کو جاننا ہے اور اس طرح کی تھراپی تیار کرنا ہے جو مریض کے پاس ہو اور جس کے استعمال کے لیے وہ تیار بھی ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ آبٹسرکٹیو سلیپ اپنیا کو ایک اکیلی حالت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے ۔ چہرے اور گلے کی ترتیب، پٹھوں کا تناؤ، موٹاپا۔ اس لیے ہر مریض کا ایک ہی علاج نہیں ہوتا۔

’ہمارے پاس بہت موثر علاج ہیں لیکن ہر ایک کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ بس یہ بات ہے مریض اور اس کے طریقہ علاج میں ہم آہنگی کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک ٹیسٹ ہے۔ ’یقنی بنائیں کہ وہ ہو۔‘ بالکل درست علاج کے حصول میں ’ہمیں ابھی بہت دور تک جانا ہے۔‘

گولیوں سے علاج پر بھی بہت امیدیں لگی ہوئی ہیں۔

جان ہاپکنز کے سمتھ کہتے ہیں کہ ’مستقبل نیورو کیمیکل ہے۔ ہم چوہے میں اپنیا کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے دس، یا شاید پانچ برسوں میں آپ سلیپ اپنیا کی دوائیاں لے سکیں، کیونکہ یہ نیروکیمیکل مسئلہ ہے۔ یہ موٹاپا خود نہیں، نہ ہی چربی جو ہوا کے راستے کو دباتی ہے بلکہ یہ وہ کچھ ہارمونز ہیں جو ہوا کے راستے کو دبا دیتے ہیں۔

انسانوں پر بھی کچھ مفید تجربات ہوئے ہیں۔ فلس زی 2017 کی اس تحقیق کے شریک بانی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرونابینول، جو کہ کینیبیز (بھنگ) میں پایہ جانے والا ایک مولیکیول ہے، سلیپ اپنیا کی شدت کو کم کرتا ہے۔

’سلیپ اپنیا‘

جب یہ تحقیق شائع کی گئی تھی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ ’سی پی اے پی ڈیوائس جسمانی مسئلے کو ٹارگٹ کرتی ہے وجہ کو نہیں۔ یہ دوائی دماغ اور ان اعصابی رگوں کو ٹارگٹ کرتی ہے جو اوپر والے ہوا کے راستے کے پٹھوں کو قابو کرتے ہیں۔ یہ دماغ کے ان نیروٹرانسمیٹرز کو تبدیل کرتی ہے جو پٹھوں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔‘

اور بھی امید افزا اشارے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ دو دواؤں ایٹموکزٹین اور آکزیبٹنین کے مرکب کو پینے سے اپنیا میں کافی حد تک کمی آتی ہے، اور تحقیق میں حصہ لینے والے سبھی شرکا کی نیند کے دوران ہوا کے راستے میں رکاوٹ 50 فیصد کم ہوئی ہے۔

لیکن مجھ جیسے شخص کے لیے جو اپنیا کا شکار ہے، شاید ابھی لمبا انتظار ہے۔

شوارٹز کہتے ہیں کہ ’وہ گذشتہ 20 سال سے اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی دوائی آ جائے گی۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ یہ 20 سال کا نامکمل کام ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔‘

صبر اور ہیلتھ کیئر کو اکثر اکٹھا دیکھا جاتا ہے، چاہے یہ کسی نئے علاج کا مارکیٹ میں آنا ہو، اچھے نتیجے کے انتظار میں طرز زندگی میں تبدیلیوں کا انتظار ہو یا کسی ٹھیک سپیشلسٹ سے ملنے کا انتظار۔ میرے لیے یہ ایک طویل عرصے تک ڈائٹنگ اور نارتھ ویسٹرن میں سلیپ سپیشلسٹ سے ملاقات کی طرف واپس جانا تھا۔

جب میری سرجری ہوئی اور مجھے پتہ چلا کہ میرا اپنیا واپس آ گیا تو میں نے جولائی میں نارتھ ویسٹرن سے رابطہ کیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ میری ملاقات اکتوبر کے آخر سے پہلے ممکن نہیں۔ خود ہی اندازہ لگائیے کہ کتنے لوگ اس مسئلے کا شکار ہیں۔