معصوم بچہ اور برہنہ بادشاہت کا اوجھل ہوتا تخت
ہم نے عجب قسمت پائی ہے۔ کبھی جغرافیہ غداری کرتا ہے اور کہیں تاریخ کا پاؤں رپٹ جاتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے بہار کے نقیب اپریل کو ظالم ترین مہینہ لکھا تھا۔ شرح اس بلیغ مصرعے کی یہ تھی کہ کہرے میں لپٹی بےرنگ زمیں سے سبز اکھوے پھوٹتے ہیں اور نئی کونپلیں سر نکالتی ہیں تو دل کے گھاؤ ہرے ہو جاتے ہیں۔ ایلیٹ تو مغرب کا شاعر تھا، اسے ہماری افتاد کی کیا خبر۔ ہمارے شاعر نے تو غنچہ کھلنے پر اپنا دل ’خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا‘ تھا۔ اپریل ہمارے لئے نوحے کی زمین ہے اور تابوت کا استعارہ۔ اکتالیس برس پہلے ہم نے چار اپریل ہی کو ایک تابوت چک لالہ سے لاڑکانہ روانہ کیا تھا۔ اپریل 1953ءمیں غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تھا، یہ سیاسی عمل کی بےدخلی کا اعلان تھا۔ اپریل 1956ءمیں اسکندر مرزا نے ری پبلیکن پارٹی قائم کی تھی۔ یہ ہماری تاریخ میں سازش کے چاک پر جادو کے ڈنڈے سے سیاسی ظروف سازی کا آغاز تھا۔ اپریل 1959ءمیں ریاست نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پر قبضہ کیا ۔ یہ رائے عامہ کو ریاست کے نام پر یرغمال بنانے کی مشق تھی۔ اگلے برس اپریل 1960ءمیں پریس اینڈ پبلیکیشز آرڈیننس نافذ کیا گیا، یہ قانون کے نام پر آزاد صحافت کی سناؤنی تھی۔ اپریل 1971ءکا ذکر چھوڑیے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ اپریل 1984ءمیں غنیم نے سیاچن گلیشیر پر قبضہ کر لیا۔ اپریل 1988ءمیں اوجڑی کیمپ کی قیامت گزر گئی۔ اپریل 1993ءمیں نواز شریف کی پہلی حکومت پر 58دو (الف) کی تلوار چلی۔ اپریل 2010ءمیں اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ پچھلے دس برس کی قیامتیں 8اپریل 2010ءکے اس پارلیمانی اقدام ہی کے آفٹر شاکس ہیں۔
اس برس بھی بہار عجیب رنگ میں نمودار ہوئی ہے۔ ابھی انار کی ٹہنیوں پر پہلے شگوفے بھی نمو دار نہیں ہوئے تھے کہ چودہ مارچ کو ڈاکٹر مبشر حسن رخصت ہو گئے۔ رات گہری ہو گئی۔ ہماری نسل نے شخصی دیانت، انسان دوستی اور شرافت کے اس سائبان تلے جینا سیکھا تھا۔ 31؍مارچ کی صبح جنگ میڈیا گروپ کے چیئرمین میر جاوید رحمٰن انتقال کر گئے۔ جینے کے سو ڈھنگ ہیں۔ کوئی سیاست کے خارزار میں قدم رکھتا ہے، کوئی فن کی نمو کا بار اٹھاتا ہے، کوئی کاروبار کی نیو رکھتا ہے۔ اپنے راستے کا انتخاب شخصی آزادی کا منطقہ ہے۔ فرد کی قدر پیمائی اس سوال سے طے پائے گی کہ اپنے انتخاب کا حق ادا کیا یا نہیں؟ ڈاکٹر مبشر حسن اور میر جاوید رحمٰن میں کوئی تقابل نہیں کہ دو الگ دنیاؤں کے سالک تھے اور بلاشبہ اپنے منتخب منطقے میں کامیابی کی حکایت۔
ایک بامعنی، تخلیقی اور کامران زندگی کا اختتام ماندگان مسافت کے لئے ذاتی صدمے سے قطع نظر انسانی سعی کی تکمیل کا اشارہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مبشر حسن کی رخصتی انصاف اور آسودگی کے ایک بڑے خواب کی شکست بن کر اتری۔ جاوید رحمٰن کا طبعی انتقال بوجوہ لفظ کی بےحرمتی کے سانحے کی صورت اختیار کر گیا۔ موت تو بنی آدم کی میراث ہے۔ موت کی قطعیت سے کیسا انکار؟ دکھ یہ ہے کہ ہماری زمیں پر موت تکمیل کی منزل کو نہیں پہنچتی، اس لئے کہ ہم نے جینے کا ہنر نہیں سیکھا۔ ہم نے دھوپ اور چھاؤں کے اس کھیل میں قواعد مرتب نہیں کئے۔ ہماری سرگم کے سر پورے نہیں لگتے، ہماری کاوش میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ اس المیے کی گرہ کشائی کرنی چاہئے۔
ان دنوں دنیا ایک بڑی وبا کی زد میں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل انسانی کو اس کائناتی پیمانے پر فنا اور بقا کے سوال سے واسطہ نہیں پڑا۔ غنیم نادیدہ ہے، علاج نامعلوم ہے، مبارزت کے وسائل معلوم طور پر کمیاب ہیں اور ممکنہ طور پر قطعی ناکافی۔ ابھی تو اس بحران کے ابتدائی مراحل ہیں، یہ آفت ٹل جائے تو بہتر ہے۔ انسانی آلام کی فہرست میں ایک بے حد تاریک باب کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ معیشت، تمدن اور روزگار ہستی کے جملہ ستون بھونچال کی زد میں ہیں۔ اس پھیلے ہوئے عالمی تناظر میں ہماری صورت حال منفرد ہے۔ وسائل اور تدبیر کے مباحث سے قطع نظر، ہم تو آفت کی حقیقت کا ادراک کرنے ہی سے قاصر ہیں۔ اختیار کی اس بالادست چوٹی سے تحفظ کی ندا سنائی نہیں دے رہی، جہاں سے ٹیکس لگانے کا فرمان صادر ہوتا تھا۔ ان گنت گھروں کا چولہا بجھ چکا۔ کروڑوں آنکھوں میں بے بسی چھلک چکی۔ جو بظاہر اپنی ناؤ محفوظ کناروں پر باندھ کر اطمینان میں ہیں، انہیں خبر نہیں کہ اجتماعی ابتلا اونچے اور نیچے ٹیلوں میں فرق نہیں کیا کرتی۔ دارالحکومت میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ فراست کی دستار بہت پہلے غبار آلود ہو چکی، ضابطے کی بساط لپٹ چکی۔ آفتاب سر پہ آ گیا لیکن ناخدا کی خبر نہیں۔ اور خبر ہو بھی کیسے؟ خبر کی ذلت کا بازار گرم ہے۔ اہل حکم کو واقعے سے نہیں، خبر سے وحشت ہے، خبر دینے والے سے عناد ہے۔ قوم کے ایمان کی دہائی دی جا رہی ہے۔ ایمان کا حال عالم الغیب جانتا ہے۔ ہو سکے تو قوم کو ڈھونڈیے۔ قوم ریاست اور عوام کے ارتباط کا مجموعہ ہے۔ عوام کو آپ نے بےدست و پا کر دیا۔ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو آپ وقعت نہیں دیتے، رائے عامہ کے ترجمان ذرائع ابلاغ سے آپ بیزار ہیں۔ تمدن سے آپ کو واسطہ نہیں۔ قوم آپ کے فرق عالیہ پر اترنے والے رویائے موہوم سے مرتب نہیں ہوتی۔ ابھی دو اپریل کو کرسچین اینڈرسن کا یوم ولادت گزرا۔ حالیہ صدیوں میں واحد لکھنے والا جس کی کہانیاں کروڑوں بچوں کے کانوں میں خواب ہستی کا احساس بن کر اتر چکیں۔ اینڈرسن نے بادشاہ سلامت کے لباس فاخرہ کے بارے میں ایک کہانی لکھی تھی۔ اس کہانی میں دو ٹھگوں کا ذکر ہے۔ انہیں جانے دیں۔ ایسے کردار ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بادشاہ سلامت کی خلعت زریں کی حقیقت بیان کرنیوالا بچہ اب صحافی بن گیا ہے اور سربازار کھڑا ہے۔ اسکی معصوم جرات سلامت ہے لیکن اس کی پکارخاموش ہے کیونکہ خلقت روٹی ڈھونڈنے نکلی ہے اور بادشاہ سلامت کا تخت تیزی سے اندھیرے میں اوجھل ہو رہا ہے۔