میں کچھ دنوں سے غریبوں کو تلاش کر رہا تھا، یعنی ایسے مفلسوں کو ڈھونڈ رہا تھا جو صحیح معنوں میں صدقات یا عطیات کے مستحق ہوں۔
آپ بھی کہیں گے کہ اِس ملک میں غریبوں کو تلاش کرنا بھلا کون سا مشکل کام ہے، چپے چپے پر غربت پھیلی ہے، آپ کسی بھی سڑک پر کھڑے ہو جائیں غریب آپ کے گرد جمگھٹا لگا لیں گے لیکن آپ کو بھی پتا ہے کہ یہ لوگ غریب نہیں، پیشہ ور بھکاری ہیں، ان کی مدد کرنا گویا گداگری کو فروغ دینا ہے۔
میں تو اصل مستحقین کی تلاش میں تھا تاکہ ابتلا کے دور میں اُن کی مدد کی جا سکے، بالآخر چند دن کی محنتِ شاقہ کے بعد میں نے غریب اور مستحق لوگ تلاش کر ہی لیے، پوری ذمہ داری کے ساتھ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ اُن سے زیادہ ہمارے عطیات اور صدقات کا کوئی حقدار نہیں۔
یہ کسی کے آگے اپنا پیٹ ننگا نہیں کرتے، کوئی چپکے سے اِن کی مدد کر دے تو یہ قبول کر لیتے ہیں اور دینے والے کے لیے اِن کے دل سے ایسی شعائیں نکلتی ہیں کہ آخرت کا تو پتا نہیں مگر دینے والے کی دنیا ضرور سنور جاتی ہیں۔ میں آپ لوگوں کے تجسس میں اب مزید اضافہ نہیں کروں گا، اُن کا نام بتائے دیتا ہوں، یہ شوگر مل کے غریب مالکان ہیں۔
جی ہاں، مجھے پتا ہے کہ اب آپ لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور عجیب و غریب نوعیت کے اعتراضات سے میرا ناطقہ بند کر دیں گے کہ یہ کہاں کے غریب ہیں۔
اصل میں یہی آپ کی غلط فہمی ہے، دراصل اِن غریبوں کے خلاف میڈیا پر اتنا پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ یہ بیچارے اپنے حواس ہی کھو بیٹھے ہیں، اسی لیے کبھی کبھار انہیں اخبارات کے صفحہ اول پر اپنا التجائیہ اشتہار شائع کروانا پڑتا ہے۔
یہ اشتہار اگر کوئی نرم دل والا شخص پڑھ لے تو شاید اُس کا کلیجہ ہی پھٹ جائے، اشتہار میں اُن تمام مظالم اور زیادتیوں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے جو اِن شوگر مل مالکان پر ڈھائے جاتے ہیں، اِس کے باوجود اِن غریبوں کی کوئی نہیں سنتا اور یہ سر جھکائے سارا سال اپنی مل میں چکی پیستے ہیں۔
صرف اِس آس پر کہ شاید حکومت یا خدا کا کوئی نیک بندہ اِن کی مدد کر دے۔ کبھی کبھار کوئی غیبی امداد آ جاتی ہے اور انہیں دو چار ارب روپوں کی سبسڈی مل جاتی ہے جس سے اِن کی دال روٹی چل جاتی ہے، اور اگر کبھی ایسا نہ ہو تو بھی یہ صبر شکر کر کے سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں، اور جس دن یہ بھی نصیب نہ ہو اُس روز پیٹ پر کپڑا باندھ کے سو جاتے ہیں، اِس امید پر کہ اگلے روز کہیں نہ کہیں سے رزق ضرور ملے گا۔
اب کیا اِن سے زیادہ کوئی مستحق ہو سکتا ہے؟ میں اگلے روز ٹی وی پروگرام میں دیکھ رہا تھا کہ ایک خود سر اینکر اپنے پروگرام میں غریب شوگر مل والے کو لتاڑ رہا تھا، حالانکہ شوگر مل کا مالک فقط یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ حکومت کی طرف سے انہیں جو چند روپوں کی سبسڈی ملتی ہے وہ کوئی منافع نہیں ہوتا بلکہ مشکل سے اُن کی لاگت پوری ہوتی ہے مگر اینکر تھا کہ مان کر ہی نہیں دے رہا تھا۔
یقین کریں میرے تو آنسو نکل آئے، میں نے سوچا کہ اِن شوگر مل مالکان کی حسبِ توفیق مدد تو کروں گا مگر ساتھ ہی ’’پرو بونو‘‘ (فی سبیل اللہ) اِن مساکین کے لیے مشیر ابلاغیات کا کام بھی کروں گا۔ اصل میں یہ بیچارے اپنا مقدمہ صحیح انداز میں پیش نہیں کر پاتے، یہ ٹھہرے شریف، بھلے مانس لوگ، انہیں روٹی کمانے سے فرصت ملے تو یہ کچھ اور سوچیں، خالی پیٹ شیطان کا گھر ہوتا ہے!
خیر،میں آج آپ کو بتاتا ہوں کہ اِن غریب شوگر مل مالکان کی عطیات اور صدقات سے مدد کرنا عین عبادت کیوں ہے؟ سب سے پہلے تو یہ بیچارے مانگ تانگ کر پیسے اکٹھے کرتے ہیں، بینک سے بھاری سود پر قرض اٹھاتے ہیں اور شوگر مل لگاتے ہیں تاکہ اپنے جیسے باقی غربا کے لیے با عزت روزگار مہیا کر سکیں۔
پہلا ڈنڈا تو حکومت اِن کے سر پر یہ برساتی ہے کہ گنے کی قیمت مقرر کر دیتی ہے، اس کے بعد مختلف محکمے قطار اندر قطار اِن کی گوشمالی کرنے کے لیے آ دھمکتے ہیں۔
ان سب سے نمٹنے کے بعد جب یہ ملک کے عوام کو سستے داموں چینی فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان غریبوں کو معلوم پڑتا ہے کہ اب بھی کئی ہزار ٹن چینی گوداموں میں باقی ہے۔ یہاں پھر ان میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور یہ حکومت کو کہتے ہیں کہ جناب اگر یہ چینی آپ ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دیں تو ملک میں ڈالر آ جائیں گے۔
اس دھرتی کا فائدہ ہو جائے گا۔ حکومت ان کی پیٹھ ٹھونک کر داد دیتی ہے، ان کے جذبے کی قدر کرتی ہے مگر یہ بھی نہیں چاہتی کہ اللہ کے اِن نیک بندوں کو کوئی تنگی ہو۔
یہاں باریک نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ اِن بھلے مانس شوگر مل والوں کی چینی بنانے پر جو لاگت آتی ہے وہ بین الاقوامی منڈی میں چینی کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ کچھ برگزیدہ اہلکار یہاں شوگر مل مالکان کی مدد کو پہنچتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ اپنی لاگت سے کم قیمت پر چینی ایکسپورٹ کر دیں۔
خدا آپ کو اس کا اجر دے گا سو دے گا ہم بھی چند ارب روپے آپ کی جھولی میں چُپ چاپ ڈال دیں گے تاکہ آپ کا گھاٹا پورا ہو جائے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
یعنی خواہ مخواہ یار لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شوگر مل مالکان آخر طلب سے زائد چینی بناتے ہی کیوں ہیں اور پھر حکومت کو کیوں کہتے ہیں کہ باقی ماندہ چینی ایکسپورٹ کرکے بدلے میں اربوں روپے کی سبسڈی دے دو! یعنی بھلے کا زمانہ ہی نہیں۔
ایک تو ایکسپورٹ کرو اوپر سے طعنے سنو۔ اور اِس احمقانہ بات کا بھلا کیا جواب ہو کہ اگر ملک میں چینی کی پیداوار طلب سے زیادہ ہوتی ہے تو پھر یہ شوگر مل مالکان کچھ عرصے بعد اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیوں کرتے ہیں! یہ تو وہی بات ہوئی کہ آٹا گوندھتی ہلتی کیوں۔
صاحب، میں تو اِن بیہودہ الزامات کا جواب دینا نہیں چاہتا، میں تو فقط یہ جانتا ہوں کہ ملک کے جس طبقے کو اربوں روپوں کی براہِ راست سبسڈی ہر سال ملتی ہو، بھلا اُس طبقے سے زیادہ غریب اور مستحق اور کون ہو سکتا ہے۔
میں تو اپنی زکوٰۃ اور عطیات انہیں بھیجنے لگا ہوں، آپ بھی اِس نیک کام میں دیر نہ کیجیے!