ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات میں فیشن برانڈز کی کمپنی میں ای کامرس سپیشلسٹ کے طور پر کام کرنے والے نوید احمد کو یکم اپریل کو نوکری سے برخاستگی کا لیٹر تھما دیا گیا۔
کمپنی کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کے جاری کردہ لیٹر میں نوید کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پندرہ مارچ سے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے بعد کمپنی کے تمام دفاتر میں کام رک چکا ہے اور یہ لاک ڈاؤن اپریل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ ان حالات کی وجہ سے کمپنی کے لیے کچھ ملازمین کا فارغ کرنا ناگزیر ہے۔
لیٹر میں لکھا گیا کہ انتظامیہ کو یہ قدم نہایت ہی مجبوری کی حالت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔
کراچی کے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹری کی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹس جاری کر کے تمام سٹاف کو مطلع کیا گیا کہ ان کی تنخواہوں میں دس سے پچاس فیصد کٹوتی کی جا رہی ہے۔
دس سے پچاس فیصد تک کٹوتی سٹاف کی تنخواہوں کے لحاظ سے کی جائے گی جو اپریل، مئی اور جون کی تنخواہوں پر لاگو ہو گی۔
کراچی میں ایک بڑے ٹیکسٹائل گروپ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے فیکٹری بند ہونے کے باعث تمام ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی دی جا رہی ہے۔
اس نوٹس کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے ایکسپورٹ آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے صرف ضروری ملازمین کو بلایا جائے گا اور باقی ملازمین بغیر تنخواہ کے چھٹی پر تصور کیے جائیں گے۔
’بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب بیروزگاری‘
کراچی میں مقیم معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ کچھ صنعتی اور کاروباری اداروں کی جانب سے بغیر تنخواہ کے چھٹی کا مطلب ہے کہ یہ افراد بیروزگار ہو چکے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں تو اس کے ساتھ ملک میں بیرون سرمایہ کاری کی آمد بھی رک چکی ہے۔ سوائے روزمرہ اور سبزی و فروٹ کی دکانوں کے ہر کاروبار بند کر دیا گیا ہے۔
پاکستان سٹاک ایکسچنج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60 فیصد سے زائد کمپنیاں اس وقت مکمل بند ہیں اور باقی چالیس فیصد میں جزوی طور پر کام جاری ہے۔ مکمل طور پر بند کمپنیاں آٹو، ٹیکسٹائل، انجنیئرنگ، سیمنٹ، کیمیکلز وغیرہ کے شعبوں سے متعلق ہیں۔
ان حالات کی وجہ سے حکومتی ادارے بھی لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کروڑ سے زائد افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں ایک خوفناک معاشی منظر نامہ جنم لے رہا ہے۔
ان کے تجزیے کے مطابق اگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور حکومت موجودہ حکمت عملی پر کاربند رہتی ہے تو محتاط اندازے کے مطابق تیس سے پچاس لاکھ افراد کا روزگار داؤ پر لگ سکتا ہے۔
اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی ہے اور اسے تین مہینے تک بڑھایا گیا تو یہ ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطروں سے دوچار کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر پاشا کے مطابق کورونا وائرس کا پیدا کردہ معاشی بحران ملک میں تین شعبوں کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے جن میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان میں بڑی اور درمیانی صنعتیں، ہول سیل و ریٹیل کاروبار اور ٹرانسپورٹ کے شعبے شامل ہیں۔
’سرکاری کفالت پیکج ناکافی ہے‘
معاشی امور کے ماہر خرم شہزاد کی کورونا وائرس کے پیدا کردہ معاشی بحران پر تجزیاتی رپورٹ نشاندھی کرتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے طویل ہونے سے معاشی سرگرمی کے نہ ہونے یا کم ہونے سے ایک کروڑ سے زائد افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
ان کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2019 میں ٹوٹل ورک فورس ساڑھے سات کروڑ افراد پر مشتمل ہے جنھیں ماہانہ آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جاتا ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد کے ملازمتوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں وہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے ماہانہ محروم ہو جائیں گے۔ خرم شہزاد کا کہنا ہے یہ تخمینہ تنخواہ کی کم سے کم سطح پر رکھا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراب معاشی صورتحال اور اس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے افراد کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت ملک میں ایک کروڑ سے زائد غریب خاندانوں کو نقد رقم کی صورت میں امداد دی جائے گی جو چار مہینے کے لیے بارہ ہزار روپے پر مشتمل ہو گی۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ یہ رقم وفاقی حکومت کے ’احساس پروگرام‘ کے تحت ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو ادا کی جائے گی۔
تاہم انھوں نے اس امداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چار مہینوں کے لیے ایک خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ رقم بہت کم ہے۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپے کے ذریعے ایک خاندان کی کفالت بہت مشکل ہے۔
’معاشی ترقی کی رفتار مزید سست ہو گی‘
ملازمت سے فارغ ہونے سے لے کر بغیر تنخواہ پر چھٹی پر بھیجے جانے والے ملازمین ان لاکھوں دیہاڑی دار مزدوروں کے علاوہ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا روزگار کماتے ہیں۔
یہ سب افراد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں کے رک جانے کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستانی معیشت جو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے پہلے بھی خراب تھی اس میں مزید ابتری کورونا وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔
ملک کی معاشی ترقی کے اعشاریوں میں تنزلی کی وجہ سے پہلے ہی بیروزگاری کی شرح بلندی کی طرف گامزن تھی اور اس میں مزید اضافہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معاشی پہیے کے رک جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح میں اس مالی سال دو سے ڈھائی فیصد رہنے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے جی ڈی پی تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
پاکستانی معیشت کے تازہ ترین جائزوں میں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور موڈیز نے ملکی معیشت کے کورونا وائرس کے جھٹکوں سے مزید خراب ہونے کی پیشنگوئی کی ہے۔
’شرح سود کم کیے بغیر تعمیراتی پیکج بے فائدہ ہو گا‘
وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے ’مراعاتی پیکج‘ اور چودہ اپریل سے اسے کھولنے کا اقدام معیشت کی خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اٹھای ہے تاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے بیروزگاری کی بلند شرح پر قابو پایا جا سکے۔
وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دے کر اسے سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنایا ہے تاکہ اس شعبے اور اس سے منسلک اسٹیل، فولاد، لکڑی، سیمنٹ، بھٹوں، بجلی کے آلات اور ہارڈ ویئر سمیت دوسرے شعبوں میں کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔
معیشت کے ماہرین نے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کو سراہا تاہم اس سلسلے میں انھوں نے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر پاشا کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکج بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے حکومت روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے تاہم ان کے مطابق حکومت کو تعمیراتی شعبے میں طلب کے پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
تعمیراتی شعبہ مکان تو بنا دے گا لیکن ملک میں گیارہ فیصد کے بلند شرح سود پر لوگوں کا بینکوں سے قرض لینا مشکل ہو گا۔
ڈاکٹر پاشا کے خیال میں اگر حکومت تعمیراتی شعبے میں طلب کو بڑھانا چاہتی ہے تو اسے شرح شود کو پانچ سے چھ فیصد تک گرانا ہوگا تاکہ لوگ مکان خریدنے کے لیے بینکوں سے سستے قرضے لے سکیں۔