کالم

ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے

Share

خدمتِ خلق کا جذبہ ہر انسان میں پایا جاتا ہے البتہ اس کی شکل اور طریقہ کارمختلف ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ فلاح و بہبود کے نام پر کہیں مذہبی طور پر تو کہیں انسانی ناطے لوگوں کو امداد پہچانا اپنا فرض اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو انسان میں ہمدردی اور رحم نہ ہو تو دنیا میں ان لوگوں کا جینا دو بھر ہوجائے جنہیں ایک ایک دن گزارنے کے لیے کسی نہ کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔دنیا میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات سماج میں دوسروں سے برابری کرنے کے لیے بھی اپنی ذات پر بے جا اخراجات کرنے کا شوق ہوتاہے۔ تاہم اسی سماج میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو پیدائش سے ہی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر ہمارے سماج میں لاچار اور بے سہارا ہیں او ر ایسے ہی لوگ اپنی مفلسی اور مجبوری کی بن وجہ سے سماج کے اعلیٰ طبقہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ چاہ کر بھی بحالتِ مجبوری زندگی گزارنے اور اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔
اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ ان غریبوں کا خاتمہ ہوجائے اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم ثواب کمانے کے لیے اپنی دولت کس کوبانٹے گیں۔ پھر تو ہم شاید اس بات پر بھی پچھتا ئے گیں کہ جب ہمارا اللہ یا ایشور ہم سے پوچھے گا کہ اے میرے بندوں ہم نے تجھے اتنی دولت دی اور تو نے اس کا کیا کیا؟ اب اللہ یا ایشور کے اس سوال پر تو ہمیں پچھتاوا ضرور ہوگا کہ ہم نے دولت تو کمائی لیکن جب کسی غریب کو دیا ہی نہیں تو پھر ہماری دولت کس کام کی۔ اب ہم اس فلسفے میں کیوں الجھیں۔ فی الحال تو دنیا میں غریبوں کی تعداد اتنی ہے کہ ان کی حالات زار پر ہمیں آنسو بہانا بھی کم لگتاہے۔ دولت کی تقسیم اور سسٹم کی بدعنوانی سے تمام ممالک میں غربت کا مسئلہ نہ تو ختم ہوپا رہا اور نہ ہی اس میں کمی ہورہی ہے۔
لیکن دنیا کے امیر ملکوں میں غریبوں کی حالت اس درجہ گوں نا گوں نہیں ہے جتنا کے ان ملکوں میں ہے جہاں دولت تو ہے لیکن ان پر ایسے لوگ قابض ہیں جو غریبوں کی حالت پر رحم کھا کر اپنے پیسے خرچ کرنے کا اعلان کرتے تو دکھائی دیتے ہیں لیکن ان غریبوں کی حالت یا زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نظرنہیں آتی ہے۔ممکن ہے اس کی ایک وجہ انسان کی بے حسی، خود غرضی یا خود کو امیر سے امیر تربنا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں غریب اپنا پیٹ تو بھر لے رہے ہیں لیکن ان کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔
مغربی ممالک اور امیرتر ممالک میں غریبوں کے تئیں ایسے مسئلے کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان ممالک میں لوگ ٹیکس ادا کرنا لازمی سمجھتے ہیں اور پھر حکومت ٹیکس سے وصول کی ہوئی رقم کو ان لوگوں تک پہنچانا اپنا فرض مانتی ہے جن کی زندگی بیماری، معذوری، بے روزگاری، کم آمدنی وغیرہ سے متاثر ہے۔
برطانیہ کو فلاحی ریاست مانا جاتا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں چھوٹے بڑے پیمانے پر فلاحی کاموں کا سلسلہ قانون کے ذریعہ لاگو کیا گیا جس میں بے گھروں کے سر پر چھت، بے روزگاروں کے لیے روز گارنہ ملنے تک امداد، معذوروں کے لیے ان کے گزر بسر کا انتظام،بچوں کے لیے خاص مدد،سبھوں کے لیے اسکول کی تعلیم کا مفت انتظام، مفت صحت اور ڈاکٹر کی سہولت، ضعیفوں کے لیے اسٹیٹ پینشن، ساٹھ برس کی عمر سے اوپر کے لوگوں کے لیے مفت ٹرانسپورٹ وغیرہ ایسی اہم سہولتیں ہیں جو یہاں کے لوگوں کو اپنی زندگی بغیر کسی کے سہارے جینے میں پوری مدد دیتی ہے۔تاہم پچھلے کچھ برسوں میں برطانیہ کی کنزر ویٹیو پارٹی کی قدامت پسند پالیسی سے ان سہولیات پر خاصہ اثر پڑا ہے اور آئے دن ایسے لوگ جو ریاست کے ذریعہ امداد حاصل کر رہے تھے ان کی زندگی دشوار ہوتی جارہی ہے۔

برطانیہ میں وولینٹئر اور چیریٹی کا ایک عام رحجان ہے۔مثلاً یہاں زیادہ تر لوگ بغیر کسی معاوضے کے کسی کی مدد یا کام کرنا اپنی زندگی کا اہم فرض سمجھتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ جذبہ صرف انگریزوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ برطانیہ میں رہائش پزیر تمام مذاہب اور مختلف ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو نہایت اہم بات ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر مذہبی مقامات پر بھی لوگ اپنے اپنے عقیدے سے طرح طرح کی امداد پہنچانا اپنا مذہبی فرض مانتے ہیں۔
حال ہی میں کورونا وائرس سے پریشان لوگ جہاں اپنے گھروں میں بند ہیں وہیں وزیر اعظم بورِس جون سن کی اپیل پر چوبیس گھنٹے میں 405,000لوگوں نے اسپتال کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے بطور وولینٹئر اپنا نام درج کرایا ہے جو کہ ایک قابلِ ستائش عمل ہے۔ جبکہ حکومت نے 750,000وا لینٹئرکا ہدف این ایچ ایس (NHS-National Health Service) کے لیے کیا ہے۔یہ لوگ اسپتال کے ان کاموں میں ہاتھ بٹائیں گے جہاں مدد کی سخت ضرورت ہے۔جیسے مریضوں کو دوا پہنچانا، مریضوں کو اسپتال سے گھر اور گھر سے اسپتال لے جانا اور مریضوں کے رشتہ داروں کو فون کر کے ان کو مریضوں کے صحت سے آگاہ کرنا وغیرہ۔اس کے علاوہ 20,000 ریٹائرڈ این ایچ ایس اسٹاف دوبارہ کام پر واپس لوٹے ہیں۔ اس سے اس کا پتہ چلتا ہے کہ لوگوں میں انسانیت اور ہمدردی اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے بڑے پیمانے پر لوگ اپنے پڑوس کے ضعیفوں اور معذور لوگوں کی ہر ممکن امداد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس موقعے پر محض کچھ گھنٹے کے لیے ان لوگوں سے فون کے ذریعے بات چیت کر رہے ہیں جن کے نہ تو کوئی رشتہ دار یا دوست ہیں۔
ایسا ہی جذبہ اور فلاحی کام سوشل میڈیا کے ذریعہ ہندوستان کے شہر کلکتہ کے مٹیابُرج علاقے کی تنظیم گارڈن ریچ پیس موومنٹ(Gardenreach Peace Mivement) اور تیلنی پاڑہ کی نوبل ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ(Noble Educational and Social Trust) کے علاوہ ہزاروں چیریٹی کے رضاکاروں کو کرتے ہوئے دیکھا گیاہے۔ان تنظیموں کے والینٹئر لاک ڈان کے دوران اپنے علاقوں کے غریب غربا اور ضرورت مندوں کو راشن پہنچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے رضا کار کھانا پکا کر راستے پر زندگی گزارنے والے ایسے مزدور وں اور دماغی معذور لوگوں کی بھی امداد کر رہے ہیں جن کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے۔یہ ایک قابلِ ستائش اور انسانیت کے لیے ہمدردانہ اقدام ہے۔اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں بھی کچھ لوگ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے لیے فکر مند ہیں جن پر غربت کی تو مار پڑہی رہی تھی اب جو لاک ڈان کی وجہ سے بھی بے یارو مددگار ہوگئے ہیں۔
ہندوستان میں غریبوں کو ہونے والی دشواری کے لیے گزشتہ دنوں ہندوستانی وزیر اعظم نے معافی مانگی۔ ہندوستانی عوام کا ’معافی‘ اور’من کی بات‘ سے نہ تو پیٹ بھرتا ہے، نہ تعلیم مل جائے گی اور نہ ہی انھیں روزگار مل جائے گا بلکہ وزیر اعظم کو عملی طور پر ان کی امداد کرنی چاہیے جس میں ہندوستانی حکومت ابھی تک ناکام ہے۔ جب سے کورونا وائرس کا خوف اور لاک ڈاؤن کا اعلان ہندوستان میں کیا گیاتب سے حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ہاں وزیر خزانہ نے لوگوں کو مدددینے کا اعلان ضرور کیا ہے لیکن اس پر عمل کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ عمل میں کب اور کیسے لایا جائے گا اس بات کو سوچ کر ہر کوئی پریشان اور الجھا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ جو دوسرے شہروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ضروری اشیا کی تقسیم اور فراہمی کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ وزرا گھروں میں بیٹھ کر لاک ڈان کا لطف لے رہے ہیں۔ گویا کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر کس طرح لوگ تین مہینے کا عرصہ گزاریں گے۔ ظاہر سی بات ہے روز کمانے اور کھانے والے مزدوراور کنٹریکٹ پرکام کرنے والوں پر تو لاک ڈان ایک قیامت کی طرح ٹوٹاہے جس سے ان کی نہ کہ صرف پریشانی بڑھی ہے بلکہ وہ غریب کس طرح اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بھرے گیں یہ سوچ کر پریشان ہے۔ ایسے کئی سوال ہیں جس کا نہ تو حکومت کے پاس کوئی جواب ہے اور نہ ہمارے اور آپ کے پاس۔
آج ہمیں خدمتِ خلق کرنے والے وولنٹئرکی اہمیت اوراس کی ضرورت کا شدّت سے احساس ہورہا ہے۔کورونا وائرس کی وباء سے جہاں ہر انسان پریشان اور گھبرایا ہوا ہے وہیں لاکھوں لوگ ان باتوں کی پرواہ نہ کر کے ان لوگوں کی مدد اور حفاظت کر رہے ہیں۔ ایسے تمام کارکنوں کے لیے ہم دعا گو ہیں۔ مجھے اس کا یقین ہے کہ ان اللہ ہم سب کی مدد کرے گا اور اس مشکل گھڑی میں ہماری پریشانیوں کو دور کرے گا۔ ایسے موقعے پر ظفر گورکھپوری صاحب کا یہ شعر بار بار ذہن کے دروازے پر دستک دے رہا ہے:
ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے
دیے کو زندہ رکھتی ہے ہوا ایسا بھی ہوتا ہے