ایک دفعہ امرتسر سے سرہند شریف جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے دستر خوان بچھے ہوئے ہیں اور کھانا کہیں یا پرشاد، بہت عزت و تکریم کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو پیش کیا جا رہا ہے اور میں نے یہ دستر خوان امرتسر سے لدھیانہ تک کے راستے میں دیکھے، غالباً سکھوں کا کوئی مقدس دن تھا اور اُن کے خیال میں اُس روز یا اُس مہینے نیکی کا ثواب زیادہ ملتا ہوگا۔ یہ منظر میں نے چند برس پیشتر دیکھا تھا جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ انڈیا گیا تھا۔
یہ واقعہ یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ اس سے سو گنا زیادہ خیرات رمضان کے مقدس مہینے میں کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس مہینے نیکی کا زیادہ ثواب ملتا ہے چنانچہ لوگ سال بھر کی زکوٰۃ، خیرات، صدقات وغیرہ کے لئے مختص رقم اس ماہِ مبارک میں خرچ کرتے ہیں۔ میں لاہور شہر میں بیسیوں مقامات ایسے دیکھتا ہوں جہاں افطاری کے وقت ہزاروں افراد کے کھانے کا بہت عمدہ اہتمام کیا گیا ہوتا ہے۔ میرا دوست محسن نقوی رمضان میں دس ہزار افراد کو روزانہ کھانا کھلاتا ہے، اس کے علاوہ کراچی میں بھی بیسیوں ایسے مقامات ہیں جہاں سڑکیں دستر خوانوں سے اَٹی ہوتی ہیں اور لوگ جی بھر کر کھاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پورے ملک میں سارا سال کئی لوگوں نے مفت دستر خوان دکانوں میں قائم کئے ہوئے ہیں جہاں کرسی میز پر ﷲ کے مہمانوں کو کھانا سرو کیا جاتا ہے۔ یہ کام سب سے زیادہ ملک ریاض کرتے ہیں، جماعت اسلامی اور بعض دوسری جماعتیں بھی اس سلسلے میں اپنا فرض انجام دیتی ہیں۔
اس تحریر سے میرا مقصد یہ ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے دہاڑی دار مزدور اور دوسرے کارکن بیروزگار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ ہمیں ماہِ رمضان کا انتظار نہیں کرنا چاہئے، ﷲ کے رستے میں جو کچھ آپ لاک ڈائون کے تمام دورانیے میں خرچ کریں گے، اس کا ثواب رمضان کے مہینے سے کم نہیں ملے گا۔ ’’اخوت‘‘ کے ڈاکٹر امجد ثاقب ایک طویل عرصے سے ضرورت مندوں کو کاروبار اور دوسرے امور کے لئے قرض حسنہ فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان دنوں ان کی تنظیم بیروزگاروں میں نقد رقم تقسیم کر رہی ہے۔ اخوت اپنے قیام سے اب تک اربوں روپے فلاحی کاموں پر خرچ کر چکی ہے جس میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ میری اخوت کے علاوہ اس نوع کی دوسری تنظیموں سے بھی گزارش ہے کہ جب تک لاک ڈائون ختم نہیں ہوتا، وہ باقی سب شعبوں کو معطل کر کے صرف ان خاندانوں کی بھوک مٹانے کی طرف توجہ دیں جو شاید مزید عرصہ اپنی تھوڑی بہت سیونگ کے سہارے نہ گزار سکیں اور یوں ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو جائے، جس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خدانخواستہ اگر اس بےچینی اور اضطراب میں اضافہ ہوا، اس کے بعد کا نقشہ میں مصلحتاً یہاں درج نہیں کر رہا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
ایک سب سے اہم بات یہ کہ جن تاجروں نے اس ملک سے اربوں روپے کمائے ہیں اور اس کا پورا ٹیکس بھی ادا نہیں کیا وہ کم از کم اپنے کارکنوں کی تنخواہیں ان کے گھروں تک پہنچائیں، ان کے محلات قائم رہیں، ان کے بچے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہیں، مگر وہ کم از کم اپنے کارکنوں کو تنخواہیں ضرور فراہم کرتے رہیں جس کی کل مالیات ان کی کسی بیٹی یا بیٹے کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ان کے پاس اتنا سرمایہ موجود ہے کہ وہ یہ کام برسوں تک بھی کرتے رہیں تو بھی ان کی آئندہ سات نسلیں گھر بیٹھے عیش و آرام کی زندگی بسر کر سکیں گی۔ اگر انہیں میری بات سمجھ نہیں آ رہی تو وہ وقت نکال کر تنگ آئے ہوئے عوام کا ردعمل انقلابِ فرانس اور اس نوع کے دوسرے انقلابات کی تاریخ میں یہ کہانیاں پڑھ لیں۔
باقی رہا اس گمبھیر صورتحال میں حکومت کا کردار، تو وہ اس سے کہیں زیادہ ’’ضروری‘‘ کاموں میں مصروف ہے، چلیں وہ ’’ضروری‘‘ کام بھی کرتے رہیں مگر جو اربوں روپوں کی رقم انہیں اس بحران سے نمٹنے کیلئے ملی ہے اور جو فنڈز انہوں نے خود بھی مختص کئے ہوئے ہیں، اس کی تقسیم غیرسیاسی بنیادوں پر کر دیں تو بھی ان کا شکریہ واجب ہو گا۔ ’’ٹائیگرز‘‘ کو شک کی نظروں سے دیکھنے والے اسے ایک سیاسی فورس سمجھتے ہیں، اگر حکومت اس ضمن میں نیک نامی کی خواہاں ہے اور خورد برد کے الزامات سے بچنا چاہتی ہے تو وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ حکومتی اور اپوزیشن کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے امدادی رقم حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچائے تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد بار بار حکومتی کوتاہیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں، کم از کم ان کی ہی سن لیں۔ کام خود بولتا ہے۔ سندھ حکومت کو عوام کی نظروں میں زیرو سمجھا جاتا تھا مگر اپنی شاندار کارکردگی سے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اسے ہیرو بنا دیا ہے۔ یہ کارکردگی اور عدم کارکردگی ہے جو ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنا سکتی ہے۔